کراچی کے بیشتر معروف نجی اسپتالوں میں بھی بے چارے مریض کی ساری جمع پونجی تو ڈاکٹر فیسوں اور ٹیسٹوں کے نام پر لوٹ لیتے ہیں
وطنِ عزیز کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں ’’گڈ گورننس‘‘ کا معیار کیسا ہے؟ اس کا اندازہ اہلِ سندھ کو میسر صحت اور صفائی کی بہت زیادہ خراب صورتِ حال سے بہ خوبی کیا جاسکتا ہے۔ جب کبھی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی کسی تقریر میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سندھ میں ہماری حکومت نے عوام کو صحت کی معیاری ترین سہولیات بہم پہنچا رکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سارے ملک اور بیرونِ ملک تک سے لوگ ہمارے ہاں کے سرکاری اسپتالوں میں دستیاب صحت کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے اور استفادہ کرنے آیا کرتے ہیں تو اصل تلخ حقائق سے باخبر سندھ کے عوام خندۂ استہزا کے ساتھ مذکورہ جھوٹے اور بے بنیاد دعوے کو یکسر مسترد کردیتے ہیں۔ امر واقع تو یہ ہے کہ سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار ناگفتہ بہ ہے۔ اگر کوئی عام مریض وہاں بہ غرضِ علاج جائے تو اُسے ماسوائے مزید تکلیف، پریشانی اور مایوسی کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ اوّل تو سرکاری اسپتالوں میں سینئر ڈاکٹر موجود ہی نہیں ہوتے، اور اگر بالفرض کوئی ڈاکٹر مریض کو خوش قسمتی سے دستیاب ہو بھی جائے تو اُس کا رویہ تکلیف سے دوچار اور بیماری میں مبتلا مریض کے ساتھ گویا کہ ایک طرح سے چھوٹے موٹے ’’فرعون‘‘ کی طرح کا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بیماری میں گرفتار مریض بجائے صحت مند ہونے کے اور بھی زیادہ ذہنی اذیت اور پریشانی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں پہنچنے والی دوائیں بجائے مریضوں کو ملنے کے، کچھ ہی عرصے کے بعد نجی میڈیکل اسٹورز پر سرِعام بکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، اور ظاہر ہے کہ اس مکروہ اور گھنائونے فعل کے پسِ پردہ محکمہ صحت کے حکام ہی ہوتے ہیں۔ سندھ کے بیشتر میڈیکل اسٹورز پر غیر معیاری ادویہ بھی محکمہ صحت کے ذمہ داران کی سرپرستی میں کھلے عام فروخت کی جارہی ہیں اور ہوسِ زر میں مبتلا بیشتر ڈاکٹر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی محض بہت زیادہ کمیشن کے حصول کی خاطر یہی ناقص دوائیں مریضوں کو لکھ کر دے دیتے ہیں، جن کے استعمال سے بجائے فائدے کے اور زیادہ صحت کا کباڑہ ہوجاتا ہے۔ ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ کی مشینیں بھی زیادہ تر سرکاری اسپتالوں میں خراب ظاہر کرکے بند کردی جاتی ہیں اور پیکیجز یا کمیشن حاصل کرنے کی مکروہ لت میں مبتلا ڈاکٹر مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریز کی طرف بھیج دیتے ہیں اور مزید زیربار کرکے رکھ دیتے ہیں۔
سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر اور طبی عملہ اپنے اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے اور انہیں
