چھبیسویں آئینی ترمیم:اب کچھ بدلے گا؟

ہر آئینی ترمیم کے وقت حکومتِ وقت نے اسے اپنے لیے تحفظ اور حفاظتی دیوار سمجھا، لیکن ان میں سے کوئی ایک ترمیم بھی حکومت کے کام نہیں آسکی

پاکستان میں دستور کے ساتھ کھلواڑ کوئی نئی بات نہیں، اور ہر حکومت نے اپنی سیاسی بقاء کے لیے دستور میں من پسند ترامیم کی ہیں۔ تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ جب دستور بنا اور ملک میں نافذ ہوا تو سب سے پہلے بھٹو حکومت نے بنیادی انسانی حقوق معطل کیے اور بلوچستان پر فوج کشی کی اجازت دی۔ بھٹو حکومت نے چار سالوں میں دستور میں 7 ترامیم کرڈالیں۔ آٹھویں ترمیم جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے آئینی پیکیج کے تحت ہوئی، دستور میں نویں ترمیم سے لے کر سولہویں ترمیم نوازشریف کے دور میں ہوئیں، سترہویں ترمیم جنرل پرویزمشرف کے ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنانے پر ہوئی، اٹھارہویں ترمیم اور اس کے بعد اب چھبیسویں ترمیم میثاقِ جمہوریت کے نام پر ہوئی۔ ہر آئینی ترمیم کے وقت حکومت نے اسے اپنے لیے تحفظ اور حفاظتی دیوار سمجھا، لیکن ان میں سے کوئی ایک ترمیم بھی حکومت کے کام نہیں آسکی۔ جس طرح ماضی میں ہوا، مستقبل میں بھی وہی ہوگا۔ جو ترمیم دستور میں جمہور اور ریاست کے حقیقی مفاد کے مطابق کی جائے وہی ترمیم پائیدار کہلائے گی، باقی سب کچھ ایڈہاک ازم کے سوا کچھ نہیں ہے۔

چھبیسویں ترمیم کا بنیادی نکتہ عدلیہ ہے، سب سے پہلا ردعمل بھی عدلیہ سے ہی آئے گا۔ ہوسکتا ہے کچھ ججوں کے استعفے آجائیں۔ دوسرا ردعمل وکلا کی طرف سے آسکتا ہے۔ حکومت کو کیا ملے گا؟ حکومت تو 56 نکاتی آئینی پیکیج لارہی تھی، تاہم یہ کوشش 22 نکات تک محدود ہوگئی۔ جو ترامیم لائی گئی ہیں، ان میں آرٹیکل 8 میں ترمیم کی تجویز مسودے سے باہر نکال دی گئی، ملٹری کورٹ کا معاملہ بھی رک گیا۔ اب ایک مسئلہ رہ گیا ہے کہ آیا مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ نافذ ہوجائے گا؟ اور اپوزیشن کے جن ارکان نے ووٹ دیا ہے اُن کا کیس عدالت میں جاسکتا ہے یا نہیں؟ ان کا ووٹ شمار ہوگا تو پھر ان کی رکنیت رہ جائے گی یا نہیں؟ یہ معاملہ ضرور عدالت میں جاسکتا ہے۔ یہ سارے ابہام ایک بار پھر عدالت کے روبرو پیش کیے جائیں گے جہاں آئینی بینچ میں اس کی سماعت ہوگی۔ یہ سب امور آئندہ دنوں میں سامنے آئیں گے۔

اب آئینی ترمیم کے بعد سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگلا چیف جسٹس کون ہوگا؟ جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحیی آفریدی تین سینئر جسٹس ہیں، لیکن یہاں ایک تیکنیکی نکتہ ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی جسٹس منیب اختر سے سینئر ہیں، لیکن سابق چیف جسٹس نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کو سپریم کورٹ میں جج بناکر انہیں جسٹس یحییٰ آفریدی سے سینئر بنادیا۔ یہ معاملہ اب ضرور اٹھے گا۔ صورتِ حال بہت دلچسپ بن رہی ہے کہ اگر ججوں کا ایک گروپ مستعفی ہوجاتا ہے تو پھر حکومت کے لیے وقتی پریشانی ہوگی، تاہم اُس کے لیے نئے ججوں کی تقرری کا راستہ کھل جائے گا۔ آئینی ترمیم میں سب سے اہم نکتہ ججوں کی کارکردگی جانچنے کا عمل ہے۔ اگر آئینی ترامیم کو تحریک انصاف کے نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اب عمران خان کے لیے ریلیف کا معاملہ بہت دور ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کو اس سطح پر لے جانا عمران خان کا اپنا فیصلہ ہے، پارٹی عمران خان کے اس رویّے سے پریشان ہے کیونکہ مار کٹائی پارٹی کی ہورہی ہے، عمران خان صرف جیل میں ہیں، انہیں اس کے سوا اور کوئی پریشانی نہیں ہے۔

