نئی ویب سیریز نے بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی ناکامی بھی ثابت کردی اور اُس میں اندرونی قضیے بھی شروع کردیے
کم و بیش تین عشروں کے دوران بھارتی قیادت نے شوبز سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکانے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔ انتہا پسند ہندو جماعتیں اس معاملے میں پیش پیش رہی ہیں۔
پاکستان کے خلاف کوئی بھی سنہرا موقع ضایع نہیں کیا جاتا۔ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ عوام کے ذہنوں میں زیادہ سے زیادہ زہر گھولا جائے۔ قندھار ہائی جیک ڈرامے کے حوالے سے بھی یہی ہوا ہے۔
دسمبر 1999ء میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے نئی دہلی روانہ ہونے والی انڈین ایئرلائنز کی پرواز IC-814 کا بھی یہی معاملہ تھا۔ اس پرواز کو ہائی جیک کرکے پہلے امرتسر، پھر لاہور اور اُس کے بعد دبئی میں اتارا گیا۔ وہاں بھی معاملات طے نہ ہو پائے تو اِس پرواز کو افغانستان کے شہر اور طالبان کے اقتدار کے مرکز قندھار لے جایا گیا۔ قندھار میں بھارتی حکام اور ہائی جیکرز کے درمیان مذاکرات ہوئے اور طیارے کے مسافروں اور عملے کو مولانا مسعود اظہر سمیت تین قیدیوں کے عوض رہائی ملی۔
بالی وُڈ کی فلم انڈسٹری ایسی فلمیں بناتی رہی ہے جن میں حب الوطنی کو پروان چڑھانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف بھارتی عوام کے دل و دماغ میں نفرت بھرنے کا عمل بھی شامل ہوتا ہے۔ ریفیوجی، بارڈر اور ایسی ہی دوسری بہت سی فلمیں اس سلسلے میں مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔
اب نیٹفلکس میدان میں آیا ہے۔ انوبھو سنہا نے بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ سے متعلق ویب سیریز ’’آئی سی 814: قندھار ہائی جیک‘‘ بنائی ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اس ویب سیریز کی تیاری میں بھارتی خفیہ ادارے ملوث نہ رہے ہوں یا حکومت نے دلچسپی نہ لی ہو۔
’’آئی سی 814 : قندھار ہائی جیک‘‘ کے ذریعے ہائی جیکنگ کے اُس ڈرامے کو لوگوں کے ذہنوں کے پردے پر دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔ کوشش یہ تھی کہ بھارتی عوام کو یاد دلایا جائے کہ یہ سب کچھ پاکستان نے کروایا تھا اور بھارتی قیادت کی سُبکی کا سبب بننے والا واقعہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی نگرانی تلے رونما ہوا تھا یا رونما کروایا گیا تھا۔
اب اس ویب سیریز کے بنانے والوں کو ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے اُنہوں نے کوئی پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔ 29 اگست کو ریلیز ہونے والی ویب سیریز ’’آئی سی 814 : قندھار ہائی جیک‘‘ کو لوگوں نے تو پسند کیا ہے تاہم بھارتی حکومت کو کچھ زیادہ مزا نہیں آیا۔ مزا نہ آنے کا ایک بنیادی سبب تو یہ تھا کہ یہ بھارتی قیادت اور انٹیلی جنس کی ناکامی کا معاملہ تھا۔ نیپال کو بھارت کا بغل بچہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہاں قدم قدم پر بھارت کے نقوشِ قدم ہیں۔ ایسے میں وہاں سے ایک طیارے کو ہائی جیک کرکے قندھار لے جانے میں کامیاب ہونا اور اپنی بات منواتے ہوئے تین افراد کو رہا کروانا بھارت کے لیے خفت اور ہزیمت کا معاملہ تھا۔
دنیا بھر میں بیشتر حکومتوں کا معاملہ یہ ہے کہ جن معاملات میں ہزیمت اٹھانا پڑی ہو اُن کے بارے میں کچھ بھی لکھنے اور فلم یا ٹی وی سیریز بنانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کبھی آپ نے سُنا ہے کہ کسی ملک نے جنگ ہاری ہو اور اُس کے بارے میں فلم بنائے؟ ایسی حماقت کا ارتکاب بھارت ہی میں ممکن ہے۔ ’’آئی سی 814: قندھار ہائی جیک‘‘ کا بھی یہی تو معاملہ ہے۔
نیٹفلکس کی ویب سیریز کو ریلیز ہوئے پندرہ دن ہوئے ہیں۔ اِن پندرہ دنوں میں بہت کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ اس ویب سیریز میں حقائق مسخ کرکے پیش کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پوری سیریز بھارت میں لکھی اور فلمائی گئی۔ وہیں سے ریلیز بھی کی گئی ہے تو حقائق مسخ کرنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے!
