قصۂ یک درویش! میری گرفتاری کی داستان

چھتیسویں قسط

اس واقعے میں جو کچھ ہوا وہ ایک استاد کی توہین کے مترادف ہے، اور اس پر کوئی مجھے جو کچھ بھی کہے، میں اُس کے سامنے کوئی حجت پیش نہیں کروں گا، لیکن خدا گواہ ہے کہ ان اخباری اور سرکاری بیانات میں ذرّہ برابر بھی سچائی نہیں جن میں یہ کہا گیا تھا کہ طلبہ نے علامہ صاحب پر ہاتھ اٹھایا یا اُن کی داڑھی پکڑی، یا اُن کے مکان کے شیشے توڑ دیے یا ان کی ٹیلی فون لائن کاٹ دی۔ جو کچھ ہوا وہ میں نے بلا کم و کاست اوپر بیان کردیا ہے۔ علامہ صاحب نے عدالت میں جو بیان دیا تھا وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس کو دیکھنے سے بھی حقیقت کی جھلکی نظر آسکتی ہے۔ آگے عدالت کی کارروائی میں وہ بیان آرہا ہے۔

میں یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ اگر ہماری نیت توڑ پھوڑ کی ہوتی تو یقیناً مَیں اور تنویر عباس تابش یا ڈاکٹر محمد کمال علامہ صاحب کے گھر نہ جاتے، بلکہ ایسے طلبہ کو بھیجا جاتا جن کی شناخت نہ ہوسکتی۔ پھر بعض لوگوں نے اس بات کو بھی خاصی ہوا دی کہ رات ہی کو علامہ صاحب کے گھر جانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ اس معاملے میں عرض یہ ہے کہ ایک تو میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ بارہا راتوں کو میں اس سے قبل بھی علامہ صاحب کے ہاں ملنے کے لیے جا چکا تھا۔ یہ ملاقات نہ پہلی تھی، نہ اس میں کوئی اچنبھا تھا۔ دوسرے ہماری درخواست پریس ریلیز رکوانے کی تھی جو اخبارات کے دفاتر میں اُسی شام جا چکی تھی اور اگر اُسی وقت ہم محترم علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر نہ ہوتے تو ان کا اعلان شائع ہوجاتا۔

عام فہم بات ہے کہ کسی اعلان کے شائع ہوجانے کے بعد اسے بدلنا مشکل اور مضحکہ خیز ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ قبل از اشاعت اسے تبدیل کردیا جائے۔ ایک اور بات جو قابلِ لحاظ ہے وہ ہمارا یہ مطالبہ تھا کہ پروفیسر امتیاز علی صاحب کو بلوا لیا جائے، اور عملاً انھیں بلوایا بھی گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ توڑ پھوڑ کا ارادہ کرکے آنے والے اپنے خلاف اتنے اہم اور اعلیٰ منصب پر فائز گواہوں کو خود تو نہیں بلایا کرتے۔ پروفیسر امتیاز علی صاحب نے بھی علامہ صاحب سے عرض کیا کہ ایسی پریس ریلیز بھیجنے سے قبل الیکشن کمیشن سے مشورہ ہوجاتا تو بہتر ہوتا۔

علامہ صاحب کے ہاں سے نکلنے کے بعد طلبہ اپنے اپنے ہاسٹلوں میں چلے گئے۔ جو ناخوشگوار واقعہ ظہور پذیر ہوچکا تھا اس پر میں نے باہر نکل کر بھی اپنے دوستوں سے ناراضی کا اظہار کیا، اور رات بھر اس کا اثر میرے ذہن پر رہا۔ اگلے روز میں صبح سویرے علامہ صاحب سے ملنے اُن کے دفتر گیا کہ اس ناخوشگوار واقعے پر اُن سے معذرت کرکے معافی مانگوں۔ پتا چلا کہ علامہ صاحب ایس ٹی سی (نیوکیمپس) میں پولیس افسروں کے ساتھ ملاقات میں مصروف ہیں اور تھوڑی دیر تک آنے والے ہیں۔ میں نے بہت دیر انتظار کیا۔ میرے ساتھ دو تین جمعیتی ساتھی اور بھی تھے۔ ہم علامہ صاحب کے اولڈ کیمپس والے دفتر کے باہر بیٹھے تھے کہ علامہ صاحب پولیس افسروں کی معیت میں تشریف لائے اور دوسرے دروازے سے اندر چلے گئے۔ پولیس کے بہت سے سپاہی اِدھر اُدھر چوکس کھڑے تھے۔

