قصہ یک درویش! جامعہ پنجاب ،طلبہ یونین کا انتخاب

اسلامیہ کالج کے ان طلبہ کو ملٹری عدالت سے چھے چھے ماہ کی قیدِ بامشقت ہوئی تھی۔ سزا سننے کے بعد جب یہ واپس جیل میں آئے تو فاروق اعظم کی حالت دیدنی تھی۔ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا تھا، جب کہ دیگر سب بھی بہت زیادہ پریشان تھے۔ میں نے ان سب کو اور بالخصوص فاروق کو تسلی دی کہ فکر نہ کریں، آپ کو جلد معافی مل جائے گی۔ فیصلے کے بعد ان طلبہ نے اپنے والدین کی وساطت سے ملٹری عدالت میں رحم کی اپیل دائر کررکھی تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد ان سبھی طلبہ کی رحم کی اپیل منظور ہوگئی اور ضابطے کی کارروائی اور لکھت پڑھت کے بعد سب رہا کردیے گئے۔

رہائی کے وقت یہ سب مجھ سے بڑی عقیدت کے ساتھ ملے اور میرے لیے دعائوں کے ہدیے پیش کیے۔ چند ہفتوں کی رفاقت کے بعد ان سب کے دل میں جمعیت کے لیے خاصے نیک جذبات پیدا ہوچکے تھے۔ فاروق رہائی کے روز مجھ سے گلے مل کر خوشی کا اظہار اور بار بار شکریہ ادا کررہا تھا۔ میں نے بھی اسے بہت پیار دیا۔ الوداع کہتے وقت میں نے ان سب سے بڑی محبت سے کہا کہ جس طرح انھوں نے ایامِ اسیری میں باقاعدہ پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کی ہے، اسی طرح پوری زندگی اس پر عمل پیرا رہنا۔ اللہ ہر میدان میں کامیابیوں سے نوازے گا! سب نے اس کا وعدہ کیا۔ میں نے دعائوں کے ساتھ ان سے آخری بار معانقہ کیا۔

ان طلبہ کی رہائی کے چند روز بعد مجھے بھی فوجی عدالت نے باعزت بری کردیا اور میں جیل سے باہر آگیا۔ میرے جیل سے رہا ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کا فیصلہ ہوا تو جمعیت نے آنے والے انتخاب پر سنجیدگی سے غوروخوض شروع کیا۔ میں چوں کہ لاہور جمعیت کا ناظم تھا اور اس سے قبل جمعیت کی ایک روایت چلی آرہی تھی کہ مرکز، صوبے (علاقے) یا مقامی جمعیت کے ناظمین یونینز کے الیکشن نہیں لڑتے تھے۔ اگر الیکشن میں جانا ناگزیر ہوجاتا تو نظامت سے مستعفی ہوجایا کرتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ ہمیں یونین کی صدارت کے لیے کسی اور امیدوار کا نام تجویز کرنا چاہیے، جب کہ میرے ساتھیوں کی رائے تھی کہ مجھے کسی شعبے میں ایم اے میں داخلہ لے کر خود یہ انتخاب لڑنا چاہیے۔

ایک بار تو میں نے ارکان سے مشاورت کے بعد ایک اور طالب علم کے حق میں فیصلہ بھی کرا لیا تھا۔ اتفاق سے اس طالب علم کا نام بھی جہانگیر خاں تھا جو لا کالج میں پڑھتا تھا۔ موصوف کا آبائی تعلق ڈیرہ اسماعیل خاں سے تھا اور وہ جمعیت کا سرگرم کارکن تھا۔ یہ فیصلہ تو کثرتِ رائے سے ہوگیا مگر بعض ساتھیوں کو اس پر شدید تحفظات تھے۔ اتفاق سے انہی دنوں ڈاکٹر محمد کمال صاحب لاہور آئے اور ہمارے مشترکہ پختون دوست حبیب الدین خاں صاحب کے مکان پر اسی ایشو کو حل کرنے کے لیے لاہور جمعیت کا خصوصی اجتماعِ ارکان منعقد ہوا۔

