امریکہ کی پالیسی کسی بھی طور پر شخصیات کے گرد نہیں گھومتی، اور نہ ہی فردِ واحد کو بنیاد بناکر امریکہ اپنی پالیسی بناتا ہے،
عمومی طور پر امریکہ کے انتخابات کے سیاسی اثرات ہمارے جیسے ملکوں پر بھی پڑتے ہیں، کیونکہ ایسے ممالک جن کا بڑا انحصار امریکہ یا بڑی طاقتوں پر ہوتا ہے اُن کے لیے امریکہ میں ہونے والی تبدیلی کو کسی بھی طور پر نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں انتخابات ہوں اور وہاں انتخابی مہم چل رہی ہو تو ایسے لگتا ہے کہ ہمارے میڈیا پر بھی یہ انتخابات اور ان کے نتائج بالادست ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے تمام سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین جن میں خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ اور امریکی میڈیا قابلِ ذکر ہے، کو شکست دے کر صدارت کے منصب پر پہنچے ہیں۔ ان کے خلاف کئی مقدمات بنائے گئے، انہیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی، اور خاص طور پر ان کی کردارکُشی بھی کی گئی، مگر اس کے باوجود وہ بڑی طاقتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مقبولیت میں بہت آگے تھے اورعوام ان ہی کو صدر کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ یقینی طور پر پاپولرازم کی جیت ہے مگر اس کے سیاسی محرکات بھی ہیں۔ اگر جوبائیڈن کے دورِ حکومت کا جائزہ لیں تو ان کے دور میں امریکی داخلی اور خارجی سیاست اور بالخصوص مشرق وسطیٰ یا عرب دنیا سے متعلق جو فیصلے کیے گئے، یا مسلم دنیا کے خلاف اسرائیل کی کھلی اور ننگی جارحیت کی سرپرستی کی گئی، داخلی سیاست میں معیشت کا معاملہ تھا یا جو مہنگائی اور بے روزگاری بڑھی اس کا فائدہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف خوب اٹھایا اور اپنی جیت کو یقینی بنایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں بلکہ انہیں اتنی عددی برتری حاصل ہوئی ہے کہ اب وہ ایک طاقت ور صدر کے طور پر سامنے آئیں گے اور ان کی اس جیت یا منصب کو دنیا آسانی سے نظرانداز نہیں کرے گی، اور دنیا بھر کے ممالک کی کوشش ہوگی کہ وہ نئے امریکی صدر کے ساتھ امکانات کی دنیا پیدا کریں۔
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے چرچے ہیں۔ یہاں حکمران طبقے کا خیال تھا کہ کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہے تو ان کی جیت کو یقینی نہیں بنایا جائے گا۔ ہمارے حکمران طبقے کی زیادہ تر ہمدردیاں کملا ہیرس کے ساتھ تھیں، اور یہ طبقہ ماضی میں نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتا تھا بلکہ ان کی کئی حوالوں سے تضحیک بھی کی جاتی تھی۔ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے تو اپنے سیاسی مخالف عمران خان کو پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ قرار دیا تھا اور باقاعدہ ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد یقینی طور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی کوشش ہوگی کہ وہ امریکہ اور نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنائیں۔ خاص طور پر ماضی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کے تعلقات ریپبلکن پارٹی کے دور ہی میں زیادہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر نہ صرف ان کو مبارک باد دی بلکہ مل کر کام کرنے کا عزم بھی دہرایا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت یا مخالفت دو حوالوں سے دیکھنے کو مل رہی ہے اور اسی بنیاد پر میڈیا میں قصے عام ہیں۔ اوّل، پی ٹی آئی اور اس کے حامی بہت زیادہ خوش ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد عمران خان کی رہائی ممکن ہوگی۔ ان کے بقول ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے دوست ہیں، اور پی ٹی آئی کے حامیوں نے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کھل کر حمایت کی ہے اور اُن کی جیت میں پی ٹی آئی کے حامیوں کا بھی حصہ ہے۔ دوئم، حکومت سمجھتی ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت میں ہم پر کوئی ایسا دبائو نہیں ڈالے گا جس کا براہِ راست تعلق عمران خان سے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی وزرا کھل کر پی ٹی آئی کے مؤقف کی مخالفت کررہے ہیں اور اُن کے بقول پی ٹی آئی امریکہ کو ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کی دعوت دے رہی ہے۔
