قرآن کا نظامِ عدل عدلِ اجتماعی سے پہلے عدلِ انفرادی

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”جو شخص اس حال میں فوت ہوجائے کہ اسے اس بات کا یقین ہوکہ اللہ جل شانہ کے علاوہ
کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں تو وہ جنت میں جائے گا“۔(مسلم ، کتاب الایمان)

یہ کتاب جس مقصد کے لیے آئی ہے اس کو مختصر الفاظ میں قرآن مجید ہی میں بیان کردیا گیا ہے کہ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔ عدل کا قیام اس کتاب کا مقصد ہے۔ مگرلوگ اس زمانے میں غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ عدل محض عدلِ اجتماعی کا نام ہے۔ حالانکہ عدلِ اجتماعی سے پہلے عدلِ انفرادی ضروری ہے۔ اگر ایک آدمی کی ذات میں عدل موجود نہیں ہے، اُس کے اپنے اندر عدل موجود نہیں ہے تو باہر وہ دنیا میں کیسے عدل قائم کرسکتا ہے! ایک آدمی کے اخلاق میں عدل ہونا چاہیے۔ اس کے افکار، اس کی عادات و خصائل، اس کی خواہشات اور اس کے نظریات میں عدل ہونا چاہیے۔ اس کے بعد کہیں جاکر وہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ باہر عدل قائم کرے۔ اگر اس کے بغیر ایک آدمی یہ دعویٰ کرے کہ میں عدلِ اجتماعی قائم کرنے جارہا ہوں تو وہ سرے سے عدل کے معنی و مفہوم ہی سے ناواقف ہے۔ وہ اس بات کو جانتا ہی نہیں ہے کہ عدل پہلے اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ خود اپنے نفس کے ساتھ عدل کرنا پہلی چیز ہے۔

اگر آدمی اپنی ذات میں عدل پیدا نہیں کرتا۔ اپنے اخلاق و خصائل اور افکار و نظریات میں عدل پیدا نہیں کرتا تو ظاہر بات ہے کہ باہر جو کچھ بھی وہ کرے گا اس میں افراط و تفریط کا شکار ہوگا یا افراط کرے گا یا تفریط۔

یہ کتاب انسان کو پہلے اس کی اپنی ذات میں عدل کرنا سکھاتی ہے۔ سب سے اوّلین انصاف جو اس کو کرنا ہے وہ اپنے اور اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اگر ایک آدمی اپنے خدا ہی سے بغاوت کررہا ہے تو اس کے بعد عدل کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے! جس خدا نے اس کو پیدا کیا، جو خدا اس کو رزق دیتا ہے، جس کے پیدا کرنے سے وہ پیدا ہوا اور جس کے زندہ رکھنے سے وہ زندہ ہے، اگر وہ اس کی اطاعت نہیں کررہا ہے، اسی سے منہ موڑ رہا ہے تو وہ ایک ایسی بے انصافی کررہا ہے جس سے بڑی کوئی بے انصافی دنیا میں نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اپنے خالق و پروردگار کی اطاعت ہی نہیں کرتے تو دنیا میں آپ کہاں انصاف فراہم کریں گے! اوّلین ظلم کا ارتکاب تو خدا کے سامنے خودمختار بن کر آپ کرچکے۔

عدل کے اوّلین تقاضے کو پورا کرنے کے بعد ضروری ہے کہ انسان ان سے عدل کرے جو اس کے قریب ترین ہیں۔ اگر ایک آدمی اپنی اولاد سے عدل نہیں کرتا، اپنے والدین سے اور اپنے بھائی بہنوں سے عدل نہیں کرتا، ایک شوہر اپنی بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے عدل نہیں کرتی تو وہ باہر دنیا میں کہاں عدل قائم کریں گے! خدا کے ساتھ انصاف کرنے کے بعد اپنے قریب ترین اعزہ اور رشتے داروں کے ساتھ انصاف کرنا ہے۔

یہ ہے وہ ترتیب جس کے مطابق قرآن مجید آدمی کو سب سے پہلے عدل کی جڑ سکھاتا ہے۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ عدل کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ کتاب آگے چل کر بتاتی ہے کہ آدمی معاشرے میں کس طرح عدل قائم کرسکتا ہے۔ آپ جس سوسائٹی میں رہتے ہیں، جس قوم اور جس ملک میں بستے ہیں، جس دنیا میں رہتے ہیں اور جس نوعِ انسانی کے آپ فرد ہیں اُس کے اندر عدل قائم کرنے کے جو اصول قران مجید میں بیان کیے گئے ہیں اور جتنے وسیع پیمانے پر زندگی کے ہر پہلو کو لے کر عدل کے طریقے سکھائے گئے ہیں اس وقت دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میںعدل کااتنا جامع تصور دیا گیا ہو۔

(تفہیمات،حصہ چہارم)