طویل اجلاس میں آرا مختلف تھیں، مگر اکثریت کی رائے یہی تھی کہ مجھے ضرور یونین کا الیکشن لڑنا چاہیے۔ دوستوں کا خیال تھا کہ اگر کسی اور غیر معروف ساتھی کو نامزد کیا گیا تو ہمارے حق میں فضا نہیں بن سکے گی۔ چوںکہ یہ مسئلہ چل رہا تھا اور اس نے پوری جمعیت کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر رکھی تھی، لہٰذا اسی دور میں ایک ہنگامی اجلاس میں مرکزی شوریٰ نے یہ وضاحت کردی تھی کہ ناظمین بیک وقت نظامت اور یونین کی عہدے داری کے فرائض انجام دے سکتے ہیں، کیوںکہ یہ محض ایک روایت ہے کوئی دستوری مسئلہ یا مرکزی شوریٰ کا فیصلہ نہیں۔

اب تمام ارکان نے پوری یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کیا کہ میں ہی الیکشن میں جمعیت کا امیدوار ہوں گا۔ اس سال کراچی میں برادر گرامی تسنیم عالم منظر (مرحوم) نے تنظیم کے فیصلے پر این ای ڈی کالج میں یونین کی صدارت کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وہ اس وقت مغربی پاکستان کے ناظمِ جمعیت بھی تھے۔ اُن دنوں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ساتھی محترم مطیع الرحمٰن نظامی بھائی ناظم اعلیٰ منتخب ہوچکے تھے۔ سابق ناظم اعلیٰ ڈاکٹر محمد کمال صاحب ابھی تک جمعیت کے رکن تھے۔ کئی سالوں کے تعطل کے بعد انجمن طلبہ کی بحالی سے تمام طلبہ رہنمائوں اور دائیں، بائیں بازو کی سب تنظیمات میں تو جوش و خروش کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا، اس کے ساتھ گزشتہ طویل عرصے کی حکومت مخالف سیاسی سرگرمیوں اور طلبہ کی عمومی جدوجہد کی وجہ سے عام طالب علم بھی خاصی سرگرمی اور شوق سے الیکشن کی تفاصیل کا مطالعہ کررہے تھے۔

ووٹروں کی رجسٹریشن کے لیے پروفیسر سراج کمیٹی کے اجلاس میں اصول و ضوابط طے ہوچکے تھے۔ ان کی کاپیاں ہر شعبے اور جامعہ سے ملحقہ کالجوں (اورینٹل کالج، لا کالج اور ہیلے کالج) میں نوٹس بورڈوں پر چسپاں کی گئیں۔ طلبہ نے بڑی گرم جوشی سے رجسٹریشن میں حصہ لیا اور جس طالب علم کا نام کسی وجہ سے ووٹر لسٹ میں نہ آسکا اُس نے بھاگ دوڑ کرکے اپنا حقِ رائے دہی تسلیم کرایا۔ لائبریری سائنس میں ڈپلومہ کرنے والے طلبہ جونیئر شمار ہوتے تھے۔ ان کو ووٹرز لسٹ سے خارج کیا گیا تو اس شعبے کے طلبہ خاصے پریشان ہوئے۔ انھوں نے جمعیت سے رجوع کیا اور جمعیت نے ان کا کیس انتظامیہ کے سامنے پیش کرکے بہت بحث مباحثے اور تگ و دو کے بعد ان کا حقِ رائے دہندگی تسلیم کرایا۔

جمعیت کی کاوش کے نتیجے میں ایک ضمنی لسٹ جاری ہوئی اور لائبریری سائنس کے طلبہ کی فہرستیں بھی تمام نوٹس بورڈوں پر چسپاں کی گئیں۔ یہ جمعیت کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ اس موقع پر اس شعبے کی عمارت ’’اسلامی جمعیت طلبہ زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس گرم جوش اظہارِ جذبات نے اولڈ کیمپس کے باقی شعبوں کے طلبہ و طالبات کی توجہ بھی ہماری انتخابی مہم کی جانب مبذول کرا دی۔ یہ گہماگہمی جاری تھی کہ ایم اے عربی کے نتیجے کا اعلان ہوا اور اللہ نے مجھے اس میں شاندار کامیابی سے نوازا۔ میں یونیورسٹی میں اوّل تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے یہ پرچے زیادہ تر میں نے جیل میں دیے تھے، بعض اخبارات کی خبروں میں اس کا بھی تذکرہ ہوا۔

