سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اس ملاقات سے سخت مایوسی ہوئی، مگر ہم کیا کرسکتے تھے؟ اس ملاقات کے اگلے روز مجھے اطلاع ملی کہ وائس چانسلر صاحب طلبہ کے متحارب گروپوں سے چار بجے شام مشترکہ ملاقات کررہے ہیں۔ ہماری ایک رائے تو یہ تھی کہ اس ناروا اجلاس کا بائیکاٹ کردیا جائے، مگر مشاورت کے بعد فیصلہ یہی ہوا کہ اجلاس میں جاکر اپنا مؤقف پیش کرکے اتمامِ حجت کرنی ضروری ہے۔ بہرحال جامعہ کے طلبہ اور بہت سے اساتذہ کے نزدیک یہ عجیب بات تھی کہ ہنگامہ آرائی اور پوری جامعہ میں تخریب کاری کرنے والوں اور پُرامن رہنے والوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا تھا۔ فیصلے کے مطابق ہم لوگ یونیورسٹی پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ علامہ صاحب نے اُن سارے لوگوں کو جو ایک دن قبل یونیورسٹی میں ہنگامہ کرچکے تھے، طلبہ نمائندوں کے طور پر مدعو کیا ہوا تھا۔ بہرحال ہم بھی سینٹ ہال کے بغلی کمرے (غالباً نام ہے کمیٹی روم) میں علامہ صاحب کے سامنے والی نشستوں پر جاکر بیٹھ گئے۔
علامہ صاحب نے دونوں جانب کے طلبہ نمائندوں سے بڑے حکیمانہ انداز میں خطاب کیا اور تان اس پر توڑی کہ جامعہ کے پورے انتخابات کا مسئلہ الیکشن ٹریبونل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس پر ہم نے پُرزور احتجاج کیا۔ ہمارا مؤقف یہ تھا کہ اگر ہارا ہوا گروپ ٹریبونل یا جامعہ سے باہر کسی بھی عدالت میں معاملے کو لے جانا چاہے تو اسے حق حاصل ہے، مگر شیخِ جامعہ کی طرف سے یہ تجویز ناقابلِ فہم ہے۔ پھر دوسری بات یہ تھی کہ جن پوسٹوں پر الیکشن کمیشن کی طرف سے نتائج کا باقاعدہ اعلان ہوگیا ہے وہ تو متنازع ہیں ہی نہیں، متنازع تو صرف سیکرٹری کی پوسٹ تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جامعہ میں جو شخص یا گروپ طاقت کی زبان استعمال کرے گا، انتظامیہ کی طرف سے اس کو زیادہ وقعت دی جائے گی۔ یہ صورتِ حال بڑی افسوس ناک اور اشتعال انگیز تھی، ہمارے بعض ساتھیوں خصوصاً میرے دوست افتخار فیروز نے جذباتی انداز میں تقریر شروع کی جس میں جذبات کے ساتھ بھرپور دلائل بھی تھے، مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔
مخالف گروپ بہت خوش تھا کہ
(1) مولوی (علامہ صاحب کو وہ حقارت سے اس نام سے یاد کیا کرتے تھے) ان کی توقعات کے علی الرغم انہی کی ہم نوائی کررہا تھا۔ (میں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ علامہ صاحب بڑے زیرک اور معاملہ فہم انسان ہونے کے باوجود اپنے گردونواح کے بعض یونیورسٹی عہدے داران کی باتوں میں آگئے تھے)۔
(2) مخالف گروپ کے لیے یہ امر بھی باعثِ مسرت تھا کہ ہار جانے اور ہڑبونگ مچانے کے باوجود وہ طلبہ کے ذی قدر نمائندے سمجھے جارہے تھے۔
(3) جو انتخاب غیر متنازع طور پر وہ ہار چکے تھے اب اسے متنازع بنایا جارہا تھا جس کی وجہ سے انھیں مزید خوشی حاصل ہورہی تھی۔