نیٹفلکس کو اپنے افسران کو بھارتی وزارتِ اطلاعات و نشریات میں طلب کیے جانے کے بعد قندھار ہائی جیکنگ ڈرامے سے متعلق اپنی ویب سیریز پر ایک اور ڈِزکلیمر شامل کرنا پڑا ہے۔ بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی نے نیٹفلکس پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اِس ویب سیریز کی 4 اقساط کو ہٹادیا جائے۔
اے این آئی کا کہنا ہے کہ ’’آئی سی 814 : قندھار ہائی جیک‘‘ کے چار حصوں میں اس کا مواد اجازت لیے بغیر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بات برطانوی نیوز ایجنسی کو اے این آئی کے وکیل نے بتائی ہے۔
گزشتہ ماہ اپنے اجرا کے بعد سے اب تک نیٹفلکس کی یہ ویب سیریز تنازعات میں گِھری رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے بہت سے یوزرز اور بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ویب سیریز میں ہائی جیکرز کے نام ہندوانہ دیے گئے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ ہندو تھے۔ واضح رہے کہ ہائی جیکرز نے اپنے خفیہ نام رکھے ہوئے تھے تاکہ اُن کے اصل نام ظاہر نہ ہوں۔
ہندوانہ ناموں سے ہائی جیکرز کے ہندو ہونے کا تاثر ملنے کا اعتراض انتہائی بھونڈا ہے، بودے پن کا نمونہ ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ بھارتی طیارے کو اُس کا بغل بچہ سمجھے جانے والے ملک نیپال سے روانگی کے بعد ہائی جیک کیا گیا تھا۔ طیارے کے مسافروں کے عوض مولانا مسعود اظہر سمیت تین مجاہد لیڈر چُھڑوائے گئے تھے۔ جب یہ پورا معاملہ خود بتارہا ہے کہ بھارت کے خلاف ہے تو پھر یہ سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے کہ ہائی جیکرز ہندو ہوسکتے تھے۔ سیدھی سی بات ہے، وہ سب کے سب مسلمان ہی تھے۔
نیٹفلکس انکارپوریشن نے ڈِزکلیمر شامل کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ وہی کوڈ نیم شامل کیے گئے ہیں جو اصل ہائی جیکنگ ڈرامے کے دوران ہائی جیکرز نے استعمال کیے تھے۔
اے این آئی کو اس بات پر بھی شدید اعتراض ہے کہ اُس کا کاپی رائٹ مٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مواد استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر جب ویب سیریز مقبولیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ متنازع بھی ہوتی گئی اور بھارت کے لیے خفت اور ہزیمت کا باعث بننے لگی تو اے این آئی کو لگا کہ اب معاملہ ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے چند قائدین اور سرکردہ ارکان نے الزام لگایا ہے کہ اس ویب سیریز کے ذریعے بھارت کو بدنام کیا گیا ہے۔ جب اے این آئی نے دیکھا کہ ویب سیریز متنازع ہوتی جارہی ہے تو اُس نے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا سوال اٹھادیا۔
اے این آئی کے وکیل سِدھانت کمار کا کہنا ہے کہ لائسنس اور اجازت کے بغیر اے این آئی کا کاپی رائٹ مٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔ سِدھانت کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ شدید تنقید کے باعث ٹریڈ مارک اور برانڈ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ نیٹفلکس کو وہ چار اقساط نکال دینی چاہئیں جن میں اے این آئی کا مٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے اس حوالے سے کیس کی سماعت پر آمادگی ظاہر کردی ہے اور نیٹفلکس سے باضابطہ جواب بھی طلب کیا ہے۔