آئینی ترامیم کے بعد اب ملک میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین ایک نئی گھمسان کی جنگ شروع ہوسکتی ہے، تاہم وکلا حکومت کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتے، حکومت کو خود اپنے گھر سے ہی پریشانی ہوگی اور پارلیمنٹ میں اب حکومت کے لیے زیادہ ٹف ٹائم آنے والا ہے۔

عدلیہ کے حوالے سے منظرنامہ اُس وقت تجزیے کا محتاج ہوگا جب نئے چیف جسٹس کا فیصلہ ہوجائے گا، فی الحال تو منظر یہ ہے کہ اس وقت اعلیٰ عدلیہ میں جو سینئر جج ہیں، ان میں سے ایک سے حکومت اور دوسرے سے اپوزیشن خوف زدہ ہے۔ آئینی ترامیم کی منظوری سے بنیادی طور پر حکومت فائدے میں رہے گی، مستقبل میں پیپلزپارٹی اور جے یوآئی بھی حکومت کا حصہ بن سکتی ہیں۔ آئینی ترامیم میں تحریک انصاف کی لیڈرشپ مکمل شامل رہی ہے، اسی لیے اب تحریک انصاف ججوں کی تقرری کے لیے کمیٹی کا حصہ بن گئی ہے، خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ آئینی ترامیم نہیں ہوسکیں گی، لیکن ارکانِ اسمبلی ایوان میں آئے، جس طرح عامر لیاقت حسین نے کہا تھا کہ ’’ہم آتے نہیں ہیں، لائے جاتے ہیں‘‘۔ اب بھی یہی کچھ ہوا۔ پی ٹی آئی کے 16 ارکانِ قومی اسمبلی اور 2 سینیٹرز آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے حکومت کے ساتھ تھے۔ پی ٹی آئی کے 11 پارلیمنٹیرینز کی فہرست کے علاوہ پی ٹی آئی کے 5 دیگر ایم این ایز کال پر تھے۔ جے یو آئی کے ساتھ شرائط طے نہ ہونے کی صورت میں 4 اور بھی ووٹ دینے کے لیے تیار تھے۔ ہوسکتا ہے ان کے نام افشا کردیے جائیں۔ باخبر ذرائع کہہ رہے تھے کہ ایم این اے چودھری الیاس، عثمان علی، مبارک زیب، ظہور قریشی، اورنگزیب کھچی حکومت کو ووٹ دیں گے۔ علاوہ ازیں ریاض فتیانہ، زین قریشی، مقداد حسین اور اسلم گھمن کو لابی میں ریزرو کے طور پر رکھا گیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں تحریک انصاف میں پھوٹ پڑ جائے اور ایک بڑا گروپ فارورڈ بلاک بنا لے۔ بہرحال حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم منظور کرانے میں بالآخر کامیاب ہوگئیں، سینیٹ نے65 ووٹوں کی دو تہائی اکثریت سے26ویں آئینی ترمیم منظورکرلی جبکہ مخالفت میں 4ووٹ آئے۔ حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5، اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے 2 ارکان نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا۔ ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کے ارکان ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ بہرحال انہوں نے ووٹ دے کر آئینی عمل کو ایک قانونی اور آئینی عمل بنادیا، اسی لیے اب تحریک انصاف ججز تقرری کے لیے کمیٹی میں شامل بھی ہوگئی ہے۔

