7اکتوبر 2023ء کے بعد سے غزہ میں جاری انسانی المیے کو ایک سال مکمل ہوگیا۔ اس ایک سال میں 42 ہزار سے زائد انسانوں کو شہید کیا گیا جن میں 40 فیصد سے زائد بچے ہیں، لاکھوں لوگ زخمی ہوئے اور دس ہزار تاحال لاپتا ہیں جن کے بارے میں بتایا یہ جارہا ہے کہ شاید ان کی بھی وفات ہوچکی ہے لیکن ان کی لاشیں عمارتوں کے ملبے تلے دبی ہونے کے باعث تدفین نہ ہوسکی۔ غزہ کی 60 فیصد سے زائد عمارتوں کو زمیں بوس کردیا گیا اور غزہ کا کوئی علاقہ ایسا نہیں بچا کہ جہاں بنیادی ضروریات کے ساتھ انسانی زندگی گزاری جاسکے۔ لیکن ایک سال سے جاری اس جنگ میں اہلِ غزہ کی ہمت، حوصلے اور قربانیوں نے دنیا کے سامنے اسرائیل کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔ اس ایک سال میں اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل کی مذمت سے لے کر عالمی عدالت سے اسرائیلی وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری کا اجراء تاریخی قدم ہے، اور یہ اسرائیل کی بین الاقوامی طور پر پسپائی کا پہلا واقعہ ہے۔ اسرائیل جو آج تک عالمی طاقتوں کے بل بوتے پر مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کررہا تھا آج ان ہی ممالک میں اسرائیل کی حمایت سے دست برداری کا عوامی مطالبہ سامنے آرہا ہے، اور کسی حد تک حکومتیں اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات بھی کررہی ہیں۔ کئی مغربی ممالک نے نہ صرف فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا بلکہ فلسطین کے لیے ہر ممکن تعاون کا بھی یقین دلایا۔ عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کو کوئی اسلامی ملک نہیں بلکہ جنوبی افریقہ لے کر گیا۔ اسی طرح مغرب میں موجود بلاتفریق انسانی حقوق پر یقین رکھنے والی حکومتوں کی جانب سے اسرائیل کی وہ حمایت سامنے نہ آسکی جو ماضی میں کبھی آیا کرتی تھی۔ عالمی ضمیر نے جس طرح اس ایک سال میں بنیادی انسانی حقوق کی اسرائیل کی جانب سے خلاف ورزیوں پر ردعمل دیا ہے وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ و برطانیہ کی جامعات میں طلبہ و اساتذہ نے جس علمی شعور کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل کی حمایت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے بائیکاٹ کا مطالبہ جس اکیڈمک انداز میں کیا اور جس طرح اپنے جمہوری حق اور آزادیِ رائے کا اظہار فلسطین کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے کیا وہ بدلتی دنیا کا پیغام دے رہا ہے۔
برطانیہ، کہ جس نے فلسطین کے قلب میں اسرائیلی ریاست کا بیج بویا اور مسلمانوں کو اعلانِ بالفور کے بعد جبری طور پر ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے اس ریاست کی بنیاد رکھی آج وہ ریاست عوامی دباؤ پر عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیلی وزیراعظم کے وارنٹ کے اجراء کے خلاف اپیل واپس لے رہی ہے۔ بی بی سی جیسا نشریاتی ادارہ جس پر عام طور پر اسرائیل کی حمایت کا الزام مسلمانوں کی جانب سے عائد کیا جاتا تھا وہ بھی غزہ میں اسپتال پر اسرائیلی میزائل حملے کی کوریج کرتے ہوئے اس کو اسرائیل کا اسپتال پر حملہ اور جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ گوکہ یہ سب کچھ سمندر میں محض ایک قطرہ ہے، لیکن یہ قطرہ دراصل بارش کی پہلی بوند ہے کہ جس کے بعد بارش کا آغاز ہوتا ہے۔ فلسطینیوں نے یہ سب کچھ اپنی جہدِ مسلسل اور قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔ عالمی سطح پر عوامی رائے عامہ کا ایسا حیرت انگیز مظاہرہ اس سے قبل کبھی اہلِ فلسطین کے لیے دیکھنے میں نہیں آیا تھا، لہٰذا یہ ایک سال مسئلہ فلسطین کے لیے ایک صدی جتنی اہمیت کا حامل ہے۔