بہت سے ناظرین نے بھولا اور شنکر ناموں کے استعمال پر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی ناراضی ظاہر کی ہے اور اعتراض کیا ہے کہ انوبھو سنہا نے دانستہ ہائی جیکرز کے اصل ناموں کے بجائے ہندوانہ نام استعمال کیے ہیں۔ اس سیریز میں دیگر کرداروں کو چیف، ڈاکٹر اور برگر کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن بھولا اور شنکر کے ناموں کے انتخاب پر خصوصی چھان بین کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے فلم ساز پر واقعے کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور ممکنہ طور پر مذہبی بنیاد پر نفرت بھڑکانے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس معاملے پر بات کرنے کے لیے 3 ستمبر کو نیٹفلکس کی مواد کی سربراہ مونیکا شیرگِل کو دہلی میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کے دفتر طلب کیا گیا۔ اُسی دن ممبئی میں ”آئی سی 814: دی قندھار ہائی جیک“ کی پوری ٹیم کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
پریس کانفرنس میں نیٹفلکس کا اس تنازعے پر باضابطہ بیان پڑھ کر سنایا گیا جس میں کہا گیا کہ اُن ناظرین کے فائدے کے لیے جو 1999ء میں انڈین ایئرلائنز کی فلائٹ IC 814 کی ہائی جیکنگ سے ناواقف ہیں، ابتدائی ڈِزکلیمر کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے تاکہ ہائی جیکرز کے حقیقی اور کوڈ ناموں کو شامل کیا جاسکے۔ سیریز میں استعمال ہونے والے کوڈ نام وہی ہیں جو اصل واقعے کے دوران استعمال کیے گئے تھے۔
6 جنوری 2000ء کو بھارت کی وزارت داخلہ کے ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ ہائی جیکرز کے اصل نام ابراہیم اطہر، شاہد اختر سید، سنی احمد قاضی، مستری ظہور ابراہیم اور شاکر تھے۔ انڈین ایئرلائنز کی پرواز 814 کو جب ہائی جیک کرلیا گیا تو ہائی جیکرز نے اپنے اصل ناموں کی جگہ ایک دوسرے کو چیف، ڈاکٹر، برگر، بھولا اور شنکر کے کوڈ ناموں سے پکارنا شروع کردیا۔ اس انکشاف سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوانہ ناموں کا مقصد ہائی جیکنگ کی اصل حقیقت کی عکاسی کرنا تھا۔
یہ تو ہوا کہانی کے مطابق نام نہ رکھنے اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’آئی سی 814: قندھار ہائی جیک‘‘ نے بھارت کے خفیہ اداروں یعنی انٹیلی جنس کمیونٹی کے درمیان تنازعات اور قضیوں کو جنم دیا ہے۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والے اس ڈرامے پر بنائی جانے والی سیریز میں بتایا گیا ہے کہ پرواز میں ایک گھوسٹ مسافر بھی تھا۔ جب مسافروں کی فہرست جاری کی گئی تب ایک مسافر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
یہ مسافر تھا ششی بھوشن سنگھ تومار، جو کٹھمنڈو میں بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کا اسٹیشن ہیڈ تھا۔ وہ بھارتی ہائی کمیشن میں فرسٹ سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا جو ظاہر ہے اُس کے لیے کورنگ عہدہ تھا۔ ششی بھوشن سنگھ تومار کی سیٹ کا نمبر 16C تھا۔
انوبھو سِنہا کی سیریز کی اسٹریمنگ نے دسمبر 1999ء میں انڈین ایئرلائنز کے طیارے کی ہائی جیکنگ کے ڈرامے کو دوبارہ عام بھارتیوں کے ڈرائنگ رومز تک پہنچایا، تاہم لوگوں کے ذہنوں میں اپنی انٹیلی جنس کمیونٹی کے حوالے سے سوالات بھی کھڑے کیے ہیں۔ بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ اس کا بیّن ثبوت تھی کہ بھارتی خفیہ ادارے اپنا گڑھ سمجھے جانے والے ملک کے دارالحکومت میں بھی ناکامی سے دوچار ہوئے۔
بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت نے انڈیا ٹوڈے ٹی وی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس پرواز میں کٹھمنڈو میں ’’را‘‘ کا اسٹیشن چیف بھی سوار تھا۔ ’’را‘‘ کے اسٹیشن ہیڈ کے بارے میں توقع تھی کہ وہ اس ہائی جیکنگ سے متعلق معلومات حاصل کرکے کٹھمنڈو اور نئی دہلی میں اعلیٰ حکام کو پہلے سے کچھ بتاتا، مگر اِس کے بجائے وہ خود ہائی جیک ہوگیا!
