حکومت نے سیاحتی مقاصد کے لیے سفاری ٹرین اور بس سروس کی بھی منظوری دی ہے
قدرت نے پاکستان اور بالخصوص خیبرپختون خوا کو جن بے شمار قدرتی وسائل سے مالامال کررکھا ہے ان میں ایک اہم شعبہ سیاحت کا ہے، جس میں ترقی اور اس سے کثیر آمدن کے وسیع مواقع دستیاب ہونے کے باوجود یہ شعبہ حکومتی سطح پر مسلسل نظرانداز چلا آرہا ہے، حالانکہ معیشت میں سیاحت کا اہم حصہ ہونے کی بنا پر اب اس شعبے نے ایک صنعت کا درجہ حاصل کرلیا ہے اور دنیا کے بے شمار ممالک اس صنعت سے اچھی طرح استفادہ کررہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پوری دنیا میں سیاحت کی صنعت 330 ملین افراد کو ملازمت کے مواقع فراہم کررہی ہے۔ یہ صنعت 10 فیصد شرح کے حساب سے دنیا کی جی ڈی پی میں ہر سال 8.9 ارب ڈالر کا حصہ ڈال رہی ہے۔ دنیا کے 44 ممالک کی معیشت میں سیاحت کی صعنت کا 15 فیصد حصہ ہے اور یہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے ایک اہم صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ دور میں سیاحت صرف مقدس یا دلکش مقامات کی سیر کرنے کی حد تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ صنعت بے شمار اقسام میں تقسیم ہوچکی ہے، جس میں ماحولیاتی ٹورازم، تاریخی ٹورازم، کلچرل ٹورازم، ایڈونچر ٹورازم، ہیلتھ ٹورازم، مذہبی ٹورازم، ویلیج ٹورازم اور جنگلی حیات ٹورازم نمایاں ہیں۔ پاکستان چونکہ مختلف تہذیبوں کا مسکن رہ چکا ہے جس میں آریائی تہذیب سے لے کر گندھارا اور ہڑپہ تہذیبیں نمایاں خصوصیات کی حامل ہیں اس لیے دنیا بھر سے سیاح ان تہذیبوں کے قدیم آثار دیکھنے کے لیے ہر سال بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ اسی طرح یہاں اگر ایک طرف خوبصورت قدرتی مقامات سیاحوں کی توجہ کے حامل ہیں تو دوسری طرف یہاں مذہبی سیاحت کے لیے کئی مقدس مقامات بھی موجود ہیں۔
سیاحت کی ترقی کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ خیبر پختون خوا حکومت نے اس نظرانداز شعبے کی جانب توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر چھوٹے ڈیموں کو پکنک پوائنٹس کے طور پر متعارف کرانا اور ان اسپاٹس کو ترقی دینا ہے۔ سیاحت کے لیے یہ مقامات پورے صوبے میں بنائے جائیں گے، ابتدائی طور پر پانچ ڈیموں پر پکنک پوائنٹس بنانے کا فیصلہ ہوا جس میں صوابی میں کنڈ ڈیم، نوشہرہ میں جلوزئی ڈیم، کوہاٹ میں تھاندہ ڈیم، ہری پور میں چتری ڈیم اور ایبٹ آباد میں جانگڑا ڈیم شامل ہیں۔ ان مقامات پر سیاحوں کو ریسٹورنٹ اور پارکنگ پر مشتمل مختلف سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کی حکومت نے سیاحتی مقاصد کے لیے سفاری ٹرین اور بس سروس کی بھی منظوری دی ہے۔ سفاری ٹرین پشاور سے اٹک اور پشاور سے تخت بھائی تک چلائی جائے گی۔ بس سروس سیاحوں کو پشاور میں سیاحتی سہولیات فراہم کرے گی۔ خیبر پختون خوا کی حکومت نے ضلع اپر دیر کمراٹ میں دنیا کے بڑے اور اونچے کیبل کار پراجیکٹ کی بھی منظوری دی ہے جس کی لمبائی 14 کلومیٹر ہے اور اس پراجیکٹ کو 32 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔ اس پراجیکٹ کے ذریعے کمراٹ درے کو لوئر چترال مداکلاشٹ درے کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ خیبر پختون خوا میں ایک طرف کمراٹ، سوات، ناران،کاغان، چترال، ایبٹ آباد، صوابی، گلیات، ملاکنڈ، بونیر اور بٹگرام کے علاقے قدرتی خوبصورتی سے مالامال ہیں تو دوسری طرف ضم شدہ قبائلی علاقہ جات میں بھی خوبصورت سیاحتی مقامات موجود ہیں جن میں ضلع خیبر کی وادی تیراہ اور وزیرستان میں شوال اور رزمک مشہور علاقے ہیں جہاں سرسبز اور اونچے اونچے پہاڑ اور دلکش مناظر موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ادوار میں یہاں کے انفرااسٹرکچر پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب تیراہ میں سڑکیں بنانے کا کام جاری ہے، لہٰذا یہ علاقہ مستقبل میں سیاحوں کے لیے ایک دلکش مقام ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اورکزئی،کرم، مومند، باجوڑ اور وزیرستان میں بھی سیاحوں کے لیے قابلِ دید سیاحتی اور تاریخی مقامات موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علاقوں کی ترقی کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ اس کے ساتھ نہ صرف سیاحوں کے لیے نئے مقامات دریافت ہوں گے بلکہ اس سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوجائیں گے، اور غربت کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سیاحت کا شعبہ خیبر پختون خوا کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کرسکتا ہے۔