ہر ماہ اپنی اپنی تنخواہوں سے معقول حصہ دینے کے عوض ’’ویزا‘‘ پر گئے ہوئے ہوتے ہیں اور بجائے اپنے اصل سرکاری امور کی انجام دہی کے، اپنے اپنے نجی اسپتالوں اور کلینکس میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ساری باتیں کوئی ’’راز‘‘ ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا ’’انکشاف‘‘… بلکہ سندھی پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے ان کا علم سبھی کو ہے، سندھ کے بچے بچے کو بھی ہے، البتہ محکمہ صحت کے متعلقہ ذمہ داران اور خصوصاً حکومتِ سندھ اس حوالے سے ایک عرصے سے مکمل طور پر ظالمانہ بے توجہی برت رہی ہے، اور ظاہر ہے کہ اسے جب خود بدعنوانی کرنے سے فرصت ملے گی تو وہ تبھی کسی اور جانب اپنی توجہ مبذول کرسکے گی۔
اہلِ سندھ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہوکر جب اپنے ہاں کے سرکاری اسپتالوں سے رجوع کرتے ہیں اور وہاں جاکر انہیں مذکورہ بھیانک اور تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بے چارے تنگ، عاجز اور بے زار ہوکر اپنی قیمتی اشیا فروخت کرکے یا کسی سے ادھار لے کر کسی بڑے شہر خاص طور پر کراچی کا رُخ کرتے ہیں، کیوں کہ کراچی میں قائم کئی معروف بڑے سرکاری، نیم سرکاری یا نجی اسپتال ایسے ہیں جہاں سے انہیں اپنی کھوئی ہوئی صحت کی بحالی کا امکان اور امید ہوا کرتی ہے، لیکن بدقسمتی کہہ لیجیے یا المیہ کہ کراچی جاکر بھی ان کی امیدیں صحیح طور سے بر نہیں آتیں، بلکہ یہاں کے بڑے بڑے ناموں کے حامل زیادہ تر سرکاری یا نجی اسپتالوں میں بھی ڈاکٹروں کے عدم تعاون اور طبی عملے کی بدسلوکی کی بنا پر یک گونہ مایوسی، اذیت اور ذہنی پریشانی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کراچی میں قائم بیشتر سرکاری اور نجی اسپتالوں کا حال بھی ایک طرح سے ’’نام بڑے، درشن چھوٹے‘‘ یا پھر ’’اونچی دکان، پھیکا پکوان‘‘ کے مصداق ہی ہے۔ کراچی کے بیشتر معروف نجی اسپتالوں میں بھی بے چارے مریض کی ساری جمع پونجی تو ڈاکٹر فیسوں اور ٹیسٹوں کے نام پر لوٹ لیتے ہیں، تاہم مریض بے چارہ پھر بھی کامل صحت یابی حاصل نہیں کر پاتا بلکہ اور زیادہ زیر بار، مایوس اور دل شکستہ ہوکر وہاں سے اپنے اصل شہر اور مسکن کی طرف لوٹتا ہے اور تاحیات کراچی کے معروف سرکاری اور نجی اسپتالوں سے وابستہ اپنے تلخ تجربات کو یاد رکھتا ہے۔ ذیل میں ایک ایسے ہی مریض پروفیسر محمد آصف خالد تنولی گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد کی روداد اُن ہی کی زبانی پیش خدمت ہے جس کا حرف بہ حرف سچ اور حقیقت پر مبنی ہے:
’’16 ستمبر 2024ء کو ڈائو اسپتال اوجھا کیمپس سے میرا Perinal abscess کا آپریشن ہوا۔ ایک دن داخل رہنے کے بعد 17 ستمبر کو مجھے اینٹی بائیوٹک کا کورس دے کر مذکورہ اسپتال سے فارغ کردیا گیا۔ دو دن بعد 19 ستمبر کو غالباً اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کی وجہ سے مجھے شدید گھبراہٹ اور متلی محسوس ہوئی تو میں دوبارہ متعلقہ ڈاکٹر کے پاس گیا جو موجود نہیں تھے، میں نے اسسٹنٹ سرجن کو دکھایا تو اس نے کہا کہ قبل از آپریشن کا جو دل کا Echocardiogram کروایا گیا تھا وہ مجھے دکھائیں۔ میں نے جواباً کہا کہ وہ تو مجھے کسی نے نہیں دیا۔ جس پر اسسٹنٹ سرجن نے ایکوکارڈیو گرام ٹیسٹ کی کاپی اسپتال کے ریکارڈ سے نکلوائی اور اسے دیکھ کر کہا: آپ کے دل کی یہ رپورٹ تو نارمل نہیں آئی ہے۔ آپ یہ رپورٹ فوراً کارڈیو لوجسٹ کو دکھائیں۔ میں نے ڈائو اسپتال میں موجود کارڈیو لوجسٹ کو دکھایا (آپریشن سے قبل میرا مذکورہ دل کا یہ ٹیسٹ بھی اسی ڈاکٹر اسد مہیسر نے ہی کیا ہوا تھا)، تو ڈاکٹر موصوف نے کہا کہ آپ کا ای ایف تو صرف 35 فیصد ہی ہے (سادہ الفاظ میں دل صرف 35 فیصد ہی کام کررہا ہے) اور آپ کو ایک خاموش حملہ قلب بھی ہوچکا ہے اور دوسرا حملہ آپ کو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر نے میرے لیے دل کی کئی دوائیں تجویز کرنے کے بعد مجھے دوبارہ ایک ہفتے بعد آنے کے لیے کہا۔ یہ سن کر میں شدید گھبراہٹ اور اینگزائٹی کا شکار ہوچلا تھا، لہٰذا میں فوراً ہی آغا خان اسپتال گیا جہاں سے میں نے 13ہزار روپے میں نیا Echocardiogram کروایا جو بالکل نارمل تھا۔ پھر آغا خان اسپتال ہی کے ایک ماہر امراضِ قلب نے اس بات کی تصدیق کے لیے ایک اور ٹیسٹ کروایا۔ DSE نامی اس ٹیسٹ کی فیس یا قیمت تقریباً 30 ہزار روپے تھی۔ اس ٹیسٹ کی رپورٹ بھی بالکل نارمل تھی۔ ڈاکٹر نے تسلی کے لیے تقریباً 12 ہزار روپے کے خون کے مزید ٹیسٹ بھی کروائے تو وہ بھی نارمل تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے تو جنرل سرجن نے ڈائو کی میری دل کی رپورٹ نارمل نہ ہونے کے باوجود میری سرجری کردی، جو غفلت اور بے حسی کی انتہا ہے۔ مجھے یعنی مریض کو بتایا تک نہیںگیا کہ اصل صورتِ حال کیا ہے۔ زبانی شکایت کرنے پر جنرل سرجن ڈائو اسپتال ڈاکٹر نوید علی خان نے کہا کہ یہ بے ہوشی کے ڈاکٹر (Anaesthetist) کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے جس نے آپ کا ایکوکارڈیو گرام ٹیسٹ نارمل نہ آنے کے باوجود آپ کا آپریشن کرنے کی منظوری دی ہے۔ سرجن ڈاکٹر نوید علی خان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ آپ کے مذکورہ ٹیسٹ کی رپورٹ کی روشنی میں آپ کی سرجری بھی نہیں ہونی چاہیے تھے۔ (واضح رہے کہ سرجری جنرل اینستھسیا سے نہیں بلکہ Spinal anaesthesiaسے کی گئی تھی)۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ
ڈائو کے کارڈیو لوجسٹ ڈاکٹر اسد مہیسر نے غلط رپورٹ دے کر مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو شدید ذہنی اذیت سے دوچار کروایا اور میرا خرچا بھی الگ سے کروایا، اور بہت سارا جو وقت ضائع ہوا وہ اس پر مستزاد ہے۔ ڈائو کی ECO رپورٹ اور آغا خان اسپتال کی رپورٹ میں اگر محض انیس بیس کی حد تک فرق ہوتا تو بھی روا تھا مگر دونوں رپورٹ ایک دوسرے سے یکسر الٹ ہیں۔ شنید ہے کہ ڈائو کے کارڈیولوجسٹ ڈاکٹر اسد مہیسر نے اور بہت سارے مریضوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا ہے۔ میری چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے اپیل ہے کہ دل کے مذکورہ ڈاکٹر اور سرجن ڈاکٹر نوید علی خان کے خلاف انسانی جان سے دیدہ و دانستہ کھیلنے اور اسے دائو پر لگانے کی وجہ سے کارروائی کا حکم صادر فرمائیں اور مجھے ذہنی، جسمانی اور مالی طور پر زیر بار کرنے، کوفت، اذیت اور شدید پریشانی سے دوچار کرنے کی وجہ سے مناسب ہرجانہ بھی لے کر دیں تاکہ مذکورہ دونوں ڈاکٹر آئندہ کسی مریض کی زندگی کو اپنی غفلت کی وجہ سے خطرے میں ڈالنے کی جرأت نہ کرسکیں۔‘‘
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب ایک پڑھے لکھے اور باشعور فرد کے ساتھ نجی اسپتال میں یہ کچھ ہوسکتا ہے تو عام فرد پر کیا گزرتی ہوگی؟
(نوٹ: اگر ڈاؤ اسپتال یا اُس سے متعلقہ کوئی فرد اس تحریر پر اپنا مؤقف پیش کرنا چاہے تو فرائیڈے اسپیشل کے صفحات اس کے لیے دستیاب ہیں۔)