سینئر صحافی پروین سوامی نے 2000ء میں معروف بھارتی جریدے دی فرنٹ لائن کو بتایا تھا کہ ششی بھوشن سنگھ تومار کی بیوی اسپتال میں داخل تھی اور وہ بیوی کی دیکھ بھال کے لیے دہلی آرہا تھا۔
لطیفہ یہ ہے کہ کٹھمنڈو میں بھارتی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکریٹری اور ’’را‘‘ کے جونیئر آپریٹو ہیڈ یو وی سنگھ نے اپنے امیجئیٹ باس ششی بھوشن سنگھ تومار کو ٹِپ دی تھی کہ بھارتی طیارے کے ہائی جیک کیے جانے کا خطرہ ہے۔ تومار نے اِس بات کو ہوا میں اُڑاتے ہوئے اُس کا تمسخر بھی اُڑایا تھا۔ یہ بات ’’را‘‘ کے سابق افسر آر کے یادو نے 2014ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’مشن را‘‘ میں بتائی تھی۔
تومار نے یو وی سنگھ سے پوچھا تھا کہ یہ بات وہ کس کے حوالے سے کہہ رہا ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ ایئرپورٹ کے ایک سینئر افسر نے یہ ٹِپ دی ہے۔ آر کے یادو کے مطابق تومار نے یو وی سنگھ کو سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ افواہیں نہ پھیلائے۔ آر کے یادو نے اپنی کتاب میں بتایا کہ یو وی سنگھ کی ٹِپ پر مبنی رپورٹ ’’را‘‘ کے ہیڈ کوارٹرز نہیں بھیجی گئی تھی اور اِسے کراس چیک کے بغیر دبا بھی دیا گیا۔
اب ذرا سوچیے کہ اگر ہائی جیکرز کو پتا چل جاتا کہ مسافروں میں ’’را‘‘ کا اسٹیشن ہیڈ بھی سوار ہے تو کیا ہوتا؟ وہ مسافروں کو ڈرانے کے لیے رُوپِن کٹیال کی جگہ اُسی کو مار ڈالتے۔
حقیقت سامنے آجانے پر بھی تومار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ وزیرِاعظم ہاؤس کے ایک سینئر افسر کا قریبی عزیز تھا۔ تادیبی کارروائی کے بجائے اُسے امریکا میں ایک پُرکشش اسائنمنٹ دے دی گئی۔
ششی بھوشن سنگھ تومار کے بھارتی طیارے میں موجود ہونے کی خبر پاکستان نے 27 دسمبر کو دی جب طیارہ قندھار ایئرپورٹ پر افغان طالبان کے کنٹرول میں تھا۔ پاکستانی دفترِخارجہ کے ترجمان طارق الطاف نے اسلام آباد میں نیوز بریفنگ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اس پرواز میں ’’را‘‘ کا ایک افسر تومار بھی موجود تھا۔
انڈیا ٹوڈے سے انٹرویو میں ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت نے یہ بات زور دے کر کہی کہ نئی دہلی میں ’’را‘‘ کے ہیڈ کوارٹرز تک بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ سے متعلق کوئی بھی ایڈوانس ٹِپ نہیں پہنچی تھی۔ یہ گویا ششی بھوشن سنگھ تومار کی نااہلی کے خلاف واضح بیان تھا جو مقدمے میں ثبوت کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے۔
ششی بھوشن تومار کا معاملہ دُگنا ہے۔ ایک طرف تو اُس نے اپنے طور پر اس ہائی جیکنگ کے بارے میں کچھ جاننے کی باضابطہ کوشش نہیں کی اور دوسری طرف جب اُسے ٹِپ دی گئی تو اس نے اُس ٹِپ کو اہمیت دینے کے بجائے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ حد یہ ہے کہ احتیاطی قدم کے طور پر اس نے اُس ٹِپ کو رسمی انداز سے اپنے ہیڈ کوارٹرز بھیجنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔
’’آئی سی 814: قندھار ہائی جیک‘‘ کے ذریعے بھارت جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ بالکل حاصل نہ ہوسکا، اُلٹا یہ سیریز ’’را‘‘ کے لیے مزید بدنامی کا باعث بنی ہے۔ اب ’’را’’ میں اندرونی سطح پر مناقشے شروع ہوگئے ہیں۔ سابق اعلیٰ افسران ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ خود ’’را‘‘ کا سربراہ یہ کہتے ہوئے جان چُھڑانے کی کوشش کررہا ہے کہ اُسے تو ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے کوئی ٹِپ نہیں ملی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کٹھمنڈو اسٹیشن ناکام رہا تھا۔ اُدھر کٹھمنڈو میں ’’را‘‘ کا اسٹیشن ہیڈ اس حد تک ناکامی سے دوچار ہوا کہ وہ اُسی طیارے میں سوار ہوگیا جس کی ہائی جیکنگ کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا اور اُس نے اِس خدشے کو ہوا میں اُڑا دیا تھا۔
انوبھو سنہا پر یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ اُس نے ’’آئی سی 814: قندھار ہائی جیک‘‘ میں پاکستانی انٹیلی جنس کو رعایتی نمبر دینے کی کوشش کی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اس ویب سیریز میں آئی ایس آئی کا نام برائے نام استعمال ہوا ہے۔ آخری منظر میں اسامہ بن لادن کو ہائی جیکرز کی مہمان داری کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ منظر اس بات کو تسلیم کرنے کا بیّن ثبوت ہے کہ اس پورے قضیے سے آئی ایس آئی کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