بنیادی طور پر امریکہ کی پالیسی کسی بھی طور پر شخصیات کے گرد نہیں گھومتی، اور نہ ہی فردِ واحد کو بنیاد بناکر امریکہ اپنی پالیسی بناتا ہے، اُس کی توجہ کا مرکز باہمی مفادات ہوتے ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کے حامیوں کو زیادہ گرم جوش ہونے کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی وہ ایسا بیانیہ بنائیں کہ امریکی صدر کی وجہ سے عمران خان باہر آئیں گے۔ عمران خان نے خود بھی درست بات کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی رہائی پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اور وہ عدالتوں کی مدد سے ہی رہا ہوسکیں گے۔ اس لیے پی ٹی آئی کے حامی ہوں یا اس کے مخالفین… سب کو اپنی اپنی سطح پر جذباتیت کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔ اصل میں حکمرانوں کو اپنی سیاسی بقا کا خطرہ لاحق ہے اور انہیں معلوم ہے کہ وہ خود کس طرح اقتدار میں آئے ہیں، اسی خوف کی وجہ سے ان کو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ان کے خلاف امریکہ میں ایسی سفارت کاری کرنے جارہی ہے جس سے ان کی حکومت کو دبائو میں لانا اور عمران خان کو ریلیف دلوانا مقصود ہے۔ اصل میں ڈونلڈ ٹرمپ واقعی عمران خان کے حامی ہیں مگر اُن کی پہلی ترجیح داخلی سیاست سے جڑے معاملات ہیں، اور وہ فوری طور پر ان ہی معاملات پر توجہ دیں گے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ پر دبائو تو ہوگا کہ وہ پاکستان اور عمران خان کے معاملات سے نظریں نہ چرائیں۔ خاص طور پر امریکہ میں موجود طاقت ور پاکستانی حلقے اور ڈونلڈ ٹرمپ فیملی کا خاصا گہرا تعلق ہے، اور اسی تعلق کی بنیاد پر امریکہ پر عمران خان کی حمایت کے لیے دبائو بڑھایا جائے گا۔ لیکن فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہوسکے گا جو پی ٹی آئی سوچ رہی ہے۔ البتہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ امریکہ یا ڈونلڈ ٹرمپ خود تو براہِ راست عمران خان کی حمایت میں موجودہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ نہ کریں، مگر وہ ان کی حمایت میں ایک خاموش ڈپلومیسی جاری رکھیں گے، اور ان کی خاموش ڈپلومیسی سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کی مدد سے ہوگی جس کے ذریعے وہ پاکستان پر دبائو بڑھائیں گے۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر رپورٹ جاری کی ہے جس میں انسانی حقوق کی پامالی، عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے اور ایک سیاسی جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر پاکستان کو خوب رگڑا گیا ہے۔ اب آئی ایم ایف کی جانب سے بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے، اور اُسے گلہ ہے کہ جو وعدے ہم سے کیے گئے تھے ان اہداف کو حاصل کرنے میں حکومت ناکام رہی ہے۔ امریکہ پاکستان پر اس لیے بھی دبائو بڑھائے گا کہ اُس کے ایجنڈے میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو نمایاں طور پرجگہ دی جاتی ہے اور ان پر رائے رکھنا اور حکومتوں کو جواب دہ بنانا امریکہ کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔
پاکستان کو ایک بات سمجھنی ہوگی کہ امریکہ کے نزدیک ہم اُس کے اسٹرے ٹیجک پارٹنر نہیں ہیں، اور اس کی ترجیحات اور توجہ کا مرکز پہلے بھی بھارت تھا اور اب بھی بھارت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ یہ تحفظات رہے ہیں کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان سیاسی رومانس اور دفاعی معاہدے ہمارے مفاد میں نہیں۔ امریکہ اور پاکستان میں کئی حوالوں سے بداعتمادی کا ماحول بھی ہے اور امریکہ کو لگتا ہے کہ پاکستان کا جھکائو اب امریکہ پر کم اور چین پر بڑھتا جارہا ہے۔ اس لیے امریکہ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر تحفظات رکھتا ہے،کیونکہ جب اسے پاکستان سے یہ آوازیں سننے کو ملتی ہیں کہ اب ہمارا بڑا پارٹنر امریکہ نہیں بلکہ چین ہے تو امریکہ کا ردعمل آنا فطری ہوتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے حالات خراب نہ ہوں، اور نہ ہی افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کا مرکز بنے، مگر اس عمل میں اسے پاکستا ن کا تعاون درکار ہے۔ اس لیے امریکہ کسی بھی صورت میں پاکستان کو نظرانداز نہیں کرے گا بلکہ اُس کی کوشش یہی ہوگی کہ وہ پاکستان کو اپنے ساتھ جوڑے رکھے۔ لیکن پاکستان کے لیے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ کس طریقے سے امریکہ اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایسا توازن پیدا کرے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ کی نئی قیادت دو معاملات میں ہماری کھل کر مدد کرے:
(1) بھارت پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی، مذاکرات اور مفاہمت کے لیے دبائو ڈالے۔
(2) امریکہ بھارت پر یہ بھی دبائو ڈالے کہ وہ افغانستان کے تناظر میں پاکستان کی کھل کر حمایت کرے، خاص طور پر افغانستان ٹی ٹی پی کے معاملے میں ہمارے تحفظات پر توجہ دے۔
ایسی ہی توقع پاکستان مسئلہ افغانستان کے حل میں چین سے بھی رکھتا ہے، کیونکہ پاکستان کو اندازہ ہے کہ بھارت کی مدد سے افغانستان ہمارے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے۔
لیکن ہمیں امریکہ کی نئی حکومت اور ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں اس لیے کہ اِس وقت ہم امریکہ کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں، کیونکہ امریکی سیکورٹی اور علاقائی سیاست میں پاکستان وہ کچھ نہیں کرسکا جس کی توقع امریکہ کو تھی۔
پاکستان کی بنیادی مشکل کمزور معیشت، سیاسی عدم استحکام، سیکورٹی یا دہشت گردی کے حالات، گورننس کے نظام کی ناکامی اور سیاسی تقسیم جیسے مسائل ہیں۔ ان مسائل کی موجودگی میں اگر ہم امریکہ سے بہتر تعلقات کی توقع رکھتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی توجہ کا مرکز پاکستان ہوگا تو ہمیں اس غلط فہمی سے باہر نکلنا ہوگا۔ امریکہ کسی بھی صورت میں پاکستا ن کے لیے آگے بڑھ کر بھارت یا افغانستان پر وہ دبائو نہیں ڈالے گا جس کی توقع ہمیں ہے۔ اسی طرح جب تک پاکستان کا سیاسی، جمہوری، انسانی حقوق اور رواداری سمیت انتہا پسندی کا مقدمہ درست نہیں ہوگا امریکہ پر دنیا سے یہ دبائو بڑھتا جائے گا کہ وہ پاکستان کی ان حالات میں کیوں حمایت کررہا ہے، یا پاکستان کو ان اہم معاملات پر کیوں جواب دہ نہیں بناتا؟ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی داخلی سیاست کے مسائل کو بنیاد بناکر باہر بیٹھے ہوئے پاکستانیوں کو اپنا مخالف بنالیا ہے، اور اب وہ باہر بیٹھ کر پاکستان کے نظام پر سخت تنقید کررہے ہیں۔ ویسے بھی بھارت کی جو حکمت عملی ہے اس میں پاکستان پر دبائو بڑھانا ہی مقصود ہے، اوراب اُسے اس کام میں افغانستان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک حد سے زیادہ بھارت پر دبائو نہیں ڈالے گا تاکہ اس کے اور بھارت کے درمیان تعلقات میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔ پاکستان کا امتحان یہ ہے کہ اسے امریکہ اور چین کے تناظر میں توازن پر مبنی پالیسی درکار ہے، اور یہ کام ہمیں ہر صورت میں کرنا ہے۔ کیونکہ اگر ہمیں علاقائی تعاون اور علاقائی معیشت کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنانا ہوگی۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے گھر کے معاملات کو درست کرنے میں پہل کرنا ہوگی۔ کیونکہ جب تک ہم اپنی داخلی غلطیوں کا ادراک نہیں کریں گے اور ان کی درستی کو یقینی نہیں بنائیں گے، تب تک علاقائی سیاست ہو یا امریکہ کے ساتھ تعلقات… ہمیں کوئی بہتری نہیں مل سکے گی۔ کیونکہ امریکہ کی توجہ کا مرکز اس وقت خطے کی سیاست میں افغانستان اور چین ہے، اور اسی بنیاد پر امریکہ پاکستان کی طرف دیکھے گا۔ اس لیے امریکہ کی طرف دیکھنے سے پہلے پاکستان کو اپنے معاملات کی درستی پر توجہ دینی ہوگی اور اس کا فیصلہ یا تعین کرنا ہوگا کہ اس کی داخلی،علاقائی اور عالمی سیاست میں کیا کیا ترجیحات ہیں اور وہ کس طرح سے اپنی حکمت عملی کو وضع کرکے امریکہ کی طرف دیکھتا ہے۔