سرکار رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہورِ مسعود سے متصل عرب میں ایک بڑا دانا شاعر پیدا ہوا، جس کا نام زُہیر بن ابی سُلمیٰ تھا۔ یہ شاعر دور جاہلی کے فحول شعراء میں شمار ہوتا تھا۔ حکمت و دانش پر مبنی اس کا ایک قصیدہ ”المعلقات السبع“ میں شامل ہے۔ اس کی شاعری میں وہ الہامی حقائق اور فطرتِ سلیمہ کے بنیادی عقائد موجود ہیں، جو اسلام کے ازلی وابدی نظریات ہیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی نظریات کی بناء پر اس کی شاعری کو پسند بھی فرمایا۔
زہیر نے ایک خواب دیکھا، کہ آسمان سے ایک رسّی لٹک رہی ہے، جسے وہ پکڑنا چاہتا تھا، مگر وہ اس کے ہاتھ نہ آئی۔ اس خواب کی تعبیر یوں کی گئی کہ وہ حلقہ بگوشِ اسلام ہونا چاہتا تھا، اور ظہور نبوت سے کچھ ہی عرصہ قبل وہ انتقال کرگیا۔
اس کے دونوں بیٹے سیدنا بُجیر بن ابی سلمیٰ ؓاور سیدنا کعب بن زہیرؓ بھی بڑے شاعر تھے،اور شرفِ اسلام سے متصف ہوئے۔
بجیرؓ تو بہت جلد ایمان لاکر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین و ہم جلیس ہوئے، البتہ زہیرؓ اسلام دشمنی اور اوثان پرستی پر نہ صرف قائم رہے، بلکہ حد سے گزر کر اہلِ ایمان اور خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تلخ ترین ہجو کہہ بیٹھے۔ (نعوذ باللہ من شرور انفسنا)
اہلِ ایمان اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بہت دکھی ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا کہ زہیر جہاں کہیں نظر آئے اسے فوراً قتل کردیا جائے۔
اب انہیں جان کے لالے پڑے۔ بھاگے پھرے کہ کہیں پناہ مل جائے۔ مگر جو خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور انہیں ایسی ایذا دے کہ عالمین کے لیے رحمت و رأفت کے سراپا مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس گستاخ کے قتل کا عام اعلان کرنا پڑے، اسے پناہ ملتی بھی تو کیسے؟ اور کہاں!
دوسرا یہ کہ جس کے نصیب میں ایمان کی دولت اور جسم اطہر پر لپٹی چادر اور صحبتِ رسول کی ابدی فضیلت لکھی ہو، اسے پناہ ملنی بھی تھی تو ان ہی کے دامنِ عفو و کرم میں۔
نہ کہیں جہاں میں اماں مِلی، جو اماں مِلی تو کہاں مِلی
مرے جُرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
لفظ بلفظ اور حرف بحرف کعب بن زہیرؓ اس کا مصداق بنے۔مدینہ پہنچے،جہاں رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رحمتیں اور سلامتیاں بانٹتے تھے۔
مدینہ شہرِ رحمت و محبت تو تھا ہی،اور وجودِ پاک سے معطر و منور بھی،مگر جاں نثاروں کی تیار تلواروں کا مظہر بھی۔ خطرہ بہت بڑا تھامگر مول تو لینا تھا،جان کا معاملہ بھی تھا اور ایمان کا سوال بھی۔
ایک رات چھپتے چھپاتے، صحابہ کی نظروں سے بچتے بچاتے مدینہ پہنچے۔ ایک ہی گھر تھا، جہاں سے ایک رات کی امان مل سکتی تھی۔ یہ صدیقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تھا، جس میں بس اللہ کا رسول ہی بس رہا تھا۔
صدق و صفا کردار اور فطرت پر غالب ہوجائیں اور ایمان کا نور پھوٹنے لگے، تو ہر رات خواہ وہ جہالت کی ہو یا آسمانِ دنیا کی، بت پرستی کی ہو، یا شرک و کفر کی.. ٹل کر ہی رہتی ہے۔
