اگر وزارتِ خزانہ کی حالیہ مالی سال کے لیے کی گئی منصوبہ بندی کا جائزہ لیا جائے تو قرض کے منصوبے اوّلین ترجیح نظر آتے ہیں
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوگیا، پہلی قسط مل گئی، اور اگلی قسط کے لیے پاکستان مارچ میں ایک بار پھر آئی ایم ایف کی دہلیز پر جا کھڑا ہوگا۔ اگلی قسط مشروط ہے۔ کہا گیا ہے کہ معیشت دستاویزی کریں گے تو اگلی قسط ملے گی، ورنہ ناقابلِ یقین حد تک سخت شرائط کے ساتھ ہمارے کشکول میں اشرفیاں بھری جائیں گی۔ حکومت اور وزارتِ خزانہ، دونوں خوش اور مطمئن ہیں مگر عوام بیڈ گورننس کا شکار ہیں۔ ساری کی ساری سختیاں انہیں جھیلنا پڑتی ہیں، حتیٰ کہ دھرنوں، مظاہروں، احتجاج اور لانگ مارچ میں ہونے والا سرکاری املاک کا نقصان بھی بالواسطہ طور پرعوام ہی کے گلے ڈالا جاتا ہے۔
شہبازشریف حکومت اپنی پہلی ششماہی گزار کر دوسری ششماہی میں داخل ہوچکی ہے ۔ حکومت اس وقت اپنا آٹھواں مہینہ گزار رہی ہے۔ اس عرصے کے دوران حرام ہے کہ اس ملک میں عوام نے ایک رات بھی سکون کے ساتھ گزاری ہو۔ ایک بل ادا کرکے دوسرے بل کی ادائیگی کی فکر انہیں کھائے چلی جارہی ہے۔ اس وقت حکومت کچھ معاشی اقدامات اور اعلان کرکے خوشی محسوس کررہی ہے کہ پاکستان نے ایک سال کے لیے 3.2 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض حاصل کرلیا ہے اور سعودی عرب تیل کی سہولت بھی فراہم کرے گا۔ یہ سہولت کیا ہے؟ ایک نیا قرض ہی ہے۔ 1.2 ارب ڈالرکی تیل سہولت کا وعدہ سعودی عرب نے کیا تھا۔ ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ایک ارب ڈالر کے تجارتی قرض دبئی اسلامی بینک، 60 کروڑ ڈالر ایس سی بی، اور 43 کروڑ ڈالرقرض اسلامی ترقیاتی بینک فراہم کرے گا۔ یہ سب آئی ایم ایف معاہدے کا ہی ثمر ہے۔
اگر وزارتِ خزانہ کی حالیہ مالی سال کے لیے کی گئی منصوبہ بندی کا جائزہ لیا جائے تو قرض کے منصوبے اوّلین ترجیح نظر آتے ہیں۔ اس منصوبہ بندی پر عمل کرکے اس سال 19.274 ارب ڈالر حاصل کیے جائیں گے۔ یہ قرض 19.2 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف قرض میں شامل نہیں ہے بلکہ اس سے الگ ہے۔ حکومت امید لگائے بیٹھی ہے کہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 4.56 ارب ڈالر، دو طرفہ قرض دہندگان سے 9.4 ارب ڈالر، کمرشل بینکوں سے 3.779 ارب ڈالر، بین الاقوامی بانڈز سے ایک ارب ڈالر، اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹ سے 0.5 ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ ابھی حال ہی میں وفاقی وزارتِ خزانہ کے اعلیٰ عہدیدار سعودی عرب کے دورے سے واپس آئے ہیں، لیکن فی الحال ان کے ہاتھ خالی ہیں اور کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب سے تیل میں سہولت مانگی ہے جس کے بدلے ریکوڈک ڈیل کو حتمی شکل دینے کے لیے بنیادی شرائط پر بات چیت شروع ہوسکتی ہے۔ تاہم وزارتِ خزانہ کی راہ داریاں یہ خبر دے رہی ہیں کہ اگلے سال تک کے لیے قرض کا منصوبہ مکمل ہوجائے گا جس کے نتیجے میں ایشیائی ترقیاتی بینک ماحولیاتی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے پروگرام کے لیے 400 ملین ڈالر دے گا، خواتین کے لیے بزنس سہولت کے لیے 100 ملین ڈالر مل جائیں گے، اور اسی سے جڑے ہوئے منصوبے کے لیے 300 ملین ڈالر بھی مل جائیں گے۔ حکومت چاہتی ہے پرفارمنس اور پالیسی ایکشنزکو اہداف کے مطابق مکمل کرے، اور دو طرفہ ڈپازٹس کے حوالے سے چین سے 4 ارب ڈالر اور سعودی عرب سے 5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس کی تجدید بھی چاہتی ہے، اور 1.2 ارب ڈالر کا نیا کمرشل قرض لینے کے لیے پر تول رہی ہے، ساتھ ساتھ ایک ارب ڈالر چینی کیپٹل مارکیٹس میں پانڈا بانڈز اور بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس میں گرین بانڈز جاری کرکے جمع کیے جائیں۔ مالی سال 2025ء کے دوران کسی یوروبانڈ یا بین الاقوامی سکوک کی میعاد نہیں ہے۔
یہ ساری کی ساری سخت معاشی منصوبہ بندی اس لیے ہے کہ ہم ابھی تک دو سال قبل آئے ہوئے سیلاب کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ ہمارے ہر وزیر خزانہ کی اپنی اپنی ترجیحات رہی ہیں۔ شوکت عزیز نے اپنے سابق بینک کو ترجیح دی، اب موجودہ وزیر خزانہ بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو، اور وزارتِ خزانہ کی لگام بھی حد درجہ باصلاحیت وزیر خزانہ کے ہاتھ میں ہو، اس کے فیصلوں کے مثبت اثرات کے لیے ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونا لازمی شرط ہے۔ اب پاکستان سے دستاویزی معیشت کا نظام مانگا جارہا ہے، اس کے بغیر چین اور سعودی عرب سمیت کوئی بھی تعاون کے لیے تیار نہیں ہے۔