میں نے علامہ صاحب کو اُن کے پی اے کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ میں اُن سے مختصر ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ پی اے نے آکر جواب دیا کہ اندر سے اطلاع آئی ہے کہ آج علامہ صاحب ازحد مصروف ہیں اور ملاقات نہیں ہوسکتی۔ اسی دوران جہانگیر بدر اور اس کے چار پانچ ساتھی وہاں آگئے۔ حیرانی کی بات یہ کہ بارک اللہ خان بھی اس گروپ میں ان کے ساتھ تھے۔ یہ سب لوگ ہمارے خلاف کھسیانے انداز میں نعرے لگا رہے تھے۔ ایک دو منٹ نعرے لگانے کے بعد وہ وہاں سے کھسک گئے۔ میرے ساتھ اس وقت میڈیکل کالج کے تین طلبہ ڈاکٹر محمد یونس، ڈاکٹر محمد رفیق خیالی اور ڈاکٹر خالد نواز تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ اب یہاں سے چلنا چاہیے کیوںکہ ملاقات کا تو امکان نہیں ہے۔

ہم وہاں سے ابھی اٹھ ہی رہے تھے کہ زاہد بخاری، نسیم انصاری، عبدالوحید سلیمانی، اشفاق حسین، عبدالجبار قریشی اور چودھری محمد اعظم (سوشل ورک ڈپارٹمنٹ) بھی آگئے۔ شاید ایک آدھ ساتھی اور بھی تھے مگر اِس وقت ان کے نام یاد نہیں۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے ان دوستوں سے کہا ’’دیکھو! ہر جانب پولیس وردی میں اور سادہ کپڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگر میں یہاں گرفتار ہوگیا تو خیر، ورنہ میرا ارادہ ہے کہ آج رات میڈیکل کالج ہاسٹل میں نیند پوری کرلوں اور کل پریس کانفرنس کرکے ساری صورتِ حال واضح کردوں اور وہیں اعلان کردوں کہ پولیس مجھے گرفتار کرنا چاہتی ہے تو میں حاضرہوں۔‘‘

دوستوں نے میری رائے سے اتفاق کیا اور سارے میرے گرد گھیرا ڈال کر چلنے لگے۔ اولڈ کیمپس سے مال روڈ کی جانب ہم انارکلی کی سائیڈ والے گیٹ سے باہر نکلے۔ ہر لمحے خیال تھا کہ ابھی گرفتاری ہوجائے گی۔ نمازِعصر کا وقت ہونے والا تھا اور میں نے ابھی تک ظہر کی نماز بھی ادا نہ کی تھی۔ ہم نے طے کیا کہ اپنے مہربان بزرگوار اور دوست عزیزالرحمان خاں صاحب کی دکان پر جائیں، وہاں نمازیں بھی پڑھ لیں اور چائے بھی پی لیں۔ پھر وہاں سے میڈیکل کالج چلے جائیں گے۔ عزیز الرحمان صاحب کی دکان قریب ہی تھی۔

عزیزالرحمان صاحب کے ہاں ہم اکثر جاتے آتے رہتے تھے۔ ان سے خاصی محبت و بے تکلفی تھی۔ چند منٹوں میں ہم ان کے ہاں پہنچے، میں نے وضو کیا اور نمازِ ظہر اور نمازِ عصر پڑھی۔ خان صاحب نے سب ساتھیوں کے لیے چائے، سموسے اور کیک منگوائے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے خان صاحب نے مشورہ دیا کہ باقی سارے ساتھی تو چلے جائیں، صرف دو رفقاء میرے ساتھ رہ جائیں۔ چناں چہ نسیم انصاری اور زاہد بخاری وہاں رہ گئے اور باقی ساتھی چلے گئے۔