ہم جب ہال سے نکلنے لگے تو میں نے ایک بار پھر وی سی صاحب سے عرض کیا ’’سر! ہم نے اپنا مؤقف آپ کے سامنے بلا ابہام بیان کردیا ہے اب آپ جو چاہیں کریں۔ تاہم آپ جو کرنے جارہے ہیں، وہ عدل کے منافی ہے اور آپ کے شایانِ شان نہیں ہے۔‘‘ معلوم نہیں علامہ صاحب نے اسے کن معنوں میں لیا، تاہم افتخار فیروز اور دوسرے دوستوں کا خیال تھا کہ ہمیں زیادہ سخت مؤقف (Hardline) اختیار کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اُن دنوں صورتِ حال یوں ہوا کرتی تھی کہ ہم لوگ (خصوصاً ہمارے شعبۂ نشر و اشاعت کے ارکان) شام کو بلکہ رات گئے تک اخبارات کے دفتروں کے چکر لگایا کرتے تھے اور اپنی خبریں لگوانے کے لیے اپنے واقف کار یا دوست صحافیوں سے خصوصی طور پر ملا کرتے تھے۔
علامہ صاحب کے ساتھ متذکرہ بالا نشست کے دوسرے دن ہمارے بعض دوست اخبارات کے دفتروں میں گئے تو انھیں علامہ صاحب کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز پر مشتمل خبر کا پتا چلا۔ اس کے مطابق موصوف نے ایک ٹریبونل مقرر کیا تھا، جس کے ذمے جامعہ کے جملہ انتخابات کی تفتیش اور چھان بین تھی۔ یہ فیصلہ ہمارے نزدیک بوجوہ زیادتی پر مشتمل تھا اور ہمارے برحق مطالبات کو بغیر کسی جواز کے مسترد کردیا گیا تھا۔ ججوں کے نام مجھے اب یقینی طور پر یاد نہیں، غالباً ایک نام غیاث الدین تھا اور دوسرا محمود، تیسرے جج کا نام اِس وقت ذہن میں نہیں آرہا۔ جو نام لکھے ہیں، وہ بھی یادداشت سے لکھے ہیں۔ اس دور کا تحریری ریکارڈ دستیاب نہ ہو سکا۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے آج تک ان ججوں کے بارے میں پتا نہیں کہ وہ کون تھے اور کس عقیدے و خیال کے مالک تھے، لیکن اسی رات بعض ثقہ لوگوں نے جن کا تعلق صحافت اور قانون کے پیشے سے تھا، بڑے وثوق سے بتایا کہ تین میں سے دو قادیانی اور ایک پرویزی ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس بات میں کس قدر سچائی تھی، مگر ہم سب لوگوں کے لیے اس وقت یہ خبر بڑے صدمے کا باعث بنی۔ جس رات کا یہ ذکر ہے اسی کی شام کو ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ مجھے سعید منزل میں بتایا گیا کہ رانا چیمبرز میں بارک اللہ خاں صاحب ایک ایکشن کمیٹی کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ مختصر سے وقت میں بے انتہا چیزیں ظہور پذیر ہورہی تھیں۔
میں چند ساتھیوں کی معیت میں رانا چیمبرز پہنچا، رانا نذرالرحمٰن کے دفتر میں چند احباب جمع تھے۔ خاں صاحب جوش میں تقریر فرما رہے تھے اور ان کا نشانہ ہماری یونین اور خاص طور پر میری ذات تھی۔ میں خاں صاحب کی باتیں سنتا رہا، پھر میں نے اُن سے عرض کیا ’’خاں صاحب! ایکشن کمیٹیاں تو ہارے ہوئے لوگ بنایا کرتے ہیں، آپ کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کی اپنی یونین ہے۔ آپ ہمارے بزرگ اور محترم بھائی ہیں…‘‘ خاں صاحب نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ’’نہیں، مجھے معلوم ہے یہ یونین کچھ نہیں کرسکتی۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’ممکن ہے آپ کی بات درست ثابت ہو، مگر کچھ عرصہ تو اس یونین کو مہلت دو، کم از کم حلف تو اٹھا لیا جائے‘‘۔ یہ اس طویل گفتگو کا مختصر سا حصہ ہے جو اس شام رانا چیمبرز میں ہوئی۔