شنگھائی تعاون کونسل کا سربراہی اجلاس اگلے ہفتے اسلام آباد میں ہورہا ہے۔ پاکستان کے لیے متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ ایس آئی ایف سی کی سہولت کاری سے حکومت ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے پُرعزم ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں مستقبل میں ایشیائی اور یورپی ممالک کی جانب سے 27 ارب ڈالر سے زائدکی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ ایشیائی اور یورپی ممالک کی جانب سے اس سرمایہ کاری کا بنیادی مقصد اہم شعبوں کی ترقی کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں معاونت فراہم کرنا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے 5 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات اور کویت سے 10, 10 ارب ڈالر اور آذربائیجان سے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے مجموعی طور پر 21 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں جن میں آئل ریفائنری کے قیام کے لیے تقریباً 10 ارب ڈالر، گوادر پورٹ پر پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کے لیے ایک ارب ڈالر اور 5 ارب ڈالر کی تجارتی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اسی سلسلے میں سعودی آئل کمپنی آرامکو سال کے آخر تک پاکستان میں اپنا پہلا برانڈڈ ریٹیل گیس اسٹیشن شروع کرے گی، جس نے مئی میں آئل اینڈ گیس پاکستان لمیٹڈ کے 40 فیصد حصص کا حصول مکمل کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ آذربائیجان پاکستان میں تیل اور گیس سمیت معدنیات اور دیگر شعبوں میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان خلائی صنعت کے منصوبے، ہائیڈرو میٹرولوجی، اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تعاون پر بھی غورکیا جارہا ہے۔ اسی طرح چین کے شانژی کول اینڈ کیمیکل انڈسٹری گروپ نے پاکستان کے توانائی کے شعبے کے لیے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان توانائی، پیٹرو کیمیکلز اور صنعتی ترقی کے شعبوں میں بڑھتے ہوئے تعاون کی اعلیٰ مثال ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ ڈنمارک کے اشتراک سے معروف مائننگ کمپنیاں پاکستان کی کان کنی کی صنعت میں سرمایہ کاری کریں گی۔ ایشیائی اور یورپی ممالک کی جانب سے پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ ملک کے مستقبل کے لیے خوش آئند ہے۔ بلاشبہ ایس آئی ایف سی کے تعاون سے حکومت براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب اور تمام قدرتی وسائل کا مؤثر استعمال کرکے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ پاکستان میں ایف ڈی آئی کا مستقبل مثبت نظر آرہا ہے۔ کئی عالمی کھلاڑی توانائی، کان کنی، ریفائنریز، کارپوریٹ فارمنگ اور ایکسپلوریشن جیسے شعبوں میں کام کرنے پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔
حکومت نے حال ہی میں غیر ضروری ادویہ کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کیا ہے اور پیٹرولیم کی قیمتوں کے تعین کے لیے اسی طرح کے اقدامات پر غور کررہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں کئی آئی ٹی پارکس اور ٹیک سٹیز کے منصوبے جاری ہیں۔ ان اقدامات سے ادویہ سازی، OMCs اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں غیر ملکی دلچسپی اور سرمایہ کاری کا امکان ہے۔
اسلام آباد میں ہنگاموں کا سورج غروب ہوا ہی تھا کہ کراچی میں دھماکہ ہوگیا جس میں خودکش حملہ آور بھی مارا گیا۔ حکومت اس واقعے کی باریک بینی سے تحقیقات کررہی ہے، چینی سفارت خانے کی جانب سے بھی اس کارروائی پر تشویش اور مذمت کی گئی ہے اورتحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل سوات میں گیارہ ملکوں کے سفیروں کے قافلے کو بھی دہشت گردی کا ہدف بنانے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ اس طرح پاکستان کے بارے میں یہ تاثر عام کرنے کی سازش کی جارہی ہے کہ یہاں کسی کی جان اور مال محفوظ نہیں تاکہ ملک میں معاشی بحالی کے جاری عمل کو روکا جاسکے۔ اس سلسلے کو ناکام بنانے کے لیے انٹیلی جنس نظام کو مزید بہتر بناکر دہشت گردی کے تمام نیٹ ورکس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