اب جو مسئلہ ہمیں درپیش تھا وہ تھا میرے یونیورسٹی میں نئے داخلے کا۔ میرا ذاتی ارادہ تھا کہ ایم اے اردو یا ایم اے پولیٹکل سائنس میں داخلہ لوں۔ اورینٹل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر محمد باقر تھے اور وہی شعبہ فارسی کے ہیڈ بھی تھے، جب کہ ڈاکٹر عبادت بریلوی شعبہ اردو کے سربراہ تھے۔ یونیورسٹی اساتذہ اور طلبہ عموماً مجھے اچھی طرح سے جانتے تھے۔ میں نے شعبہ اردو میں داخلے کی درخواست دی۔ اس موقع پر شعبے کے اساتذہ کی میٹنگ بلائی گئی۔ میں بھی میٹنگ روم کے باہر موجود رہا کہ شاید مجھے سوال و جواب کے لیے طلب کیا جائے، مگر مجھے نہ بلایا گیا۔

ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تھوڑی سی سنسنی کے بعد بالآخر مجھے داخلہ مل جائے گا۔ اندر خانے کیا ہورہا تھا، ہمیں معلوم نہ تھا، تاہم ہمارے مہربان استاد ڈاکٹر وحید قریشی پروفیسر شعبہ اردو نے جو میرے ساتھ ہمیشہ بڑی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے، تسلی دی تھی کہ داخلہ ہوجائے گا (مرحوم کے حالات میری کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد سوم صفحہ107تا 116 میں درج ہیں)۔ آپ یقیناً میرے داخلے کے لیے کوشاں تھے مگر سربراہِ شعبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب اور دیگر اساتذہ کی اکثریت اس حق میں نہ تھی، بلکہ معلوم ہوا کہ محترم عبادت بریلوی نے سخت الفاظ میں اس داخلے کی مخالفت کی اور جمعیت کے خلاف بھی بہت کچھ فرمایا۔

قصہ مختصر یہ کہ شعبہ اردو میں میرا داخلہ فارم مسترد کردیا گیا۔ اس کی وجہ نہ تو اُس وقت بتائی گئی اور نہ آج تک مجھے معلوم ہوسکی ہے۔ یہ استرداد بڑا مضحکہ خیز اور جامعہ کی مسلّمہ روایات کے بالکل خلاف تھا۔ بہت سے طلبہ ایک شعبے سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کسی دوسرے متعلقہ شعبے میں دوسرا اور تیسرا ایم اے کرنے کے لیے داخل ہوجایا کرتے تھے اور عموماً انھیں فائنل میں داخلہ ملا کرتا تھا۔ یہ اصول اب تک (1982ء بوقتِ تحریر) قائم و دائم ہے۔ میں نے ایک زبان میں ایم اے کرلیا تھا اور اب دوسری زبان میں ایم اے کرنا چاہتا تھا۔

میں نے اس موضوع پر پرنسپل کالج ڈاکٹر محمد باقر صاحب سے بات کی۔ ڈاکٹر صاحب محترم سے میرا خاصا قریبی اور نیازمندانہ تعلق تھا اور آپ بھی اس بندۂ ناچیز کے ساتھ بہت محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔ میری بات سن کر وہ خوب ہنسے اور پھر کہنے لگے ’’آپ کے عزائم اردو والوں کو معلوم ہیں، اس لیے وہ داخلہ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ میں ان کے معاملات میں ایسے چھوٹے سے مسئلے پر دخل اندازی مناسب نہیں سمجھتا، تاہم اگر آپ فارسی میں داخلہ لینا چاہیں تو ابھی آپ کو داخلہ مل جائے گا۔‘‘ جیسا کہ عرض کیا ہے، ڈاکٹر باقر صاحب میرے مہربانوں میں سے تھے اور ان سے میں اسی طرح بے تکلفی سے بات کرلیا کرتا تھا جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے کرلیتا ہے، اس لیے میں نے جواب میں کہا ’’سر! پڑھیں فارسی بیچیں تیل‘‘! اس پر پھر ڈاکٹر صاحب نے قہقہہ لگایا اور فرمانے لگے ’’بیٹے! آپ کو اس سے کیا غرض کہ مضمون کون سا ہو، آپ کو تو داخلہ ہی چاہیے۔‘‘