والضحی۔واللیل اذا سجیٰ
امیر الشعراء الجاہلین امرؤ القیس نے شاید اسی طویل رات کے بارے میں کہا تھا
أَلا أَيُّها اللَيلُ الطَويلُ أَلا اِنجَلي
اے شبِ طویل،شب ِہجر و فراق،شب ِظلمت و جہالت،شب ِکفر و شرک اب ٹل بھی جا۔
مؤذن نے جب صدا لگائی ۔۔ حی علی الصلاۃ ،حی علی الفلاح ۔۔۔۔تو یہ رات ایمان کے نور کی صبح میں ڈھل گئی۔
یہ مؤذن یقیناً سیدنا بلالؓ ہی ہوں گے جو ہزاروں اہلِ ایمان کو ربِ دوجہاں کے سامنے جھک کر اپنے ایمان کے عملی اظہار کی دعوت دے رہے تھے۔
آج ان ”السابقون الاولون من المہاجرین والانصار“ میں ایک اور وجود بھی بارگاہِ الٰہی میں جھکنے کے لیے بے قرار تھا ،کہ اس کی جبین میں ہزاروں سجدے تڑپ رہے تھے،اور بارگاہِ رسالت،بارگاہِ عفو وکرم اور دامانِ رحمت میں نذر کرنے کو بے شمار قطرے آنسوؤں کی صورت ندامت اور عفو طلبی کے اظہار کے لیے بہنے کو مچل رہے تھے۔
رات کی سیاہی ابھی باقی تھی،بس صبحِ روشن و پُر بہار میں ڈھلنے ہی والی تھی۔ ایک اور جیتے جاگتے سینے میں کفر و شرک کے اندھیرے بھی رات کے شکست خوردہ لشکروں کی مانند پسپا ہورہے تھے۔
صبح تو آنی ہی تھی۔
مدینہ میں نور کا منبع جو موجود تھا۔
دل تو پلٹنا ہی تھا۔۔
بلکہ۔۔ وہ تو پلٹ بھی چکا تھا،
بس اب نورِ ایمان سے اسے بھرا جانا تھا،
بلکہ۔۔ وہ تو کب کا بھر بھی چکا تھا۔۔
اور یہ معجزہ بھی تو ظہور پذیر ہو چکا تھا کہ رات ہی میں صبح طلوع ہوچکی تھی..بس اب اس کے اعلان و اظہار کا لمحہ آیا ہی چاہتا تھا ۔
جناب صدیقؓکی رفاقت و جلو ،بلکہ حصار و امان میں امن و ایمان،پناہ اور تسلیم و رضا کا متلاشی،طالب ِصادق…اس صدیقؓ کے ہمراہ مسجد میں داخل ہوا۔
یہ کعب ابن زہیر بن ابی سُلمیٰ تھے۔
نہیں معلوم وہ نماز میں شریک ہوئے یا نہیں،کہ رسمی صاحب ِایمان نہ تھے۔صف ِمؤمناں سے الگ تھلگ بھی نہیں بیٹھ سکتے تھے کہ نظروں میں آجاتے اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری اور تاحال باقی حکمِ قتل(standing order)کا نشانہ بن جاتے۔
البتہ ایمان و اسلام میں داخل ہوچکے تھے تصدیق بالقلب کے ذریعے۔
نجانے کیا ہوا ہوگا ۔یہ بحث نہ اہم ہے، نہ ضروری۔
اور ایسی کئی بحثیں اور موضوعات ہمارے دین و ایمان کا بلاوجہ و ضرورت نہ صرف حصہ بلکہ تشدد و تفرقِ فکری و عملی کا کلیدی مظہر بن چکے ہیں۔
بس دائیں اور بائیں..نماز کے اختتامی اعلان ۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ کا انتظار تھا،
پھر ..اقرار باللسان..بھی ہوجانا تھا۔
لیجیے صاحبو!تصور کی آنکھ سے دیکھیے۔
مسجد ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سیکڑوں جاں نثار پیچھے اس امامِ کامل کے، مالکِ کُل کے سامنے ہاتھ باندھے بندگی، تسلیم و رضا کا اظہار کررہے ہیں۔
ان میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں، کبار صحابہ بھی، بدری صحابہ بھی، ہجرت کے شرف سے متصف بھی اور اخوت و نصرت کے بے مثل کردار بھی۔
ابوبکر و عمر بھی، عثمان و علی بھی، ابو ایوب انصاری میزبانِ رسول بھی، طلحہ و زبیر بھی، ابوذر و سلمان فارسی بھی، بلال حبشی بھی اور صہیب رومی بھی… عربی بھی اور عجمی بھی۔
