وہ ریاستیں جہاںابھی تک دونوں پارٹیوں کےحق میں رائے عامہ ہموار نہیں،وہاں مسلمان ووٹرز کسی حد تک فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں
اسرائیل فلسطین تنازع اب امریکی انتخابات میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔ مسلمانوں نے بڑی تعداد میں یہ طے کیا ہے کہ وہ دونوں بڑی جماعتوں یعنی ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کو ووٹ نہیں دیں گے، اور اُن کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹی پارٹی کو ووٹ دیں گے، تاہم اس پر ایک بحث جاری ہے کہ اس کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ اگر اس پوری صورتِ حال کو برطانیہ کے حالیہ الیکشن کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں نے برطانیہ میں بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا اور اس کے نتیجے میں پہلی بار 4 وہ امیدوار کامیاب ہوئے تھے جوکہ غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مہم چلاتے رہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 نشستوں پر مسلمانوں کے روایتی ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے لیبر پارٹی جوکہ اب حکمران جماعت ہے، کے ووٹ بینک میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت امریکہ کے صدارتی نظام سے بہت مختلف ہے، کیونکہ یہاں پر انفرادی اُمیدواروں کی کامیابی کا امکان تھا تو مسلمان ووٹرز نے اپنی ایک حیثیت کسی حد تک منوائی، تاہم امریکہ کی صدارتی جمہوریت میں اس کا تجربہ مختلف ہوسکتا ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ وہ ریاستیں جہاں ابھی تک دونوں پارٹیوں کے حق میں رائے عامہ ہموار نہیں، وہاں مسلمان ووٹرز کسی حد تک فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں، اور دوسری جانب اگر مسلمان ووٹرز کسی تیسری پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو بھی دونوں پارٹیوں کے لیے ایک مشکل الیکشن میں مزید مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ ادھر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان ریاستوں میں ایک جانب مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لیے مساجد کے اماموں سے اپیل و ملاقات کررہے ہیں، تو دوسری جانب خود یہودی ووٹرز بھی ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے مہم جوئی کررہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ٹرمپ کا اسرائیل کے حوالے سے واضح جھکاؤ اور ماضی میں بطور صدر بین الاقوامی طور پر متنازع شہر یروشلم ’’بیت المقدس‘‘ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا تھا۔
ڈیموکریٹس کی صدارتی امیدوار کملاہیرس بھی دونوں جانب کی ہمدردیاں سمیٹنے میں مصروف ہیں، تاہم اب تک یہودی ووٹرز کا ان ریاستوں میں کہ جہاں ابھی تک صورتِ حال واضح نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب جھکائو ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو یہ ان کی جیت میں اہم کردار ادا کریں گے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اب بین الاقوامی معاملات کی جھلک نظر نہیں آتی کیونکہ امریکہ اب خود اپنے ہی مسائل میں گھرا ہوا ہے جس میں مہاجرین کی غیر قانونی آمد، بے روزگاری، مہنگائی، گن کلچر، اور اسقاطِ حمل پر پابندی جیسے عنوانات پر بحث جاری ہے۔ اس پوری صدارتی مہم میں امریکی عوام کی خواہش رہی کہ وہ ان دونوں بڑی پارٹیوں سے اپنے اندرونی مسائل کا حل معلوم کرسکیں، تاہم اب تک دونوں جانب سے ان مسائل کا کوئی واضح، ٹھوس اور دیرپا حل پیش نہیں کیا جاسکا ہے، اور اس کے برعکس “Make the America great again” اور”We will continue” جیسے ہی نعرے عوام کی سماعتوں کی نذر کیے جارہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے حوالے سے دونوں جماعتوں کا مؤقف ہے کہ وہ فوری جنگ بندی کروائیں گی، اور اس کے لیے پہلے مرحلے میں اسرائیل لبنان جنگ بندی اور دوسرے مرحلے میں غزہ میں جنگ بندی شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لبنان میں ریکارڈ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور ٹینکوں کی تباہی کے باعث یہ جنگ مشکل ترین بن چکی ہے اور اسرائیل وہاں اب کچھ بھی کرنے سے قاصر ہورہا ہے، مزید چند دن یہ صورتِ حال رہی تو شاید جنوبی لبنان سے انخلاء کا عمل شروع ہوجائے۔ میڈیا ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ اس 13 ماہ کی جنگ میں اب تک مرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جوکہ کسی بھی جنگ میں مرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے، اس کا شدید اثر اسرائیلی معاشرے میں ہورہا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے قیدیوں کی رہائی کی ڈیل ایک بار پھر اب میڈیا اور عدالتوں میں پہنچ گئی ہے کہ جہاں اسرائیلی حکومت نے قیدیوں کی رہائی کی ڈیل کے راز افشاء کرنے پر چار افراد کو عدالت میں پیش کیا اور ان پر فردِ جرم عائد کی گئی۔ فردِ جرم کے مطابق ان چار افراد نے جن میں سے تین فوجی اہلکار اور ایک سویلین ہے، اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے سسٹم سے یہ معلومات حاصل کیں اور یہ راز میڈیا کو دیا جس کے نتیجے میں قومی سیکورٹی کو نہ صرف شدید خطرات لاحق ہوئے بلکہ اس سے قیدیوں کی رہائی کے لیے ہونے والے مذاکرات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس پورے عمل کی تفتیش تین اداروں اسرائیلی خفیہ ایجنسی Shin Bet، اسرائیلی ڈیفنس فورسز اور پولیس نے مشترکہ طور پر کی ہے۔ مقدمے کے مطابق ان ملزمان نے مبینہ طور پر یہ معلومات میڈیا کو فراہم کیں جس کے بعد جرمن اخبار Bild اور برطانیہ سے شائع ہونے والے یہودیوں کے قدیم ترین اخبار Jewish Chronical میں یہ خبریں شائع ہوئیں جس کے نتیجے میں قیدیوں کی آپریشن یا ڈیل کے نتیجے میں رہائی عمل میں نہ آسکی۔
اس پورے مقدمے کا پس منظر یہ ہے کہ برطانیہ سے 1841ء سے شائع ہونے والے قدیم ترین یہودی اخبار The Jewish Chronical نے ایک نام نہاد تحقیقی صحافی Elon Perry کے نام سے رپورٹس شائع کیں اور اخبار نے اس صحافی کو فری لانس صحافی کے طور پر متعارف کروایا۔ ان خبروں میں انتہائی متنازع اور غیر حقیقی انکشافات کیے گئے تھے جن میں سے ایک یحییٰ سنوار کی پلاننگ کا کسی غار کے پاس سے ملنا جس میں یہ بات تحریر تھی کہ حماس مغویوں سمیت ایران فرار کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے جب ان دعووں کی تحقیق کی تو معلوم یہ ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور ایسا کوئی صحافی موجود ہی نہیں جس کے نام سے یہودیوں کا سب سے پرانا اخبار The Jewish Chronical خبریں شائع کرتا رہا، اور اس کے بعد ستمبر 2024ء میں اخبار نے نہ صرف ان خبروں پر معذرت کی بلکہ ان کو اپنی ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا۔
اب اس مقدمے کو دیکھ کر محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کے قدیم ترین اخبار کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے اسرائیلی حکومت خود میدان میں ہے اور ان خبروں کا ماخذ ان چار افراد کو قرار دے کر ان اخبارات کی ساکھ کو بحال کیا جائے گا۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ اب خود اسرائیلی میڈیا اسرائیلی حکومت کی جانب سے پیش کردہ معلومات کو چیلنج کررہا ہے اور بتارہا ہے کہ اس کے پیش کردہ اعدادوشمار میں شدید قسم کا تضاد موجود ہے۔ اس کے برعکس بین الاقوامی ادارے حماس کی جانب سے جاری معلومات پر کوئی بھی سوال نہیں اٹھا سکے ہیں۔ پورا منظرنامہ یہ ہے کہ اسرائیل جھوٹ کی بنیاد پر جنگ کو طول دینے اور اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو جس طرح ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اس کے برعکس اُس کے نہ صرف جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے بلکہ اس سے بڑی مزاحمت اس کے سامنے آتی ہے۔
اسرائیلی میڈیا اب خود اسرائیل کی مکمل حمایت سے دست بردار ہوچکا ہے تو لگتا یہ ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل خود شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے، اور 13 ماہ میں کسی ایک بھی قیدی کی بزور قوت رہائی میں ناکامی اسرائیل کی شکست کے تاثر کو مزید گہرا کررہی ہے۔