عورتوں کے کرنے کا کام

اسلام کی راہ میں جو کچھ مردوں نے کیا ہے اس سے کچھ کم عورتوں نے نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اس دین کی خاطر ظلم بھی سہے، خطرات بھی مول لیے، جان و مال کی قربانیاں بھی دیں، اعزہ و اقربا کو بھی چھوڑا، جلاوطنی اور فقرو فاقہ کی تکلیفیں بھی اٹھائیں اور اپنے ایمان دار باپوں، شوہروں اور بھائیوں کے ساتھ وفاداری کا حق بھی پوری طرح ادا کیا۔ یہ آپ کی پیش رو خواتین کے کارنامے ہیں جن کی بدولت ابتدا میں اسلام دنیا پر چھایا تھا، اور آج اگر اس دین کو پھر دنیا پر چھانا ہے تو یہ بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ آپ انہی جاں نثار خواتینِ اسلام کے نقشِ قدم پر چلیں اور انہی کی طرح اخلاصِ ایمانی کا ثبوت دیں۔

اس وقت عورتوں کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کو اور اپنے خاندان اور اپنے ہمسایوں اور اپنے ملنے جلنے والوں کے گھروں کو شرک و جاہلیت اور فسق سے پاک کرنے کی کوشش کریں، گھروں کی معاشرت کو اسلامی بنائیں، پرانی اور نئی جاہلیتوں کے اثرات سے خود بچیں اور دوسرے گھروں کو بچائیں، اَن پڑھ اور نیم خواندہ عورتوں میں علمِ دین کی روشنی پھیلائیں، تعلیم یافتہ خواتین کے خیالات کی اصلاح کریں، خوشحال گھروں میں خدا سے غفلت اور اصولِ اسلام سے انحراف کی جو بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو روکیں، اپنی اولاد کو اسلام پر اٹھائیں، اپنے گھروں کے مردوں کو، اگر وہ فسق اور بے دینی میں مبتلا ہوں، راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں، اور اگر وہ اسلام کی راہ میں کوئی خدمت کررہے ہوں تو اپنی رفاقت اور معاونت سے ان کا ہاتھ بٹائیں۔ آگے چل کر اس دین کے لیے آپ کو اور دوسری خدمات بھی انجام دینی ہوں گی اور ان کے لیے آپ کو تیار کرنے کا انتظام بھی ان شاء اللہ اپنے وقت پر ہوجائے گا، لیکن سردست آپ کے لیے اس تحریک میں یہی کام ہے اور یہ آپ ہی کے کرنے کا ہے۔

عورت کو سب سے بڑی مشکل اُس وقت پیش آتی ہے جب وہ خود راہِ حق کو پاکر اس پر چلنے کے لیے آمادہ ہوجاتی ہے مگر اس کے گھر کے مرد اس کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں۔ یہ فی الواقع ایک بڑی مشکل صورتِ حال ہے جو بہت کچھ پریشانی کی موجب ثابت ہوتی ہے، لیکن اس معاملے میں بھی آپ کے لیے انہی خواتینِ اسلام کا نمونہ قابلِ تقلید ہے جنہوں نے ابتدا میں اس راہِ حق کو اختیار کیا تھا۔ آپ کی پوزیشن خواہ کتنی ہی بے بسی و کمزوری کی ہو، مگر بہرحال اُس حد کو نہیں پہنچتی جس حد تک زمانہ جاہلیت کے عرب میں عورتوں کی پوزیشن گری ہوئی تھی۔ اسی طرح آپ میں سے جن کو بھی ایسے مرد عزیزوں سے سابقہ درپیش ہو جو اسلام سے برگشتہ یا دعوتِ اسلامی کے مخالف ہوں، ان کا سابقہ بہرحال بگڑے ہوئے مسلمانوں سے ہے، مگر جن خواتین کا میں ذکر کررہا ہوں ان کا سابقہ تو کفار اور بدترین دشمنانِ اسلام سے تھا۔ اس فرق کے باوجود جو کچھ انہوں نے اپنے دین کے لیے کیا اور جس جرأت و ہمت اور استقلال کے ساتھ اپنے خاندان کی انتہائی مخالفت اور دشمنی کے مقابلے میں حق پرستی کا کمال دکھایا وہ ہمیشہ تمام دنیا کی عورتوں کے لیے ایک بہترین نمونہ رہے گا۔

(”روداد جماعت اسلامی“ حصہ پنجم)