شاید کہیں گلزارِ نبوت کے گل سرسبد حسنؓ و حسینؓبھی چہکتے پھر رہے ہوں ۔
کائنات کے سب سے محترم، مقدس، معطر و منور نفوسِ پاک سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مجسم معجزوں کی صورت یکجا تھے۔
اتنے پاکیزہ زندہ نفوس کا ایسا اجتماع شاید ہی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر پہلے کبھی کسی نے دیکھا ہو۔
نہیں معلوم ابھی آسمانِ دنیا پر سورج طلوع ہوا تھا یا نہیں۔ البتہ ماہتابِ نبوت اور آفتابِ رسالت دونوں، نور کے اس مرکز… مسجد النبی… میں یکجا تھے۔
کوئی شک نہیں کہ یہ میرے اور آپ کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ منور و معطر تھا۔
نماز ختم ہوئی۔ سلامتی کا پیغام الاپا گیا۔
اس ماہتاب و آفتاب… شمع بزم ہدایت… کے گرد پروانے، فرزانے، مستانے، دیوانے سب جمع تھے۔ زبانِ رسالت سے حق کے پھوٹتے سوتوں کو سماعتوں، بصارتوں اور قلوب کا حصہ بنانے کی جستجو میں ہر ایک ایک ہی ”نقطے“ (nucleus)پر مرکوز تھا۔ اس افتاب و ماہتاب کے گرد ہالہ بنائے یہ ہجومِ عاشقاں تھا۔
زبانِ رسالت ابھی محوِ تسبیح و تہلیل تھی..کہ ابوبکرؓ نے جھکے سر اور چہرہ ڈھانپے ایک شخص کو بارگاہ میں پیش کیا اور گویا ہوئے”
”یارسول اللہ ۔۔۔ جاء رجل یبایعک علی الاسلام“
اے دلوں کے مسیحا اور ایمان کے محافظ..اللہ کے رسولِ امن و سلامتی! یہ ایک شخص ہے،جو آپؐ کے دستِ اقدس کو تھام کر،اللہ کی بندگی اور آپؐ کی اطاعت و وفا اور مہر و محبت کا عہد..بیعت..کرنا چاہتا ہے۔
یقینِ کامل کے ساتھ۔تصور کیجیے!
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے لمحے بھر کی تاخیر کے بغیر دستِ رحمت بڑھا دیا ہوگا…کہ وہاں نہ تاخیر کا تصور تھا،نہ تعارف کی ضرورت،نہ کوئی تامل و تفکر کا معمول کہ وہ تو آئے ہی اسی کام کے لیے تھے
”لیخرجھم من الظلمات الی النور“
اللہ کے ہر بندے.. عربی ہو یا عجمی،اعلیٰ ہو یا ادنیٰ،آقا ہو یا غلام.. کی تعلیم،تربیت،تطہیر و تزکیہ ان کا فرضِ منصبی تھا۔
بیعت یعنی تسلیم و رضا کا مرحلہ مکمل ہوا۔
نووارد نے اپنے چہرے کا کپڑا ہٹایا اور گویا ہوا:
”یا رسول اللہ! انا کعب بن زہیر…“
میں آپ کا مجرم کعب بن زہیر ہوں۔ عفو وامان کا طلبگار و ملتجی ہوں۔
یہ سننا تھا کہ سمعنا و اطعنا کے خوگر اصحاب و جاں نثارانِ نبی جنہوں نے کعب کے قتل کا حکم تو پہلے سے سن رکھا تھا،اب اسے سامنے پاکر.. اطعنا..کے عملی مظاہرے کے لیے جسم سے لٹکی ہوئی تلواروں کو آناً فاناً برہنہ کرلیا،اور کعب ان سیکڑوں تلواروں کی زد میں آگئے۔مگر گھبرائے،نہ پچھتائے،کہ امان اور ایمان دونوں مل چکے تھے۔ اور وہ آقاؐ بھی جس کی بارگاہ میں عفو و کرم کے بہتے دریا ہیں۔
والعفو عند رسول اللہ مأمول۔
صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا ۔
تصور کیجیے!رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے رخِ انور پر کیسی عجیب شادمانی چھائی ہوگی ،جب آپؐ نے فتح مکہ کے روز عفو و درگزر کے بہائے دریا ..لاتثریب علیکم الیوم..سے بھی بڑھ کر زہیر بن ابی سلمیٰ کے گستاخ اور شدید ایذارساں بیٹے کو کچھ کہے بغیر محض ہاتھ کے ایک اشارے سے معاف کردیا ہوگا۔
