سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت
پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا تین روزہ عوامی جرگہ جسے ”قومی عوامی عدالت“ کا نام دیا گیا تھا، 11 سے 13 اکتوبر تک پشاور اور ضلع خیبر کے سنگم پر ریگی للمہ میں منعقد ہوا، جس کا مقصد پشتونوں کو متحد کرکے اور ان کے مسائل کو زیر بحث لاکر متفقہ حل پیش کرنا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پی ٹی ایم نے یہ اجتماع ایسی حالت میں منعقد کیا جب مرکزی حکومت نے اس اجتماع سے محض چند دن قبل دہشت گردی مخالف قوانین کے تحت پی ٹی ایم پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا، جس کی وجہ سے خیبرپختون خوا پولیس نے یہ اجتماع روکنے کے لیے نہتے شرکاء پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 4 بے گناہ افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔ تاہم بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت اور صوبائی حکومت کے تعاون سے نہ صرف حالات قابو میں آئے بلکہ اس جرگے کے پُرامن انعقاد، نیز ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نعرے نہ لگانے اور غیر ملکی پرچم نہ لہرانے کی شرط پر اس اجتماع کے انعقاد کی اجازت بھی دی گئی اور صوبائی حکومت کی جانب سے اگر ایک جانب ضروری سہولیات بہم پہنچائی گئیں تو دوسری جانب اس جرگے میں خود وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور نے بھی شرکت کی۔
اس اجتماع میں مختلف مرکزی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی اور خطاب کیا۔ زیادہ تر تقاریر روایتی جذباتی انداز میں کی گئیں، اور آخر میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بھی زیادہ تر پرانی باتوں کو دہرایا گیا، البتہ اس میں بعض باتیں نہ صرف نئی تھیں بلکہ بعض مطالبات کو مبصرین انتہائی سخت اور غیر لچک دار قرار دے رہے ہیں۔
اجتماع کے اختتام پر پختون خوا اور بلوچستان کے مختلف اضلاع اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 80 نمائندوں کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جسے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے 22 نکاتی قرارداد کی شکل میں پیش کیا۔ اس اعلامیے میں گروپ پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اعلامیے نے عسکریت پسند گروپوں اور افواج پاکستان کو صوبے سے نکلنے کے لیے دو ماہ کی مہلت دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو جرگہ یہ فیصلہ کرے گا کہ ان عناصر کو کس طرح ہٹانا ہے۔ قرارداد میں خیبر پختون خوا کو سستی اور مسلسل بجلی کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بجلی خیبر پختون خوا کا وسیلہ ہے اور اسے لوڈشیڈنگ کے بغیر فراہم کیا جانا چاہیے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ بجلی کی قیمت 5 روپے فی یونٹ ہونی چاہیے جبکہ قبائلی علاقوں کو مفت بجلی دی جانی چاہیے۔ جرگے نے خبردار کیا کہ اگر لوڈشیڈنگ جاری رہی تو تمام صوبوں کی بجلی منقطع کردیں گے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پختون زمین کے وسائل پر ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا اور شہدا اور لاپتا افراد کی زمینوں پر قابض قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے وکلاء کی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔ جرگے نے کہا کہ جو لوگ اس صوبے کے عوام کے وسائل پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں، انہیں قبضہ چھوڑنا ہوگا اور لوگوں کو ان کا حق دینا ہوگا۔ یہ جرگہ ان کے مقدمات عدالتوں میں لڑے گا، حتیٰ کہ اگر ضروری ہوا تو بین الاقوامی عدالت میں بھی جائے گا۔ اس کے علاوہ جرگے نے مطالبہ کیا کہ ڈیورنڈلائن جو افغانستان کے ساتھ سرحد ہے، اسے دونوں ممالک کے درمیان بغیر ویزا تجارت کے لیے کھولا جائے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت چمن سے دیر تک کے راستوں پر ہونی چاہیے۔ جرگے نے خبردار کیا کہ اگر اس پر عمل نہیں کیا گیا تو ڈیورنڈ لائن پر چیک پوسٹیں بند کردی جائیں گی۔
منظور پشتین نے واضح کیا کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم جرگے کا باضابطہ حصہ نہیں تھی، لیکن افغان طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے دی جائے۔ اس کے علاوہ جرگے نے قبائلی تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک وفد تشکیل دینے کا وعدہ کیا، جس کا آغاز کرم ایجنسی سے کیا جائے گا۔ جرگے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ خیبر پختون خوا کو قدرتی گیس اور پانی دیا جائے، فوجی عدالتیں اور حراستی کیمپ ختم کیے جائیں،تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، اموات اور گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جائے، اور داخلی طور پر بے گھر افراد کو بغیر کسی بھتہ خوری کے اُن کے گھروں کو واپس بھیجا جائے۔