ایوانِ بالا کے بعد پیرکی علی الصبح ایوانِ زیریں نے بھی آئینی ترمیمی بل کی منظوری دے دی۔ اسپیکر ایازصادق کی زیرصدارت اتوارکو رات گئے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا اور نوید قمر نے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے منظورکرلیا۔ تحریک منظور ہونے کے بعد 20 اور 21 اکتوبر کو معمول کی کارروائی معطل کردی گئی۔ اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی۔ ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیے، 12نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی۔ بعد ازاں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی جس میں 225ارکان یعنی دوتہائی اکثریت نے ترمیمی بل کی حمایت میں ووٹ دیا جبکہ 4ارکان نے بل کی مخالفت کی۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا، جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ججوں کا تقرر کرے گا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دیے جائیں گے، چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی، آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی جج تعینات کیے جائیں گے اور آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔ پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینئرترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی،کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکارکی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت 3 سال ہوگی تاہم چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے، ترمیم کے تحت چیف جسٹس سے سومو نوٹس لینے کا اختیار ختم، جبکہ ججوں کی ترقی کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی، ترمیم کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کے تحت صدرِ مملکت، کابینہ اور وزیراعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹریبونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کرنے کے مجاز ہوں گے، عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس پٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکتا ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز ہے، جس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل 13 ارکان پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے، 4 سینئر ترین جج اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے سینئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ پتا چلا ہے کہ ججوں کی تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں 4 اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، کمیشن میں 2 اراکین قومی اسمبلی اور 2 سینیٹ سے لیے جائیں گے، 2 حکومت اور 2 اپوزیشن ارکان کمیٹی کا حصہ بنیں گے، حکومت کی طرف سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم تجویز کریں گے، اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر دیں گے۔ حکومت نے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز دی جس کے تحت جوڈیشل کمیشن جو پہلے صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائی کورٹ اور شریعت کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکے گا۔ ادھر حکومت نے مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں آرٹیکل 38 میں جمعیت علمائے اسلام کی ترمیم شامل کرلی جس کے تحت جنوری 2028ء سے ملک سود فری کردیا جائے گا، حکومت نے شریعت کورٹ کے ججوں سے متعلق بھی جے یو آئی کی تجویز مان لی، جے یو آئی کی تجویز پر مسودے میں آئین کا آرٹیکل 203 سی بھی شامل کردیا گیا، اس کے علاوہ جے یو آئی کی ناراضی دور کرنے کے لیے یہ تجویز ترمیم کا حصہ بنائی گئی اور مسودے کے مطابق آئین میں آرٹیکل 203 سی، شق 3 میں تبدیلی ہوگی، اس شق کے تحت لفظ ’’ہائی کورٹ‘‘کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت بھی لکھا جائے گا اور جج سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہوگا۔

ایک خدشہ جو بدستور موجود ہے وہ یہ کہ حکمران اتحاد نئے ’آئینی بینچ‘ میں اپنی پسند کے ججوں کی تقرری کے لیے ترامیم کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کرسکتا ہے، یا وہ اپنے ’ہم خیال‘ جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کرنے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔

پی ٹی آئی نے اچانک یوٹرن کیوں لیا؟ عین بل کی منظوری کے دن پی ٹی آئی کی سیا سی قلابا زی نے حیران کردیا۔ سیاسی کمیٹی نے بائیکاٹ کا جواز بنایا۔ پی ٹی آئی کی قیادت کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کسی صورت بھی حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے اور ترمیمی بل منظور نہیں ہوسکے گا، جب پتا چلا مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے تو حسبِ روایت یوٹرن لے لیا۔ بانی چیئرمین عمران خان سے مشاورت کے لیے ملاقات کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟26ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے سید خورشید احمد شاہ کی سربراہی میں قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ تواتر سے ملاقاتوں کے بعد اتوار کے روز عین بل کی منظوری کے دن پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے یہ حیران کردینے والا اعلامیہ جاری کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر رائے شماری کے عمل کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ سیاسی حلقے پی ٹی آئی کی اس سیاسی قلابازی پر دلچسپ تبصرے کررہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس اس مرحلے پر بائیکاٹ کا کوئی جواز نہیں تھا۔