بس یہی ایک اشارہ امنِ عالم کا ضامن اور حرمت و تکریم انسانیت کا پیام بر تھا۔
آقاؐ کا اشارہ ہو،اور غلام سمجھ نہ پائیں…ممکن ہی نہیں۔
اپنی روح،جان ،مال،ماں باپ،اولاد ایک اشارے پر قربان کرنے والوں نے لمحے بھر کے توقف و تامل کے بغیر ..حدیبیہ..کے مقام و معرکے میں سیکھا ہوا سبق دہرا دیا۔
تلواریں نیام میں چلی گئیں۔
وہ منظر بھی تصور کی آنکھ اور محبت بھرے دل کی بصیرت سے دیکھیے، کہ جہاں خونِ مجرم کے فوارے پھوٹنے یقینی تھے،اب محبت و اخوت ِاسلامی کے زمزمے بہہ رہے تھے ۔یہ کمال تھا اشارئہ رحمت و امان کا بھی اور کعبؓ کے سچے ایمان کا بھی۔
دل تو دل ہے،نجانے کب پھر جائے۔بدل جائے۔
اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ۔
اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان معلق،بلکہ مقید۔
اور..طبیب القلوبؐ بھی تو سامنے تھے۔اور بیمار دل قدموں میں حاضر ۔
تصور کیجیے!قلب و نظر ،عقل و خرد سب تو پہلے ہی شکار ہوچکے تھے..جسم بھی مفتوح ہوچکا تھا ۔بس اب تلافیِ مافات کی اجازت ملنا باقی تھی۔
سرکارؐ نے پوچھا:”تم ہی نے وہ اشعار کہے تھے“۔
پھر حضرت ابوبکرؓ سے استفسار فرمایا:”ابوبکر وہ کون سے اشعار ہیں؟“
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنایا:
سَقَاكَ أبو بكرٍ بِكَأَسِ رَويِةٍ
وَأَنَهلكَ المَأَمورُ مَنْهَا وعَلَكَا
(تم کو ابوبکرنے ایک لبریز پیالہ پلایا اوراس میں سب سے زیادہ لبریز پیالے سے بار بار سیراب کیا )
کعب ؓ نے کہا:” یا رسول اللہ ! میں نے اس طرح نہیں کہا تھا۔“
فرمایا:”پھر کس طرح ؟“
کعبؓ نے ”مأمور“ کے لفظ کو”مأمون“ کے لفظ سے بدل کر سنا دیا۔
رحمتِ عالمﷺ کے دربار میں اس قدر اظہارِ ندامت کافی تھا، آپ علیہ السلام نے کعبؓ کی گزشتہ خطاؤں سے درگزر فرمایا اور ارشاد ہوا: ”تم مامون ہو“۔
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
کعبؓ نے عرض کی: ”آقا و بندہ نواز ! نذر کو اک قصیدہ لایا ہوں۔اجازت ہو تو پیش کروں۔“
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کی خیرات اورچہرے کی روشن کرنوں سے اجازت عطا فرمائی،تو کعبؓ نے پہلے سے موزوں کردہ ،مگر آبگینے کی طرح اِس دن اور اِن قیمتی لمحوں کے لیے سنبھال کر رکھا قصیدہ مدحیہ.. جسے عربی شعر و قصائد کی اصطلاح میں قصیدہ ”اللامیہ“ کہا جاتا ہے..بانت سعاد..سنانا شروع کیا۔
عربی قصائد کے طرز وانداز و رواج کے مطابق نظم کیے گئے اس قصیدے میں 58 شعر ہیں،جن میں سے 17 یا 18 شعر ہی اس قصیدے کا جھومر اور ماحصل ہیںجو مدحِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہیں۔
بَانَتْ سُعَادُ فَقَلْبِي الْيَوْمَ مُتَبْولُ
مُتَيَّمٌ إثْرَهَا لَمْ يُفْدَ مَكْبُولُ
سعاد نے داغِ مفارقت دیا، جس سے میرا دل اس کے جانے کے بعد پریشان اور اسیر ہے
وَمَا سُعَادُ غَدَاةَ الْبَيْنِ إذْ رَحَلُوا
إلَّا أَغَنُّ غَضِيضُ الطَّرْفِ مَكْحُولُ
