غزہ کے مجبور، محصور اور مظلوم مسلمانوں کے خلاف 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیل کی جارحیت اور غیر انسانی ظلم و ستم کے ایک سال، ایک ماہ اور ایک ہفتے بعد چار درجن کے قریب مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی آنکھ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئی ہے اور 11 نومبر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم (او۔ آئی سی) اور عرب لیگ کا سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا ہے۔ اس عرصے میں اسرائیل پچاس ہزار کے قریب فلسطینی مسلمانوں کو شہادت کی موت سے ہم کنار کرچکا ہے جن میں سے ستّر فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ان نصف لاکھ شہدا کے علاوہ ایک لاکھ سے زائد زخموں سے کراہ رہے ہیں، اور باقی بے یارو مددگار پڑے بھوک اور پیاس سے بلبلا رہے ہیں مگر ان کے زخموں پر مرہم رکھنے، آہوں اور سسکیوں کو سننے، اور اس بے رحمانہ قتل و غارت گری میں مصروف ظالم اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ اس کے برعکس مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے دعویدار امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کھلم کھلا ناجائز اسرائیلی ریاست کی سرپرستی کررہے ہیں، ہر طرح کا جدید ترین اسلحہ، مالی، سیاسی و سفارتی تعاون اور تحفظ اسرائیل نامی عالمی دہشت گرد ریاست کو ببانگِ دہل فراہم کیا جارہا ہے، چنانچہ اس کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے… کوئی عبادت گاہ بمباری سے محفوظ رہی ہے نہ علاج گاہ… کسی اسکول کو چھوڑا گیا ہے نہ رہائشی آبادی کا خیال کیا گیا ہے… حتیٰ کہ پناہ گزیں کیمپوں اور ایمبولینس گاڑیوں تک کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ننھے منے معصوم بچے خصوصی ہدف کے طور پر تہِ تیغ کیے گئے ہیں… تمام عالمی اصولوں کو روندتے اور بین الاقوامی ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے اس اندھی جارحیت کے متاثرین، زخمیوں اور بیماروں کو خوراک اور ادویہ کی فراہمی بھی ناممکن بنادی گئی ہے۔ انسانیت اس صورتِ حال پر ماتم کناں ہے، عالمی ضمیر سو رہا ہے، اور اگر کہیں جاگ بھی رہا ہے تو کچھ کرنے پر، آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں۔ ایسے میں اسلامی تعاون تنظیم، جس کے ارکان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے اور وافر مادی و معدنی وسائل بھی عطا فرمائے ہیں مگر ایک بیماری جسے ’’وہن‘‘ کہا گیا ہے، لاحق ہے جو کچھ کرنے نہیں دیتی۔ بزدلی اور خوف کی ایک کیفیت ہے جو تمام مسلمان حکمرانوں پر طاری ہے اور یہ سب پر بھاری ہے۔ علامہ اقبال مرحوم نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا ؎
سبب کچھ اور ہے، تُو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں بھی مسلمان حکمرانوں کی یہ کیفیت نمایاں ہوکر سامنے آئی۔ اس اجلاس کو بھی مسلمان سربراہان کے ماضی کے اجلاسوں کی طرح ’’نشستند، گفتند، برخواستند‘‘ سے زیادہ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ رونے دھونے اور چیخ پکار پر مبنی تقاریر کے علاوہ 57 مسلمان ممالک کے اس سربراہی اجلاس کا حاصل ایک 36 نکاتی قرارداد تھی، وہ بھی اس لحاظ سے شاہکار ہے کہ کانفرنس کے شرکاء یا اسلامی تعاون تنظیم نے خود کچھ نہ کرنے کے عزم مصمم کا اعادہ کرتے ہوئے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں سے درخواستیں کی ہیں کہ وہ یہ بھی کریں اور وہ بھی کریں… مثلاً اقوام متحدہ اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کے لیے عالمی برادری کو راضی کرے۔ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد کرایا جائے، اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روکی جائے، جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جائے، غزہ میں مسلمانوں کی نسل کُشی روکی جائے، جنگ بندی کرائی جائے، بھوک اور فاقہ کشی سے دوچار غزہ کے باشندوں کو امداد کی فراہمی بحال کرائی جائے، اسرائیل کو لبنان اور ایران پر حملوں سے روکا جائے اور فلسطینی ریاست قائم کی جائے… غرضیکہ ’’جائے۔ جائے اور جائے…‘‘ کی ایک گردان ہے جو مسلم سربراہان کے اجلاس میں مسلسل دہرائی گئی ہے۔ کوئی ایک بھی کام… ایک بھی اقدام… خود اسلامی تعاون تنظیم یا عرب لیگ کی طرف سے ازخود کرنے کا عزم تو دور کی بات ہے، ارادہ تک ظاہر نہیں کیا گیا… جو صاف اور سیدھے لفظوں میں ’’جرمِ ضعیفی‘‘کا اظہار اور اعتراف ہے، جس کے متعلق شاعرِ مشرق نے کم و بیش ایک صدی قبل ہی فیصلہ سنا دیا تھا کہ ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے اس سربراہی اجلاس کی پوری روداد پڑھ جایئے، مجال ہے کہیں آپ کو اُس بم کا تذکرہ مل جائے جسے بڑے فخر سے ’’اسلامی ایٹم بم‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ آئے روز سو فیصد درست نشانے پر گرنے والے جن میزائلوں کے تجربات کی اطلاعات مسلمان عوام کو سنائی جاتی ہیں، مسلمان سربراہوں کے اجلاس میں ان کا بھی کہیں ذکر سنائی نہیں دیتا۔ یادش بخیر 57 میں سے تقریباً 40 مسلمان ملکوں نے مل کر ایک ’’اسلامی فوج‘‘ بھی تشکیل دی تھی۔ اس کی بازگشت بھی کہیں محسوس تک نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ بوسنیا ہو یا برما… کشمیر ہو یا فلسطین یا کوئی دوسرا خطہ… مسلمانوں کو کافروں کے ہاتھوں اگر گاجر مولی کی طرح کٹتے رہنا ہے اور دستِ قاتل کو روکنے، ٹوکنے کی ہمت، صلاحیت کے باوجود مسلمان حکمرانوں کو کچھ نہیں کرنا ہے تو اپنے عوام کو فاقوں سے دوچار کرکے کھربوں روپے کا اسلحہ کفار سے خریدنے اور لاکھوں نفوس کی افواج جمع کرنے کا مقصد آخر کیا ہے…؟ (حامد ریاض ڈوگر)