’’نئے صوبوں کا راگ، اسٹیبلشمنٹ کی پرانی خواہش

معروف کالم نگار اللہ بخش راٹھور نے بروز پیر 30 ستمبر کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ سندھ کے اہلِ دانش و بینش وطنِ عزیز میں نئے صوبوں کے قیام یا تشکیل کے حوالے سے جو بھی تحفظات اور خدشات رکھتے ہیں، مذکورہ کالم بھی اسی تناظر میں لکھا گیا ہے، جنہیں ملک کے اربابِ اختیار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

’’جب ملک کئی سنگین مسائل اور بحرانوں کا شکار ہو… معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے ٹکرائو کم ہونے کے بجائے دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہو، ایسے میں نئے صوبوں کا پنڈورا باکس کھولنا نئی مصیبت کو دعوت دینے سے کم ہرگز نہیں ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے پرداختہ سیاست دانوں کی دیرینہ خواہش ہے کہ ملک کے انتظامی نظام کو تبدیل کرکے یہاں ایک نیا سیٹ اَپ قائم کیا جائے تاکہ اگر ایک طرف وفاق اور صوبوں کے مابین تکرار کم ہوجائے‘ تودوسری طرف تمام صوبوں کو وہ وسائل اور اختیارات مل جائیںگے جو صوبائی حکومتیں سیاسی بنیادوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے‘ کچھ علاقوںکو پسماندہ رکھے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومتوں پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی اپنے حصے کی رقومات تو لینی شروع کردی ہیں لیکن یہ رقم صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے سے وہ نچلی سطح پر منتقل نہیں کررہی ہیں، جس کی وجہ سے مالی وسائل چند علاقوں تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ حال ہی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے اسٹاک مارکیٹ کے کھلاڑی عقیل کریم ڈھیڈی نے کچھ نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ دورانِ گفتگو یہ انکشاف کیا ہے کہ ملک کی طاقت ور ترین شخصیت یہ سمجھتی ہے کہ ملک کا انتظامی، معاشی اور سیاسی نظام اسی صورت میں بہتر ہوسکتا ہے جب طاقتور صوبوںکو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ اس حوالے سے سندھ کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کراچی صوبے کے پرانے خواب کو تعبیر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی اور جنوبی سندھ میں بھی دو نئے صوبے بنائے جائیں گے۔ اسی طرح سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبے کے ساتھ تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔

بلوچستان کا ساحلی اور سمندری علاقہ جہاں پر زیادہ سے زیادہ چین کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، اسے گوادر صوبے کا نام دیا جائے گا۔ پشتون بیلٹ بھی ایک الگ صوبے کی صورت میں وجود میں آئے گی، اور باقی بلوچستان بھی بطور ایک الگ صوبہ سامنے آئے گا، جہاں پر وہ شخصیات جو اربابِ اختیار کے ساتھ اپنی طویل وفاداری کا سلسلہ نبھاتی چلی آرہی ہیں‘ انہیں ایڈجسٹ یا خوش کیا جائے گا۔ یہی فارمولا کے پی کے میں بھی آزمایا جائے گا، جہاں ایک طرف موجودہ صوبے کو برقرار رکھتے ہوئے سابقہ فاٹا کو نئے صوبے کی شکل میں سامنے لایا جائے گا۔ دوسری تجویز یہ سامنے آئی کہ سارے ملک کو بیس یا پچیس صوبوں میں تقسیم کردیا جائے تاکہ معاشی وسائل کو بآسانی تقسیم کیا جاسکے۔ یہ تجاویز اس لیے سامنے آئی ہیں کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو زیادہ وسائل مل رہے ہیں اور وفاق کمزور ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کلیجی کے حصول کے لیے سالم بکرے ہی کو ذبح کردیا جائے۔ یہ ساری باتیں جس اہم شخصیت سے منسوب کی جا رہی ہیں اُس کے لیے یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں کوئی بھی چیلنج کرنے والا نہیں ہے۔ لیکن یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ پہلے بھی فوجی آمروں نے ملک کو ون یونٹ اور پھر مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ اِس مرتبہ پھر سے انہی ناکام تجاویز کو دوبارہ سامنے لایا گیا ہے۔ اس سے نہ ہی مالی صورتِ حال بہتر ہوگی اور نہ ہی اس طرح سے صوبوں یا اکائیوں کو ہی کمزور کیا جاسکتا ہے۔ صو بے بناناکوئی انتظامی عمل نہیں ہے بلکہ سندھ سمیت جو اکائیاں وفاق میں شامل ہیں ان کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ ان کی وحدت کو چھیڑنا بھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ ڈالنے سے بھی کہیں زیادہ خطرناک عمل ثابت ہوگا۔ یہ آزمودہ ہاتھ ہیں جو ظاہری طور پر خواہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، لیکن جو ملک کے بانی ہیں انہیں بآسانی مات دینا مشکل ہے۔