جب وہ مسکراتی ہے تو تاریک رات کے بادلوں کو چھانٹ دیتی ہے،گویا اس کے لب دندان ایک چشمہ ہیں،جو شراب کے پیالے سے لبریز ہیں۔
قصیدہ سناتے سناتے جب ان اشعار پر پہنچے
إنَّ الرَّسَولَ لَنُورٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
مُهَنَّدٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ مَسْلُولُ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.. اللہ کی ایسی کھینچی ہوئی ہندی تلوار ہیں،جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔
نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُول الله أَو عدني
وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ مَأْمُولُ
مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ نے مجھے دھمکی دی ہے درآنحالیکہ رسول اللہ کے پاس عفو کی امید کی جاتی ہے۔
فِي عُصْبَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَ قَائِلُهُمْ
بِبَطْنِ مَكَّةَ لَمَّا أَسْلَمُوا زُولُوا
وہ قریش کے ایسے جوانوں میں ہیں کہ بطن مکہ میں جبکہ لوگ اسلام لائے تو ان کے کہنے والوں نے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ۔
کعبؓ جب ان اشعار پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اور مسرت دیدنی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم ِپاک سے ملموسہ ردائے مبارک جسے ”بُردہ“ کہا جاتا ہے،اتاری اور کعبؓ کو عطا فرما دی،بلکہ اپنے دست ِرحمت و محبت سے خود اوڑھا دی۔
کعبؓ کی تو قسمت ہی بڑی بے مثال نکلی۔
لوگ کوئے یار سے نکل کر سوئے دار چلتے ہیں۔ یہاں کعب تختہ دار سے اتر کر کوچۂ یار نہ صرف پہنچے،بلکہ قبائے یار کی خلعت ،برکت اور شہرتِ دوام کے مستحق ٹھیرے۔
قصیدہ بردہ کی طرز پر ایک اور قصیدہ بردہ بھی لکھا گیا جس کے شاعر امام بوصیریؒ ہیں، انھیں خواب میں چادر عطا کی گئی جو جاگتے میں بھی ان کے پاس رہی۔
یہ بُردہ شریفہ اور ردائے سعادت و رحمت سیدنا امیر معاویہؓ نے سیدنا کعب بن زہیرؓ کی اولاد سے بھاری رقم کے عوض خرید کر اپنے پاس رکھی۔بعد ازاں یہ خلفاء و امراء کے پاس محفوظ اور مستعمل رہی،جسے عیدین کے موقعے پر زیب تن کیا جاتا۔حکمرانوں اور علماء کے ہاں آج بھی شاید اسی روایت کے تتبع میں خاص مواقع پر رداء و قباء پہننے کا رواج ہے۔
یہ قبائے سرکار آج کہاں ہے،کسی کو نہیں معلوم۔شاید کوئی محقق اس کا سراغ لگا کر عاشقوں کی ذہنی طراوت اور قلبی حلاوت کا سامان کرسکے…..!
ایک ذاتی تاثر
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے سب ہی صحابہ بلا تفریق و امتیاز و اختصاص بڑے باکمال انسان تھے۔ کائنات کے سب سے بہترین ایمان و عمل والے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر فداکاری و جاں نثاری کے شاہکار۔ ہر ایک کی سیرت فکر و عمل کا بلاریب روشن باب اور راہ دکھاتی قندیل ہے۔
مگر نجانے کیوں دونوں ”کعب“ میرے دل کو بہت محبوب ہیں۔ شاید میری اپنی طبعِ خاص کے باعث اور ان کے منفرد کردار کی وجہ سے۔
ایک.. سیدنا کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ
دوسرے.. سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