زمانہ اور اہلِ کمال

کوئی زمانہ اہلِ کمال سے خالی نہیں ہوتا، مگر افسوس کہ ابنائے زمانہ اکثر ان کے کمال کا اعتراف کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ ہر صاحب کمال کے عہد میں عموماً چند قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ طبقہ ہے جس کو یہ بھی خبر نہیں کہ کمال فی نفسہٖ کیا چیز ہے اور اس کا نفع کیا ہے۔ ایسے لوگوں سے کوئی بحث نہیں ہے، کیوںکہ یہ طبقہ لا يضر ولا ينفع میں داخل ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اس بات کا احساس تو رکھتا ہے کہ کمال کے کیا کیا منافع ہیں مگر چشمِ بصیرت اس کی ایسی بند ہے کہ وہ اپنے زمانے کے باکمال کو پہچان ہی نہیں سکتا۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو دل میں کسی باکمال کے کمال کا معترف ضرور ہے مگر بظاہر اس کا اظہار کرتے ہوئے اس کو سخت ناگوار ہوتا ہے۔ اس ناگواری کی بھی وجوہات حسبِ ذیل ہیں: (الف) خود بھی اس کمال کا اپنے آپ کو مردِ میدان سمجھتا ہے (حالانکہ این الثریٰ من الثریا) وہ اپنی دھوکا دینے والی طبیعت و خود پسندی کے سبب سے جب یہ دیکھتا ہے کہ میری بھی نظم و نثر میں تصانیف بہت ہیں، سامعین میری بھی داد دیتے ہیں حالانکہ سامعین میں بھی بعض تو ایسے ہیں کہ ان کو نہ چنداں مذاقِ سخن ہے اور نہ اس سے کوئی دلچسپی اور نہ فی نفسہٖ قوت ِامتیازیہ۔ اور بعض قوت ِامتیاز ضرور رکھتے ہیں مگر اخلاق و مروت ان کو مجبور کیے ہوئے ہیں، اور بعض ایسے ہیں جن پر صحبت کا اثر پڑرہا ہے، وہ بھی جا و بیجا تحسین کررہے ہیں۔ غرضیکہ اس دھوکے میں پڑ کر وہ ہمیشہ جہلِ مرکب میں گرفتار رہتا ہے۔ (ب) کچھ لوگ ان مدعیان برخود غلط کے احباب ہوتے ہیں جن کو اس مدعی کی دوستی انصاف کرتے ہوئے روکتی ہے۔ (ج) بعض ایسے ہیں جو محض اپنی شہرت و ناموری کے لیے مشہور صاحبِ کمال کے جھوٹے سچے نقائص کی چن چن کر نقل محض کرتے ہیں۔ تابد انند در معرکہ اہم ہستیم۔ (د) ایک طبقہ پرانے لوگوں کا ہوتا ہے جو اپنے زمانہ گزشتہ کے باکمالوں کے ہاتھ پر ناڑا باندھ چکا ہے۔ اس کی نگاہ میں ایسا شخص جس نے بچپن سے ان کی نگاہ کے سامنے رفتہ رفتہ ترقی کی ہے چاہے کسی درجہ عالی کو کیوں نہ پہنچ جائے، صاحبِ کمال ہی نہیں ہے۔ (ہ) ایک طبقہ سب سے اوون وہ ہے جو محض خبثِ باطن سے اہل کمال کی راہ میں کانٹے بویا کرتا ہے۔

ان پانچوں مخالف طبقات کے علاوہ موافقین میں بھی چند گروہ ہوتے ہیں۔ (الف) ایک طبقہ وہ ہے جو بلاغورو تامل کسی غرض سے صاحبِ کمال کا معترف و مداح ہوتا ہے اور رطب و یابس کا فرق نہیں کرتا۔ (ب) ایک طبقہ خاص دوستوں اور تلامذہ اور عزیزوں کا ہوتا ہے۔ مقتضا ان کی یک جہتی کا یہ ہے کہ وہ ضرور معترف ہوں۔ (ج) ایک طبقہ بالکل بے غرض اور محض انصاف دوست اور قدر شناس ہوتا ہے، اس کو نہ مخالفت سے بحث ہوتی ہے اور نہ بیجا موافقت و مداحی سے۔ یہ مبارک گروہ خود اس کے کمال کو تولتا ہے اور جب وہ اس کو میزانِ امتحان میں پورا پاتا ہے تو بے تامل وہ اعتراف کرلیتا ہے، اور کبھی اور طبقہ والوں کی طرح خدائی اور قومی و اخلاقی گناہ میں مبتلا نہیں ہوتا، مگر افسوس ہے کہ اس صاحبِ کمال کے عہد میں اس آخر طبقے کے لوگ بہت کم ہوتے ہیں، اگرچہ ہوتے ضرور ہیں۔

ہاں جب وہ صاحبِ کمال دنیا میں باقی نہیں رہتا اور موت ان تمام غرض مند گروہوں کا خاتمہ کردیتی ہے۔ نہ مخالفوں کی مخالفت، نہ ذاتی دوستوں کی دوستی باقی رہتی ہے، اور زمانہ اس کے کمال کے آئینے کی گرد صاف کردیتا ہے، تب عام و خاص سب کے دلوں پر اس کے کمال کا نقش جم جاتا ہے۔ مبارک وہ ہیں جو ایسے زمانے کے آنے سے بہت قبل اپنے آپ کو اس آخر طبقے میں داخل کرلیتے ہیں اور السابقون السابقون اولٰئک ہم المقربون کے مصداق بنتے ہیں۔

(شاد کی کہانی شاد کی زبانی: خود نوشت سوانح حیات، خان بہادر مولانا سید علی محمد شاد عظیم آبادی، مرتب: پروفیسر محمد مسلم عظیم آبادی)

سیاست افرنگ

تری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس!
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس!