اعتدال اور میانہ روی

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:
’’تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں: چھپے اور ظاہر خدا سے ڈرنا، خوشی اور ناخوشی
میں حق بات کہنا، فقیری اور مالداری میں میانہ روی اختیار کرنا‘‘۔ (بیہقی)

اعتدال اور میانہ روی سے مراد ہے دو انتہاؤں کے درمیان کا راستہ اختیار کرنا، مثلاً مال خرچ کرنے کے معاملے میں فضول خرچی اور بخیلی کی انتہاؤں کو چھوڑ کر درمیانی سطح اختیار کرنا۔ اسلام کا سنہری اصول ہے کہ بہترین طریقہ میانہ روی ہے۔ قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”ہم نے مومنوں کو امتِ وسط یعنی درمیانی یا اعتدال پسند قوم بنایا ہے“ (البقرہ 2:143)۔ یہ ایک زبردست حقیقت ہے کہ مسلمان امت پہلی دو امتوں یعنی یہود و نصاریٰ میں (جو اب بھی موجود ہیں) ایک میانہ رو امت ہے۔ مثلاً اللہ کے انبیاء کرامؐ کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ لے لیں۔ یہودی، انبیاء کے گستاخ اور باغی رہے ہیں اور انہوں نے کچھ انبیاء کو قتل بھی کیا، جبکہ عیسائیوں نے اپنے نبی حضرت عیسیٰ ؑ کو شدتِ عقیدت و محبت سے خدا کا بیٹا اور خدا بنا لیا۔ تاہم مسلمان اپنے نبیؐ کو اللہ کا بندہ اور رسول قرار دیتے ہیں، نہ ان سے گستاخی کرتے ہیں اور نہ انہیں خدا بناتے ہیں۔ اسی طرح قصاص یا بدلہ لینے کے معاملے میں یہودی ایک انتہاء پر ہیں کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ جبکہ عیسائی دوسری انتہاء پر ہیں کہ ایک آدمی اگر آپ کے دائیں گال پر تھپڑ مارے تو بایاں گال بھی اس کے سامنے کردو۔ تاہم مسلمان درمیانی راستے پر ہیں کہ وہ بدلہ بھی لے سکتے ہیں مگر انہیں معاف کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔

معاشی میدان میں بھی اسلام نے اپنے پیروؤں کے لیے اعتدال کے راستے کو پسند کیا ہے۔ نہ تو انہیں مادہ پرستی یعنی دولت کے انبار لگانے کا حکم دیا گیا ہے، اور نہ ہی انہیں رہبانیت یعنی دنیا سے ریٹائر ہوکر درویشی کی زندگی اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ وہ دولت کما سکتے ہیں مگر حلال طریقوں سے حدود میں رہ کر۔ مال خرچ کرنے کے معاملے میں بھی انہیں میانہ روی اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، نہ وہ کنجوسی کریں اور نہ فضول خرچی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے یعنی صدقہ و خیرات پر قرآن و حدیث نے بڑا زور دیا ہے، لیکن اس معاملے میں بھی سب کچھ خرچ کر ڈالنے کی اجازت نہیں۔ پہلے اپنی ضروریات پوری کریں، جو بچے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ عبادت کے بارے میں بھی اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ جتنی آسانی سے کرسکتے ہو کرو، اپنی طاقت سے زیادہ نہ کرو۔ اسی طرح کھانے میں اعتدال کرو اور زیادہ نہ کھاؤ۔ نماز نہ بہت اونچی آواز سے، نہ بالکل آہستہ آواز سے پڑھو۔