جب یہ مطالبات کیے جارہے تھے اس موقع پر خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی جرگے میں موجود تھے، جب کہ پی ٹی ایم کے سربراہ نے وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ وہ اس اعلامیے کو بطور قرارداد صوبائی اسمبلی کے سامنے پیش کریں۔ اس پر علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پختون قومی جرگے کی منظور کردہ قرارداد اسمبلی اجلاس میں پیش کی جائے گی اور اسے اسمبلی سے منظور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپیکس کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کیا جائے گا، جہاں جرگے کے اراکین کو اپنی تجاویز پیش کرنے کے لیے بلایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے اور پختونوں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہاکہ پاکستانی فوج اور پولس گزشتہ 24 سال سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قربانیاں دے رہی ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے اور خوش آئند ہے کہ پختون قوم اپنے مسائل کو پُرامن طریقے سے بحث کے ذریعے حل کرنے کے لیے اکٹھا ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہمیں متحد ہونا ہے اور ملک کے دشمنوں کی خواہشات کو ناکام بنانا ہے۔ کنڈی نے مزید کہا کہ خیبر پختون خوا کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے، جس کے خلاف ہم سب کو متحد ہونا ہوگا۔ انہوں نے عہد کیا کہ حکومت اور پختون عوام اس خطرے کا مل کر سامنا کریں گے اور اسے شکست دیں گے۔
جرگے نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ جمرد اجتماع کی جگہ پر ایک کثیرالجماعتی سیاسی عمارت تعمیر کی جائے گی، جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے دفاتر ہوں گے۔ اجتماع میں رہنماؤں نے پشتونوں کے اتحاد اور ان کے مسائل کے حل پر زور دیا۔ ایک مثبت بات یہ تھی کہ ماضی کے برعکس اس اجتماع میں افغانستان کے جھنڈے لہرانے کی اجازت نہیں دی گئی، اگرچہ اطلاعات کے مطابق افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان میں سے بعض افراد کو سائیڈ پر اپنے جھنڈے کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھا گیا۔ مزید برآں ماضی کے برعکس اِس اجتماع میں فوج مخالف نعرے بازی کم ملی، جس سے ایک زیادہ مصالحانہ رویّے کا اظہار ہوا۔ ان اعلانات کے برعکس، جو خاص طور پر بیرونِ ملک ان عناصر کی جانب سے کیے گئے تھے جو پی ٹی ایم کے رہنما اور کارکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور برسوں سے پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کے لیے اس کا پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں، کہ اس جرگے میں پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کیا جائے گا، یہ بات خوش آئند ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
اس اجتماع میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پختونوں کی سرزمین پر 9,237 بم دھماکوں اور دہشت گردی کے مختلف واقعات میں علماء، قبائلی عمائدین اور پولیو ٹیم میں شامل خواتین سمیت 76,584 افراد ہلاک ہوئے۔ بیوہ عورتوں کی تعداد 27000 بتائی گئی ہے۔ ضلع کرم میں شیعہ اور سنی قبائل کے تصادم میں 4100 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ ان کے مطابق 6,700 سے زیادہ افراد جبری طور پر گمشدہ یا گرفتار کیے گئے ہیں۔ مختلف سابقہ قبائلی علاقوں میں بارودی سرنگوں کے 300 سے زائد دھماکے ہوئے، جن میں 7,538 افراد معذور ہوگئے۔ اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف ہونے والے 11 آپریشنز میں 35 بازار تباہ ہوئے، 38,000 گھر اور 1,000 مساجد و مدارس مسمار کیے گئے، اور 57 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، جن میں سے 23 لاکھ افراد اب بھی آئی ڈی پیز یا بے گھر ہیں۔ اس وقت 201707 پشتونوں کے شناختی کارڈ بلاک ہیں۔ ان کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے پشتون علاقوں میں 10 لاکھ ایکڑ زمین اپنے قبضے میں لے رکھی ہے۔