عزیز الرحمان صاحب نے فون کرکے امیر جماعت اسلامی لاہور چودھری غلام جیلانی صاحب اور ناظم دفتر سعید مغل صاحب کو بلوایا۔ جماعت کا دفتر نیلاگنبد میں قریب ہی تھا۔ دونوں حضرات تھوڑی دیر میں پہنچ گئے۔ ساری صورتِ حال اُن کے سامنے رکھی گئی اور مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ میڈیکل کالج میں جانے کے بجائے رات سعید مغل صاحب کے گھر شاہدرہ میں گزاری جائے اور سوائے زاہد بخاری اور نسیم انصاری کے کسی کو پتا نہ ہو کہ میں کہاں ہوں۔ یہ بات بالکل واضح اور طے شدہ تھی کہ اگلے دن ارکانِ جمعیت پریس کانفرنس کا اہتمام کریں گے اور اس کے مطابق مجھے اطلاع دی جائے گی۔ ہم چاروں ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر شاہدرہ چلے گئے۔ سعید مغل صاحب کے ہاں پہنچ کر زاہد اور نسیم کو واپس شہر بھیج دیا کہ دوستوں کو صرف اتنا بتادیں کہ میں ایک محفوظ مقام پر ہوں اور یہ کہ میں کل ان کی آمد کا منتظر رہوں گا۔

اگلے روز صبح ناشتے کے بعد مغل صاحب مجھے سیر کے لیے اپنے ساتھ لے کر کھیتوں اور قریب کے دیہاتی علاقے میں چلے گئے۔ گندم کے ہرے بھرے کھیت، کئی جگہوں پر سرسوں کے پھولوںکی بہار، کہیں کہیں گنے کی خوب صورت فصل، مال مویشیوں کے چارے برسیم، لوسن وغیرہ کی کٹائی میں لگے ہوئے کسان… ہر منظر میرے لیے خوش کن تھا۔ ظہر کے بعد ہم گھر واپس لوٹے تو پتا چلا کہ شہر سے ابھی تک کوئی قاصد نہیں آیا جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ میں نے مغل صاحب سے کہا بھی کہ ہم خود ہی شہر چلیں، مگر انھوں نے مزید کچھ دیر انتظار کا مشورہ دیا۔ اسی انتظار میں رات ہوگئی۔

رات نمازِ عشا اور کھانے کے بعد دیر تک میں مختلف کتب کی ورق گردانی کرتا رہا اور تقریباً بارہ ساڑھے بارہ بجے سوگیا۔ اُس روز کے اخبارات میں ہمارے خلاف وہ ساری سچی جھوٹی باتیں چھپیں جن کی بنیاد پر ہم گردن زدنی ٹھیرے۔ میں ذہن میں اخبارات کی ان رپورٹوں کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا کہ پریس کے لیے اپنا بیان کن لائنوں اور نکات پر مرتب کروں۔ بستر پر لیٹتے ہی میں گہری نیند سوگیا۔ سوتے میں بھی میں اخباری نمائندوں سے ہی مخاطب اور ان کے مختلف سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔

آنکھ لگے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ٹائم دیکھا تو ایک بج رہا تھا۔ میں بیٹھک میں سو رہا تھا جو بیرونی دروازے کے بالکل ساتھ تھی۔ مغل صاحب مکان کے اندرونی حصے میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ آرام فرما رہے تھے۔ لائٹ جلا کر میں نے پوچھا ’’کون؟‘‘ زاہد بخاری کی آواز آئی ’’ہم ہیں‘‘۔ میں نے دروازہ کھولا تو نسیم اور زاہد دونوں کھڑے تھے اور ذرا فاصلے پر گلی میں پولیس کے کچھ آدمی نظر آرہے تھے۔ میں نے انہیں کہا ’’تم لوگ گرفتار تو نہیں ہوگئے؟‘‘ کہنے لگے ’’نہیں، آپ کے ایک رشتے دار پولیس افسر اور حلقۂ احباب کے ایک ساتھی [پروفیسر عثمان غنی مرحوم] بھی باہر سڑک پر کھڑے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’اچھا مجھے کپڑے پہن لینے دو اور مغل صاحب کو آواز دے دو وہ اندر سے دروازہ بند کرلیں۔‘‘