اس وقت ہمارے ملک کی معیشت بہت زیادہ کمزور حالت میں ہے۔ سیاسی طور پر بھی ایک افراتفری کی سی صورتِ حال ہے۔ اربابِ اختیار عمران خان کا سامنا کرنے میں مشکلات محسوس کررہے ہیں، اس پر مستزاد نئے صوبوں کے قیام کی پٹاری بھی کھول دی گئی ہے۔ ہم ایک بحران سے دوسرے بحران کی جانب گامزن ہیں۔ اگر اس آگ میں ہاتھ ڈالے گئے تو کیا اس صورت میں اہلِ سندھ خاموش ہی بیٹھ رہیں گے؟ جنہیں یہ غلط فہمی ہے کہ وہ صوبہ سندھ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرڈالیں گے‘ انہیں پہلے تو آئین میں دیے گئے طریقۂ کار کے مطابق سندھ اسمبلی میں جانا پڑے گا۔ اگر سندھ توڑنے کے حق میں اکثریت سے قرارداد منظور ہوگئی تو اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی جانا پڑے گا۔

آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے تو اکائیوں کی جغرافیائی حدود میں مداخلت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن اگر اصل حکمرانوں کا دماغ چکراتا ہے تو انہیں آئین کے آرٹیکل (4)239 میں ترمیم کرنی پڑے گی جو دو تہائی اکثریت کے سوا منظور نہیں ہوسکتی۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور راستہ ریفرنڈم کا بھی ہے جس کے توسط سے صوبوں کا جغرافیہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اس قسم کی فرمائش کا پورا ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے ناممکن ہے۔ صوبوں یا اکائیوں کو جو وسائل مل رہے ہیں وہ ان کا بنیادی حق ہیں۔ وفاق کو اپنے وسائل آپ پیداکرنے چاہئیں۔ اس وقت بھی جنرل سیلز ٹیکس سمیت کئی ایسے ٹیکس ہیں جو صوبوں کے ہیں۔ اگر نظام کو تبدیل کرنا مقصود ہے تو جس اصول کے تحت پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا‘ اُس پر عمل کرنا پڑے گا۔ وفاق کو محض چار کھاتوں (محکموں) سے زیادہ کچھ بھی نہیں دیا جاسکتا۔

صوبہ سندھ کی وحدت سے کھیلنا ایک طرح سے آگ کے ساتھ کھیلنے کے برابر ہوگا۔ کیا ہمارے ارباب اختیار بنگال کو بھول گئے ہیں؟ انہوں نے تو بلوچستان سے بھی سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ اس پر مستزاد وہ اب سندھ کو چھیڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس حلقے کی جانب سے یہ حالیہ تجویز سامنے آئی ہے اُس نے تو پہلے ہر ضلع کو، پھر ایک ڈویژن کو بھی صوبے کا درجہ دینے کی بات کی تھی۔ اس کا مقصد اکائیوں کی وحدتوں کے ساتھ چھیڑ خانی یا ان میں مداخلت کرنا تھا جس میں وہ ناکام ثابت ہوئے۔ اگر ایک مرتبہ پھر سے ماضی کو دہرانے کی کوشش کی گئی تو یہ امر نان ایشوزکو ابھارنے کے مترادف ہوگا۔ اس کی وجہ سے انتشار اور افتراق میں مزید اضافہ ہوگا موجودہ صورتِ حال پہلے ہی سے افراتفری کا شکار ہے۔ اگر موجودہ سیاسی سیٹ اَپ میں بہتری آتی ہے، وسائل میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے زیادہ بہتر اور کوئی بات نہیں ہوگی، لیکن اگر قائم شدہ سیٹ اَپ کو خراب کیا گیا، کسی ناکام تجربے کی سعی کی گئی تو اس کی وجہ سے ایک بڑا بھونچال آئے گا۔ سندھ کی وحدت کو کراچی صوبے یا شمالی اور جنوبی صوبے میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کے عزائم کا اظہار صوبہ سندھ کو اپنے دبائو میں رکھنا ہے، لیکن یہ کوئی احسن طریقہ نہیں ہے، بلکہ ایک طرح سے خانہ جنگی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ نئے صوبوں کے قیام کی تجویز کسی سیاسی پارٹی یا صوبے کی طرف سے آتی تو اس صورت میں پھر بھی اسے زیرغور لایا جاسکتا تھا، لیکن یہ راگ اُن قوتوں کی طرف سے الاپنا شروع ہوا ہے جن کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔ اگر اربابِ اختیار کے اقدامات سے کوئی بہتری آتی ہے، مہنگائی گھٹتی ہے یا ترقی کے راستے کھلتے ہیں تو اسے خوش آئند قرار دیا جائے گا، لیکن بلاوجہ وقت ضائع کرنا یا انتشار پھیلانا قابلِ قبول نہیں اور اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ سندھ بمبئی بیکری (حیدرآباد) کا کیک تو نہیں کہ جس کا جی چاہے اس کے حصے بخرے کرکے کھا جائے۔‘‘