پھر فرمانے لگے ’’ابھی ابھی میرے پاس بارک اللہ خان بیٹھے تھے، انھیں تو آپ جانتے ہوں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب! وہ تو میرے دوست اور برادر بزرگ ہیں۔ جن دنوں اُن کا جامعہ پنجاب میں طوطی بولتا تھا اُن دنوں وہ میرے گائوں تشریف لائے تھے، میں اُن دنوں مڈل اسکول کا طالب علم تھا۔ اُن سے اسی دور سے نیازمندی کا تعلق ہے۔‘‘ فرمانے لگے ’’خان صاحب نے فارسی میں داخلہ لے لیا ہے اور میں نے ان سے وہی بات کہی تھی جو آپ مجھے کہہ رہے ہیں۔‘‘ یعنی پڑھیں فارسی بیچیں تیل! بارک اللہ خاں صاحب کا داخلہ لینا بہت معنی خیز تھا جس کا تذکرہ آگے آئے گا۔

بارک اللہ خاں صاحب کے داخلے کی افواہ ایک روز قبل سنی تھی مگر ہم نے اسے افواہ ہی سمجھا۔ اب ڈاکٹر محمد باقر صاحب کی زبانی اس افواہ کی تصدیق ہوگئی تھی۔ اورینٹل کالج سے نکل کر میں ایک دو ساتھیوں کے ساتھ شعبہ اسلامیات میں چلا گیا۔ وہاں سے فارم لیا اور پُر کرکے دفتر میں دے دیا۔ ہمارے نہایت مشفق استاد اور مربی پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی میرے اسلامیات میں داخل ہونے کے ارادے سے بڑے خوش تھے۔ پروفیسر ملک محمد اسلم (مرحوم) اُن دنوں شعبے کے سربراہ تھے۔ سابق صدرِ شعبہ علامہ علا الدین صدیقی مرحوم اب جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر بن چکے تھے مگر اس شعبے کے اکثر معاملات ابھی تک ان کے مشوروں اور ہدایات کی روشنی میں طے پاتے تھے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی میرے داخلے کا معاملہ ڈانواں ڈول نظر آنے لگا۔ ملک محمد اسلم صاحب نے فارم دیکھ کر کہا تھا ’’یہ تو تعلیمی نہیں سیاسی داخلہ ہے۔‘‘

بہرحال چوںکہ بالآخر اس شعبے میں مجھے قبول کرلیا گیا، اس لیے اب میں اس پر کچھ زیادہ نہیں لکھوں گا۔ تاہم جمعیت کی انتخابی کمیٹی نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر یہاں بھی داخلہ نہ ملا تو ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا۔ جمعیت کے شعبہ نشرواشاعت نے اس ضمن میں پریس ریلیز بھی جاری کردی تھی جو اخبارات میں چھپ گئی تھی۔ خدا خدا کرکے مجھے ایم اے اسلامیات فائنل میں داخلہ مل گیا اور میرا نام ووٹرز لسٹ میں آگیا۔ یونیورسٹی یونین کے قواعد کے مطابق صدارتی امیدوار کے لیے ایم اے، ایم ایس سی، ایم کام اور ایل ایل بی میں سے کسی ایک مضمون میں فائنل کا طالب علم ہونا لازمی تھا۔ اس دوران انتخابی گہما گہمی کی فضا بھی پیدا ہوگئی تھی۔ مختلف عہدوں کے لیے بہت سے نام منظرعام پر آنے لگے۔

اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ مجھے جمعیت نے صدارتی امیدوارکے طور پر نامزد کیا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ اعلان پریس کانفرنس میں کس ساتھی نے کیا تھا۔ جمعیت کے فیصلے کے مطابق غالباً برادرم زاہد بخاری نے کیا تھا کیوں کہ وہ شعبہ نشرواشاعت کے انچارج تھے۔ اس اعلان کے بعد میں نے اگلے روز خود ایک پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں سے خطاب کیا اور اپنا انتخابی منشور پیش کیا۔ اخبارات میں اس خبر اور منشور کو بڑی اچھی کوریج ملی۔ صدارتی عہدے کے لیے جن دیگر طلبہ نے ابتدائی طور پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ان میں رائو محمد عثمان، خواجہ محمد سلیم، شاہد محمود ندیم، جہانگیر بدر، امتیاز عالم شاہ، بارک اللہ خاں، ادریس کھٹانہ، رئیس بیگ، خورشید چائولہ، پرویز الیاس اور اعجاز ناجی کے نام شامل تھے، گویا مجھ سمیت کُل 12 صدارتی امیدوار تھے۔
(جاری ہے)