ہم عجیب مخمصے میں پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف علامہ صاحب کا طرزِعمل باعثِ پریشانی تھا، دوسری طرف یہ ایکشن کمیٹی ہماری سمجھ میں نہیں آرہی تھی، تیسری طرف حزبِ مخالف سے مقابلہ تھا۔ سعید منزل میں نمازِ عشا کے بعد مجھے اخباری دفاتر سے آنے والے دوستوں کی زبانی علامہ صاحب کے پریس ریلیز کے بارے میں اطلاع ملی۔ سابق ناظم اعلیٰ جمعیت ڈاکٹر محمد کمال صاحب دفتر میں موجود تھے اور جمعیت کے تقریباً سبھی ارکان بھی ابھی تک وہیں تھے۔ ہم نے ٹولنٹن مارکیٹ جاکر شیخ نصراللہ صاحب کی دکان سے علامہ صاحب کو ٹیلی فون کیا، وہ گھر پر موجود نہ تھے۔ آپ کے بیٹے برادرم نعمان صدیقی نے فون سنا۔ اس نے بتایا کہ علامہ صاحب کہیں دعوت پر گئے ہوئے ہیں اور دیر سے آئیں گے۔ میں نے نعمان سے کہا کہ جب بھی علامہ صاحب تشریف لائیں ان سے عرض کریں کہ میں ان سے فوراً ملنا چاہتا ہوں۔
نصراللہ شیخ (سابق صدر جامعہ پنجاب) کے ہاں سے ٹیلی فون کیا تھا، انھیں جب پریس ریلیز کا پتا چلا تو وہ بھی سٹپٹائے۔ طے ہوا کہ ان کے ساتھ ہم چودھری اسماعیل کے ہاں جائیں۔ چودھری اسماعیل کے ہاں پہنچے اور انھیں خبر سنائی تو وہ بھی بڑے پریشان ہوئے۔ وہ بھی مقرر کردہ ججوں کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ ان کی رائے بھی وہی تھی جو ہمیں پہلے اطلاعات ملی تھیں۔
اتفاق کی بات کہ مرے کالج سیالکوٹ میں جمعیت کے رفیق نثار میر یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کی کامیابی کا کالج انتظامیہ کی طرف سے باقاعدہ اعلان ہوچکا تھا۔ اس کے باوجود ہارے ہوئے گروپ نے جھگڑا کھڑا کردیا۔ معاملہ ڈی سی تک پہنچا اور ڈی سی کو ثالث بنادیا گیا، ڈی سی نے نثار میر کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا اور یہ خبر اسی دن صبح کے اخبارات میں چھپی تھی۔ اس خبر کے حوالے سے لوگ اور بھی جذباتی ہوگئے۔ رانا چیمبرز میں پروفیسر عثمان غنی اور بارک اللہ خاں کی جذباتیت کا منظر شام کو دیکھا تھا اور مزنگ میں اب رات کو نصراللہ شیخ اور اسماعیل چودھری کا جوش منظرعام پر آرہا تھا۔ اول الذکر بزرگان کے غصے کی وجہ سمجھ سے بالاتر تھی جب کہ آخرالذکر اس خبر سے پریشان تھے کہ تین افراد پر بننے والا کمیشن کسی سازش کا نتیجہ تھا جس کا فوری توڑ ضروری ہے۔ اس پر تاخیر کی گنجائش نہیں۔