خیبرپختون خوا کی مجموعی ترقی میں سیاحت کے موجود پوٹینشل کی اہمیت اور اس سلسلے میں درپیش مسائل ومشکلات پر بحث کے لیے گزشتہ دنوں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آرایس) پشاور کے زیراہتمام ایک مجلسِ مذاکرہ منعقد کیا گئی جس سے محکمہ سیاحت، ثقافت وآثار قدیمہ کے صوبائی سیکرٹری ڈاکٹر بختیار خان، معروف بلاگر آصف نثار غیاثی، سینئر صحافی محمد فہیم، جنرل منیجر کے پی کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی سجاد حمید، اور آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے خطاب کیا۔ سیکرٹری سیاحت نے کہا کہ صوبائی حکومت خیبر پختون خوا کے ہر ضلع میں مقامی سیاحت پر توجہ دے رہی ہے اور جن علاقوں میں آثار قدیمہ کے مقامات موجود ہیں وہاں پر ہیریٹیج ٹورازم کو فروغ دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ او ہزارہ ڈویژن میں خوبصورت سیاحتی مقامات کے فروغ کے لیے کام جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا وبا کی وجہ سے سیاحت کی صنعت کو کم و بیش دس ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے جس میں دکانوں اور پیٹرول پمپ وغیرہ کا نقصان شامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے زیرانتظام جتنے بھی ریسٹ ہائوسز اور گسیٹ ہائوسز ہیں، وہ سارے نجی شعبے کو لیز پردیے جارہے ہیں جس سے صوبائی محکمہ خزانہ کو خطیر رقم حاصل ہوگی، اس کے علاوہ سفاری ٹرین دوبارہ شروع کرنے سے صوبائی حکومت کو مالی فوائد حاصل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاحتی مقامات میں انفرااسٹرکچر اور خاص طور پر سڑکوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح مقامی سیاحوں کے علاوہ بین الاقوامی سیاح بھی خیبر پختون خوا کے خوبصورت مقامات کی سیر کرسکیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ سیاحت کے فروغ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے۔
جنرل منیجر کے پی کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی نے کہا کہ کے پی میں ہر موسم میں فیسٹیول ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ کالاش میں سب سے بڑا فیسٹیول دسمبر کے مہینے میں ہوتا ہے جو 8 سے 22 دسمبر تک جاری رہتا ہے، دوسرا فیسٹیول 14، 15 اور 16 مئی کو ہوتا ہے، یہ بہار کا فیسٹیول ہوتا ہے جس میں پوری دنیا سے لوگ شرکت کرتے ہیں، اس کے علاوہ اگست کی 22 تاریخ کو بھی ایک فیسٹیول ہوتا ہے اور پھر ستمبر کے آخر میں خزاں کے موسم میں ایک فیسٹیول ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کالاش کے لوگ منفرد رسم و رواج رکھتے ہیں جسے دنیا کے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکنگ، ٹریکنگ اور کیمپنگ کے بہت سارے مقامات وہاں موجود ہیں، اس کے علاوہ مذہبی مقامات بھی دلکش ہیں۔ سوات میں بھی سیاحت کے بہت سارے خوبصورت مقامات موجود ہیں، یہاں کا موسم بھی بہت مسحور کن ہوتا ہے، سوات پھلوں اور فصلوں کے لیے بھی مشہور ہے، یہاں گرمیوں اور سردیوں دونوں موسموں میں سیاح آسکتے ہیں، یہاں پر ہر طرح کے قدرتی اور خوبصورت مناظر موجود ہیں، دریا بھی ہیں اورآبشاریں بھی۔ سوات کا حسن قابلِ دید ہے اور مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کو سوات کی سیر سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔
آصف نثار غیاثی نے کہا کہ اگر سیاحتی مقامات کے علاوہ خیبر پختون خوا کے دوسرے علاقوں میں بھی سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ سیاحتی مقامات تک پہنچنے کے لیے راستے سب سے اہم ضرورت ہیں، ان خوبصورت مقامات کو سڑکوں کی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں، اسی طرح نجی شعبے کی طرف سے بھی ان مقامات میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے، ان مقامات میں معیاری ہوٹل اور ریسٹورنٹ بنانے کی ضرورت ہے، اس سے سرمایہ کاری کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا ہوںگے اور لوگ سیاحتی مقامات کی طرف بھی راغب ہوں گے۔
دریں اثناء صوبائی حکومت نے وزیراعلیٰ کی زیرصدارت محکمہ سیاحت کے ایک اجلاس میں ’میزبان‘ کے نام سے ہوم اسٹے ٹورازم منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے اور باضابطہ اجراء کے لیے رواں سال 15 دسمبر کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے تحت سیاحتی اضلاع میں گھروں میں سیاحوں کو معیاری رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے 30 لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ ابتدائی طور پر یہ منصوبہ 395 ملین روپے کی لاگت سے شروع کیا جائے گا۔ سیاحوں کو اپنے گھروں کے احاطوں میں رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے خواہش مند افراد دو کمرے تعمیر یا پہلے سے دستیاب کمروں کی تزئین و آرائش کرسکیں گے۔ منصوبے کے تحت ان کمروں میں سیاحوں کے لیے واش رومز اور کچن کے علاوہ دیگر تمام سہولیات دستیاب ہوں گی۔ ابتدائی طور پر یہ منصوبہ ضلع اپر چترال، لوئر چترال، اپر دیر، لوئر دیر، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور سوات میں شروع کیا جائے گا۔ یہ قرضے بینک آف خیبر کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے اور قرضوں کی واپسی کی مدت پانچ سال ہوگی۔ امید ہے کہ اس نئے سیاحتی منصوبے کے ساتھ ساتھ اس اہم شعبے کو درپیش دیگر چیلنجز بالخصوص امن وامان کی صورتِ حال کی بہتری، نیز بہتر ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات کی فراہمی کے ذریعے صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارے اس اہم صنعت کی ترقی میں اپنااپنا کرداراداکریں گے۔