میں ایک دو منٹ میں تیار ہوگیا۔ دو منٹ بعد مغل صاحب بھی آگئے۔ ان سے اجازت لے کر میں باہر نکل گیا۔ میرے عزیز بزرگوار چودھری محمد صدیق انسپکٹر پولیس سب سے پہلے مجھ سے ملے، مجھے معلوم تھا کہ میں گرفتار ہوگیا ہوں۔ صدیق صاحب اُن دنوں چوہنگ یا کاہنہ تھانہ میں تھے۔ آپ کا تعلق ہمارے گائوں اور برداری سے تھا۔ میںنے زاہد اور نسیم سے سرزنش کے انداز میں کہا ’’آپ لوگوں نے پروگرام اور فیصلے کے خلاف کام کیا ہے اور ساری اسکیم دریا برد کردی ہے۔ مجھے گرفتاری کی کوئی پروا نہیں، مگر اب میری گرفتاری کے بعد مخالفانہ پروپیگنڈے اور جھوٹے اخباری بیانات کا جواب کون دے گا؟‘‘ انہوں نے معذرت کے انداز میں کہا ’’آپ سے تفصیلی بات بعد میں کریں گے۔‘‘

یوں تو کوئی بھی ساتھی پریس کانفرنس میں سوالوں کے جواب دے سکتا تھا مگر چوںکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ دوسرے ساتھی بھی مصیبت میں پھنسیں، اس لیے پریس کانفرنس مَیں خود ہی کرنا چاہتا تھا، کیوں کہ ایک تو میں منتخب صدر یونین اور جمعیت کا ناظم تھا اور دوسرے اس رات میری موجودگی تو سب کو معلوم تھی، باقی لوگوں کا کسی کو علم نہ تھا۔ اب یہ ساری منصوبہ بندی قصۂ پارینہ بن گئی۔ حقیقت یہی ہے کہ ’’تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ!‘‘

پولیس کی تین گاڑیاں گلی میں کھڑی تھیں۔ ایک میں حلقۂ احباب کے ساتھی پروفیسر عثمان غنی صاحب، زاہد بخاری اور کچھ پولیس والے بیٹھ گئے، دوسری گاڑی میں مَیں، نسیم انصاری، چودھری صدیق صاحب اور پولیس کا ڈرائیور، اور تیسری میں باقی سب پولیس والے بیٹھے ہوئے تھے۔ شاہدرہ سے ہم سول لائنز تھانے لائے گئے۔ وہاں لکھت پڑھت کی سرکاری کارروائی کے بعد مجھے ایک حوالاتی کمرے میں لے جایا گیا، جس میں مجھ سے قبل وہاں تین یا چار بے گناہ طالب علم بلاوجہ بند تھے۔ ایک فاروق خان تھے، دوسرے اجمل ملک اور باقی یاد نہیں کون تھے، یہ طلبہ ہمارے سپورٹراور میرے ذاتی دوست تھے۔ ہمیں وہاں چھوڑ کر باقی افراد گھروں کو چلے گئے۔ ان طلبہ کی گھبراہٹ دیکھ کر میں نے انہیں تسلی دی کہ وہ کوئی فکر نہ کریں، ’’اصل مجرم‘‘ آگیا ہے۔ اِن شاء اللہ! انہیں جلد ہی رہائی مل جائے گی۔ مجھ سے مل کر ان کو خاصا حوصلہ ہوا۔

تھانہ سول لائنز کے انچارج ڈی ایس پی محمد اصغر خان نوانی تھے جو اُن دنوں ہلاکو خان کے نام سے مشہور یا بدنام تھے۔ لوگوں کو ان سے بڑی شکایات تھیں اور ان کی داستان ہائے ستم زبان زدِ عام تھیں۔ اسی کی وجہ سے ان کو ہلاکو خان کہا جاتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی میں ریکارڈ پر لے آنا چاہتا ہوں کہ باقی لوگوں سے اصغر خان صاحب کا سلوک پتا نہیں کس قسم کا رہا ہوگا، جہاں تک میرا معاملہ ہے انھوں نے میرے ساتھ نہایت شریفانہ برتاؤ کیا۔ حوالات کے چند ایام کے دوران موصوف بڑی ہی عزت سے پیش آتے رہے اور تین چار دن کے قیام میں آپ سے اس قدر دوستانہ مراسم قائم ہوگئے کہ اپنے دفتر میں بلاکر دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہتے، یہاں تک کہ کبھی کبھار اپنے بچوں اور گھریلو معاملات کے بارے میں صلاح مشورے بھی کرتے۔ بھکر میں ان کا آبائی گھر اور اچھی خاصی وراثتی زرعی زمینیں تھیں۔ زرعی امور کے بارے میں بھی گفتگو ہوتی رہتی۔ میں بھی اپنے خاندانی پس منظر اور زراعت سے وابستگی کا تذکرہ کرتا تو کئی سوال پوچھتے۔(جاری ہے)