اگر ہم عسکری طور پر اسرائیل اور فلسطین کا موازنہ کریں تو 7 اکتوبر 2023ء کے واقعات کے بعد دنیا اور خاص طور پر عالمی عسکری اسٹیبلشمنٹ اس بات پر حیران تھی کہ دنیا کی ہائی ٹیک باڑ، جس کو دنیا میں مثال بنایا گیا، جس کی لاگت ایک ارب امریکی ڈالر سے زائد تھی، اسے کیسے صرف دس منٹ میں نہ صرف روند ڈالا گیا بلکہ دنیا کے محفوظ ترین فوجی اڈوں میں سے ایک پر حملہ کرکے ڈھائی سو لوگوں کو یرغمال بناکر غزہ میں لے جایا گیا جو کہ تاحال ناقابلِ یقین لگتا ہے۔ اس میں عسکری، ٹیکنالوجیکل، اور جاسوسی نظام کی مکمل ناکامی ثابت ہوچکی ہے، اور یہ سب کچھ کسی دوسری عالمی طاقت کے ہاتھوں نہیں ہوا بلکہ اُن کے ہاتھوں ہوا جو ایک طویل عرصے سے قید میں تھے، جن کے پاس اسرائیل کو حاصل ٹیکنالوجی کا دسواں حصہ بھی نہ تھا، جن کی عسکری قوت و صلاحیت میں ایک اور سو کا بھی موازنہ نہ تھا، اس سے بڑھ کر یہ کہ غزہ کو مکمل تباہ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کے باوجود کوئی ایک قیدی بھی زندہ نہ چھڑوایا جاسکتا جو کہ اس اسرائیلی فوجی آپریشن کی مکمل ناکامی ہے۔
یہ ایک سال دنیا میں حیرت انگیز تبدیلیوں کا سال تھا جس میں سات دہائیوں سے جاری قتل، نسل کُشی، قبضوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک ہوا۔ وہ عالمی طاقتیں جو کل تک اسرائیل کے وجود کی بنیاد تھیں آج عوامی دباؤ پر اس معاملے میں جب کوئی حقیقت پسندانہ مؤقف عوامی رائے اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں وضع کرتی ہیں اور اگر وہ مؤقف اسرائیل کے مؤقف کے مواقف نہ ہو تو اسرائیل ان طاقتوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دینے سے بھی باز نہیں آتا۔
986 میڈیکل ایڈ ورکرز، 128 صحافیوں اور اُن کے اہلِ خانہ کے قتل کے بعد اب صورتِ حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عالمی نشریاتی اداروں کے دفاتر کو بزور بند کروایا جارہا ہے۔ صحافیوں کو ناپسندیدہ قرار دے کر فلسطین سے جبری طور پر بے دخل کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے ملازمین کا کسی بھی ایک جنگ میں سب سے زیادہ قتلِ عام اس ایک سال کی جنگ میں ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر دہائی دیتے ہیں کہ اسرائیل ہماری بات نہیں مان رہا۔
اس ایک سال میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی دونوں تنظیموں حماس اور حزب اللہ کے سربراہان کا قتل بھی اسرائیل کو محفوظ نہیں بنا سکا۔ اسرائیل میں گرنے والے راکٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور بڑی تعداد میں اسرائیلی باشندے اب بنکروں یا محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں۔ جنوبی لبنان اور غزہ کے قریب واقع اسرائیلی آبادیاں بارڈر سے 60 کلومیٹر تک اب خالی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کے انتہا پسندانہ مؤقف کے خلاف خود اسرائیلی باشندے اسرائیل کی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
عالمی سطح پر یہ ایک سال اسرائیل کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے کہ جہاں ہر گزرتا دن نہ صرف عالمی ضمیر کو اسرائیل کے مظالم سے آگاہ کرتا ہے بلکہ اب اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر دفاع کی بھی قلعی کو کھول رہا ہے۔
زمین پر موجود اسرائیل کی عسکری فوجی قوت میں سے 2 ڈویژن فوج غزہ میں موجود ہے، جبکہ اب حسن نصر اللہ کے قتل سے پیدا شدہ صورتِ حال کے بعد لبنان کی سرحد پر مزید دو ڈویژن فوج کو تعینات کردیا گیا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ جریدے دی اکانومسٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کو افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا ہے اور فوجی مشینری کو چلانے کے لیے بھی درکار تعداد میں فوجی موجود نہیں۔ اسرائیل کی معیشت اب تباہی کا مکمل نمونہ ہے۔ جنگ کے سات ماہ بعد شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا قرضہ اس کے تین سال کے کُل بجٹ کے مجموعے سے تجاوز کرگیا ہے اور اب مزید پانچ ماہ گزر جانے کے بعد یہ صورتِ حال مزید بدتر ہے۔
