پروفیسر اقبال جاوید صاحب (سابق صدر شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ ایک صاحب طرز نثرنگار، معلم اور محقق ہیں۔ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے ادبی مجلے ’’مہک‘‘ کے مدیر رہے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ گوجرانوالہ میں علم و ادب کے چراغ روشن کرنے، اردو ادب کی ترویج و اشاعت کرنے اور زبان و ادبِ اردو کی آبیاری میں پروفیسر محمد اقبال جاوید کا نمایاں حصہ ہے۔
پیش نظر کتاب ’’قلم کرنیں‘‘ پروفیسر اقبال جاوید صاحب کی تصانیف و تالیفات سے منتخب کردہ ادبی، علمی اور فکری شہ پاروں پر مشتمل ہے۔ ان نثر پاروں کا انتخاب محمد سلیم صاحب نے کیا ہے۔ سلیم صاحب ریٹائرڈ بینکر ہیں لیکن ادبی ذوق رکھتے ہیں اور پروفیسر صاحب کے بڑے مداح ہیں۔
سلیم صاحب نے ان نثر پاروں کا انتخاب پروفیسر جاوید اقبال صاحب کی درجِ ذیل کتابوں سے کیا ہے: قرآن حکیم ’’ایک طالبِ ہدایت کی نظر میں‘‘، قرآنِ حکیم ’’اردو منظومات کے آئینے میں‘‘، شعری التجائیں، دعا (سرورِ کونینﷺ کے نقطہ نظر سے)، کِتھے مہر علی، کِتھے تیری ﷺ ثناء، دل جس سے زندہ ہے (مولانا ظفر علی خاں کی نعتیہ تاب و تب)، مخزنِ نعت (قدیم و جدید شعراء کے گلہائے نعت)، مصطفیٰ جانِ رحمت، تجلیاتِ مدینہ، تحمید و تحسین، نعت میں کیسے کہوں، تیرا وجود الکتاب، تحسینِ رسالتﷺ، نیاز بہ حضورِ ناز، مولوی محمد شریفؒ (علم و معرفت کے تناظر میں)، مختار مسعود… مکاتیب کے آئینے میں، مضامینِ شورش، ارمغانِ راتھرؔ، ادبی جریدہ ’’مہک‘‘ گوجرانوالہ نمبر، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ
قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے چند نثرپارے درجِ ذیل ہیں:
٭عبدیت، ربوبیت سے وابستہ ہے۔ عبدیت کا کمال اس کی عاجزی میں اور ربوبیت کا کمال اس کے(باقی صفحہ 33پر)
اختیارِ کمال میں ہے۔
٭گلہ اور شکوہ تو ہوتا ہی وہاں ہے جہاں تعلقِ خاطر ہو، آخر شکوہ لکھنے والے کو بھی جوابِ شکوہ لکھنا ہی پڑا۔
٭ ’’دعا‘‘ میں جمع کا صیغہ ضروری ہے کہ سب کا بھلا ہو، ’’صاحبِ دعا‘‘ ہونے کے لیے صاحبِ محبت ہونا ضروری ہے۔
٭ راضی برضا رہنے کی توفیق بھی، عطا ہوا کرتی ہے، بے بس انسان کے بس کی بات نہیں۔
٭حُبِ رسولﷺ کا حاصل خوفِ خدا ہے۔
٭مدینہ ایک بستی ہی تو ہے مگر کیا بات ہے کہ دل کی بستی اس کے بغیر بستی ہی نہیں، ویران ہی رہتی ہے۔
٭یہ دور استاد اور اصلاح سے بے نیاز ہوکر صحبت کے فیض اور فیضان دونوں سے محروم ہوچکا ہے۔
٭زندگی کا سارا حسن محنت اور خلوص میں پوشیدہ ہے۔
٭’’صداقت‘‘ بیان کرنے والے کے ساتھ اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ کوئی جھوٹا آدمی سچ بولنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ سچ خطرے میں ہے۔ سچ وہی ہے جو سچے کی زبان سے نکلے۔