حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
”تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا مندی کی ہو تو تجھ کو
اس کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے“۔
(بخاری ،جلد اول کتاب الایمان ،حدیث نمبر54)
اسلامی نظریے کے مطابق معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہے، مختصر طور پر دو نکات میں اسے بیان کیا جاسکتا ہے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اس بات کو ضروری و لازم قرار دیتا ہے کہ ابتدا ہی سے عورت کے اخلاق کی درستی و پاکیزگی کی کوشش کی جائے اور اس کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ فضائل و کمالات کی حامل بن سکے۔ اسلام والدین اور لڑکیوں کے سرپرستوں کو اس تربیت پر اُبھارتا ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے اجرِعظیم کا وعدہ کرتا ہے اور اگر وہ ا س میں کوتاہی کریں تو سزا کی دھمکی دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ۶ (تحریم ۶۶:۶) اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت اور متشدد فرشتے متعین ہیں، جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور جن باتوں کا انھیں حکم دیا جاتا ہے، اس کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں۔
اور حدیث صحیح میں ہے:
تم میں سے ہرشخص ذمّہ دار ہے اور ہرشخص سے اس کی ذمہ داری میں دی ہوئی چیز کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ امیرالمومنین ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں سوال ہوگا ، آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اسے ان کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمّہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی، اور نوکر اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں سوال ہوگا، غرض تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کی جواب دہی کرنی ہے۔[ مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۴۹۶]
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے ساتھ رہیں یا وہ ان کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا رہے تووہ اسے جنّت میں پہنچانے کا باعث بنیں گی۔[ ابن حبّان،کتاب البروالاحسان، حدیث:۴۴۷]
اور ابوسعید خدریؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہے اور ان کے معاملے میں خداترسی کی روش اختیار کرے، تو وہ جنت کا مستحق ہے۔ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ، حدیث : ۱۸۸۸]
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظِ حدیث انھی کے ہیں اور امام ابوداؤد نے بھی اسے روایت کیا، مگر ان کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نے ان کو تربیت دی اور ان سے حُسنِ سلوک کیا اور ان کی شادی کرا دی تو اس کے لیے جنّت ہے۔
عورت کی حُسنِ تربیت کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ اس کو ان چیزوں کی تعلیم دی جائے جو اس کے لیے ناگزیر ہیں اور جن کی ضرورت اسے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں پڑتی ہے، جیسے: لکھنا پڑھنا، حساب کتاب، دینی تعلیم، سلف صالح مردوں اور عورتوں دونوں کی تاریخ، تدبیر منزل، حفظانِ صحت، مبادی تربیت، اُمور ِ اَطفال اور وہ تمام اُمور جن کی ایک ماں کو گھر کے نظم اور بچوں کی نگہداشت کے سلسلے میں ضرورت پڑتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں، انھیں دین میں بصیرت و تفقہ حاصل کرنے میں شرم مانع نہیں آتی۔[ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، حدیث:۲۷۳]
چنانچہ سلف میں بہت سی عورتیں علم و فضل اور بصیرتِ دین میں بہت اُونچا مقام رکھتی تھیں۔ رہے وہ علوم جن کی عورت کو ضرورت نہیں تو ان پر زور دینا فضول و بے فائدہ ہے کیوںکہ عورت کو ان کی کوئی حاجت نہیں اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنا وقت کسی مفید اور نفع بخش کام میں لگائے۔ چنانچہ عورت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ اسے مختلف زبانوں میں تبحّر حاصل ہو اور نہ اسے خصوصی فنی معلومات کی ضرورت ہےکیوں کہ جیساکہ عنقریب معلوم ہوگا کہ عورت اوّل و آخر گھر ہی کے لیے ہے، نہ عورت کو اس کی حاجت ہے کہ اسے قانون میں مہارت حاصل ہو، بس اس کو قانون کا اتنا علم کافی ہے جس کی عام طور پر لوگوں کو ضرورت پڑتی ہے۔
مشہور قدیم عربی شاعر ابوالعلا المعری عورتوں کے بارے میں کہتا تھا:
ان کو کاتنا اور بُننا سکھائو اور نوشت و خواند چھوڑ دو۔ کیوںکہ ’حمد‘ اور ’اخلاص‘ کے ساتھ لڑکی کا نماز پڑھنا کافی ہے اور ’یونس‘ اور ’براءت‘ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن ہم اس حد پر ٹھیرنے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتے، مگر ہم وہ بھی نہیں چاہتے جو یہ غالی اور افراط پسند لوگ چاہتے ہیں کہ عورت پر ان علوم و فنون کو لاد دیں جن کی اس کو کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کو وہ تعلیم دو جس کی اسے اپنی ان ذمہ داریوں اور خدمات کی ادایگی کے سلسلے میں ضرورت ہے جن کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، یعنی تدبیرمنزل اور بچّے کی نگہداشت و تربیت۔
(اسلام کی نظر میں عورت سے اقتباس)