اسرائیل کے ارضِ فلسطین پر ناجائز قبضے اور جنگوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی اسرائیلی ریاست کے قیام کی تاریخ۔ تاہم 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کو ایک فیصلہ کن جنگ تصور کیا جاتا ہے جس کے بعد اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری طاقت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ اس 20 روزہ جنگ میں اسرائیل کے مقابل شام اور مصر کی عسکری قوت، اور ان کے ساتھ مزید دس ممالک کی فوجی قوت تھی۔ جنگ کا اختتام اسرائیل کی فتح پر ہوا اور اسرائیل نے سوئز کینال کے ساتھ 1600 مربع کلومیٹر علاقہ مصر سے چھین لیا، اور اس کے ساتھ گولان کی پہاڑیوں پر بھی قابض ہوکر 500 مربع کلومیٹر علاقے کو اپنا حصہ بنا لیاتھا۔
اسرائیل کے مؤقر اخبار یروشلم پوسٹ نے ایک سال مکمل ہونے پر اپنی خصوصی اشاعت میں اس ایک سالہ جنگ کا موازنہ عرب اسرائیل جنگ 1973ء سے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 1973ء میں محض تین ہفتوں میں اسرائیلی افواج دمشق اور قاہرہ تک پہنچ گئی تھیں، اب7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نے تین دن میں غزہ کو فتح تو کرلیا لیکن وہ اسرائیل کو تاحال حماس کے حملوں سے محفوظ نہیں بنا سکا، اور حماس کے پاس دوبارہ 7 اکتوبر جیسا حملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اگر دونوں جنگوں کا موازنہ کیا جائے تو 1973ء میں اسرائیل کی آبادی 33 لاکھ تھی اور اس جنگ میں 2356 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی تھی جوکہ آبادی کے تناسب سے 1242 میں سے ایک فرد کی ہلاکت تھی، جبکہ 295 فوجی قید کرلیے گئے تھے۔
اب 2023ء میں اسرائیل کی آبادی 98 لاکھ تھی، اور اس ایک سال میں 1697 افراد قتل ہوچکے ہیں جن میں سے 885 فوجی اور 812 عام شہری ہیں۔ یہ اس لحاظ سے تباہ کن ہے کہ ان ہلاکتوں میں ماضی کی بہ نسبت عام شہریوں کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں، اور اسی طرح حماس کی جانب سے قید کیے گئے 91 فیصد قیدی عام شہری ہیں۔ اخبار نے اس صورتِ حال پر لکھا کہ عام شہریوں کی قید اور فوجیوں کی قید میں بنیادی فرق موجود ہے، اور اس پچاس سال کے عرصے میں اب ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد عام شہریوں کی ہے جوکہ اسرائیل میں شدید صدمے، رنج اور غم کا باعث ہے۔
اخبار نے فلسطین میں ان تقریباً 1700 افراد کے قتل کے بدلے میں قتل کیے گئے 42 ہزار سے زائد انسانوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ تاہم اصل صورتِ حال یہی ہے کہ اسرائیل کا ایک فوجی یا عام شہری بھی ان کے لیے ایک لاکھ انسانوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیل کے لیے موجودہ صورتِ حال نہ صرف اس حوالے سے عسکری طور پر تشویش ناک ہے کہ وہ اسرائیل جو آج سے پچاس سال قبل 12 ممالک کی افواج کو نہ صرف شکست دے چکا ہے بلکہ ان کے علاقے بھی فتح کرچکا ہے وہ ایک نیم عسکری قوت سے ابھی تک برسرپیکار ہے، اور اپنے مغویوں کو بھی چھڑا نہیں پایا۔
نیویارک ٹائمز کے 7 اکتوبر 2024ء کے تبصرے کے مطابق اسرائیل ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں گھرا ہوا ہے۔
ایک سال میں اسرائیل مزید غیر محفوظ ہوا ہے، بین الاقوامی سیاست میں اس کی ہوا اکھڑی ہوئی ہے، آزادیِ اظہارِ رائے کا گلا گھونٹ کر اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر کر بھی اسرائیل تاحال اپنے پیش نظر نتائج کے حصول میں ناکام ہے۔ اس جنگ کا ایک سال اسرائیل کی سب سے بڑی جنگی شکست کا پیش خیمہ ہے۔ اقوام عالم نے انسانی حقوق کے دعویدار کو بھی دیکھ لیا اور طاقتور ترین اقوام کے دہرے معیارات کو بھی۔ یہ ایک سال دنیا میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرنے کا سال رہا، اور آئندہ آنے والا سال یقیناً اہلِ فلسطین کی جبر سے مکمل آزادی کا سال ثابت ہوگا، اور یہ سب فلسطینیوں کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہوگا، اِن شاء اللہ۔