جمعیت کے اکثر ارکان نیوکیمپس میں رہتے تھے۔ انھیں واپس جانا تھا۔ راولپنڈی سے افضل مرزا، فرخ سعید اور ایک آدھ اور دوست آئے ہوئے تھے۔ غالباً انھیں بھی شب باشی کے لیے نیوکیمپس جانا تھا۔ میں عارضی طور پر لا کالج ہاسٹل میں رہتا تھا مگر مجھے علامہ صاحب سے ملنے ان کے گھر جانا تھا۔ سعید منزل میں آکر طے ہوا کہ ہم سب علامہ صاحب کے ہاں جائیں اور ان سے درخواست کریں کہ پریس ریلیز واپس لے لیں۔ تنویر عباس تابش(نائب صدر) کو بھی بلا لیا گیا۔ ہمارا علامہ صاحب کے ہاں جانا اور وہاں پر بدقسمتی سے بعض طلبہ کا اشتعال میں آجانا اس قدر غلط انداز میں اخبارات میں چھپا اور لوگوں نے اسے اس قدر اچھالا (جب کہ ہم جیل میں ہونے کی وجہ سے کوئی وضاحت بھی نہ کرسکتے تھے) کہ ساری حقیقت پروپیگنڈے کے کیچڑ میں دب گئی۔ زبانی طور پر اس واقعے کا تذکرہ کئی مجلسوں میں ہوچکا ہے مگر تحریر میں یہ پہلی مرتبہ بیان ہورہا ہے۔
یہ واقعہ جس طرح اخبارات میں چھپا اور جس طرح اس کی روایت مولانا مودودیؒ کے سامنے بیان کی گئی وہ نہایت غلط اور قابلِ افسوس تھی۔ مولانا مرحوم نے اس واقعے کو سن کر اور اخبارات میں خبریں دیکھ کر ہمارے خلاف جو سخت بیان دیا تھا وہ ریکارڈ میں موجود ہے اور ہمارے خلاف اس کے حوالے دیے جاتے ہیں اور دیے جا سکتے ہیں، مگر مولانا مرحوم کو جب ساری صورتِ حال کا پتا چلا تو انھیں خود اپنے اس بیان پر افسوس ہوا۔ آپ نے صفدر علی چودھری صاحب کی معرفت جیل میں مجھے پیغام بھیجا کہ وہ اپنے انتہائی عزیز ساتھی چودھری غلام محمد مرحوم کی وفات پر کراچی سے اسی شام واپس آئے تھے اور سخت پریشان تھے اور جس انداز میں ان تک بات پہنچی تھی اس سے انھیں بڑا دکھ ہوا تھا۔
جو کچھ کہا جا چکا تھا اس پر مزید وضاحتی بیان کی ہم نے کوئی ضرورت نہ سمجھی اور مولانا مرحوم کے شایانِ شان بھی نہیں تھاکہ اپنے بیان کی تردید کرتے۔ مولانا نے صفدر صاحب کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ ان کو حقائق کا علم ہوگیا ہے اور میرا اور میرے سب ساتھیوں کا کھانا عید کے دن مولانا کے گھر سے آئے گا۔ ہماری گرفتاری کے تیسرے چوتھے روز عیدِ قرباں تھی۔ عید کے روز مولانا کے ڈرائیور بابا عبدالغفور کے ساتھ صفدر چودھری صاحب اور محترم محمد فاروق مودودی ہم سب کے لیے پُرتکلف کھانا لے کر آئے جس سے ہمارے علاوہ ہمارے بعض عام قیدی ساتھی بھی لطف اندوز ہوئے۔
خیر میں علامہ صاحب کے گھر جانے کی بات کررہا تھا۔ علامہ صاحب سے ان کے دفتر کے علاوہ بارہا میں ان کے گھر میں بھی مل چکا تھا۔ اس سے قبل دو ملاقاتیں ان کے گھر میں رات ہی کے وقت ہوچکی تھیں۔ ایک مرتبہ تو نیوکیمپس کے کچھ طلبہ کا کوئی ارجنٹ مسئلہ تھا جس کی صحیح نوعیت اس وقت مجھے یاد نہیں۔ اس روز عشا کے بعد بغیر پیشگی اطلاع کے میں علامہ صاحب کے ہاں گیا اور ان کی اجازت سے ان کے گھر میں جاکر ملا تھا۔ اُس وقت میں جمعیت کا ناظم تھا اور اسی حیثیت میں ملا تھا، کیوںکہ یونین ابھی وجود میں نہ آئی تھی۔ دوسری مرتبہ 1969ء کے رمضان میں رات ہی کے وقت علامہ صاحب سے طلبہ کے ایک وفد کے ہمراہ ملا تھا۔ اس وقت یونین کے انتخاب قریب آگئے تھے۔ اِس مرتبہ جو مسئلہ درپیش تھا وہ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے۔ یونیورسٹی (نیوکیمپس) میں ابھی مسجد تعمیر نہیں ہوئی تھی، نمازِ جمعہ کا خطبہ، جماعت اور اردو تقریر محترم پروفیسر خالد علوی صاحب کے ذمے تھی۔ (جاری ہے)