حیران کن طور پر اعلامیے میں فوج کے انخلاء کا ذکر تو کیا گیا ہے لیکن طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا نام نہیں لیا گیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر فوج نکلے تو امن و امان کی ذمہ داری کس کی ہوگی؟ اگر یہ علاقے دوبارہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بن گئے اور پہلے کی طرح ان کی سہولت کاری کی گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اعلامیے کے مطابق، اگر فوج نہیں نکلی تو لوگ خود نکالیں گے۔ کیا اس سے علاقے میں امن قائم ہوگا یا تصادم بڑھے گا؟ کیونکہ فوج کسی بھی صورت ان علاقوں کو دوبارہ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر کبھی نہیں چھوڑے گی۔
پختون خوا میں پانچ روپے فی یونٹ اور قبائلی علاقوں میں مفت بجلی کی فراہمی سے متعلق جو مطالبہ کیا گیا اس کو بھی ایک غیر سنجیدہ مطالبے کے طور پر لیا جارہا ہے، کیونکہ بجلی کے زیادہ بلوں کا مسئلہ پورے ملک کا ہے اور حکومت کو اس پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ لیکن ایک ہی ملک میں حکومت کسی کو مفت، کسی کو پانچ روپے اور کسی کو ساٹھ روپے فی یونٹ بجلی کیوں فراہم کرے گی؟ اس کی کیا توجیہ پیش کی جائے گی یا اس کا کیا جواز ہے؟ پھر یہ دھمکی دینا کہ کوئی بھی پانچ روپے سے زیادہ کا بل ادا نہیں کرے گا، اور اگر حکومت نے بجلی نہیں دی تو دوسرے صوبوں کی بجلی کاٹ دی جائے گی، کیا یہ سول نافرمانی، تصادم اور بدامنی پھیلانے کا راستہ نہیں ہے؟ اور کیا ایسا کرنا عملی طور پر ممکن ہوگا؟ اسی طرح یہ اعلان کہ پاک-افغان بارڈر پر پشتونوں کی آمدورفت اور کاروبار بغیر کسی رکاوٹ، پاسپورٹ اور ویزے کے جاری رہے گا۔ ایسا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی خاص طور پر موجودہ حالات میں کوئی ایسا کرنے دے گا۔ ایسے میں دہشت گردوں کو پاکستان میں داخلے کی کھلی چھوٹ مل جائے گی، اور اس کے علاوہ منشیات سمیت دیگر اسمگلروں کا بھی راج ہوگا۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کا ذمہ دار کون ہوگا اور ایسی سرگرمیوں کی روک تھام کون اور کیسے کرے گا؟
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ آئندہ کوئی پشتون کسی کو بھتہ نہیں دے گا۔ یہ بہت ہی اچھی اور قابلِ ستائش بات ہوگی کہ پختون علاقوں سے قاتل مفروروں، اغوا کاروں، کار چوروں اور بھتہ خوری کا خاتمہ ہو۔ آج کی رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ، وزیروں، کاروباری حضرات اور عام لوگوں سے بھی بھتے وصول کیے جارہے ہیں۔ اگر اس کو روکا گیا تو یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا، لیکن اس جرم کو کون اور کس طرح روکے گا، اعلامیے میں اس کا ذکر بھی نہیں ہے۔ آئی ڈی پیز یا پختون خوا کے مہاجرین کو جلد از جلد اُن کے گھروں تک پہنچایا جائے۔ یہ ایک بالکل جائز مطالبہ ہے، حکومت کو چاہیے کہ تمام آئی ڈی پیز کو فوراً عزت و احترام کے ساتھ ان کے علاقوں اور گھروں میں آباد کرے اور ان کے تمام نقصانات کا مکمل ازالہ بھی کرناچاہیے۔ جرگے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو پشتون وطن میں دشمنی اور بدامنی کا خاتمہ کرے گی۔ یہ کمیٹی سب سے پہلے کرم ایجنسی جائے گی اور وہاں مسائل حل کرے گی۔ اگر ایسا ہوسکے تو یہ اس قوم کے لوگوں کی بہت بڑی خدمت ہوگی جو آئے دن کبھی مسلک پر، کبھی زمینوں پر، یا پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے پورے پورے خاندانوں کو قتل کرتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی ایم کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے اس جرگے میں باجوڑ، وزیرستان، بنوں، لکی مروت، کوئٹہ، ڈی آئی خان، ژوب سمیت خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ان لوگوں کی شرکت کا ایک دلچسپ پہلو ان سب کا خود رضاکارانہ طور پر اپنی مدد آپ کے تحت جلسہ گاہ پہنچنا تھا۔ اجتماع کی ایک اور اہم بات اس میں پختون نوجوانوں کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ پختون روایات کے برعکس خواتین کی شرکت تھی۔ جرگے کے مقام پر سیکیورٹی انتظامات پی ٹی ایم نے خود سنبھال رکھے تھے تاہم حکومت کی جانب سے بھی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ ضلع جمرود کی انتظامیہ کی جانب سے پانی کے ٹینکر، ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی جانب سے جرگہ کے مقام پر ایک میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا تھا، جب کہ میڈیا کو بھی سارے اجتماع کی کوریج کی مکمل آزادی دی گئی تھی۔ جرگے کے حوالے سے ایک اور قابل توجہ بات قبائلی روایات کے مطابق دوردراز علاقوں سے آنے والے بزرگ مہمانوں کا مقامی حجروں میں قیام اور ان کے طعام اور آرام کی تمام سہولیات کی بلا تفریق فراہمی تھی جس کا پی ٹی ایم کی قیادت نے بھرپور الفاظ میں شکریہ ادا کیا-