ممتاز صحافی عارف الحق عارف کی کھتا ،مولانا مودودی ؒ سے ملاقاتوں کی روداد

کشمیر کے ایک چھوٹے گائوں سے سب سے بڑے شہر کراچی کا سفر
مولانا مودودی کا قائداعظم کے جنازے کے بعد یہ سب سے بڑا جنازہ تھا،جس میں لوگوں نے سیاسی اور مذہبی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر شرکت کی تھی

فرائیڈے اسپیشل: مولانا کا امریکہ میں انتقال ہوا تو آپ کہاں تھے؟ اس کا آپ پر کیا اثر ہوا؟

عارف الحق عارف:سیّد مودودیؒ کا انتقال 23 ستمبر 1979ء کو امریکہ کے شہر بفیلو میں ہوا جہاں وہ اُسی سال مئی میں علاج کی غرض سے اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق کے پاس گئے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ دنیا کے کونے کونے میں موجود اُن کے لاکھوں عقیدت مندوں نے یہ خبر بڑے صدمے کے ساتھ سنی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر باربار نشر کررہے تھے اور مولانا کی شخصیت، ان کے علمی کارناموں اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ان کی کاوشوں کا ذکر کررہے تھے۔ ہم اُس دن جنگ کے رپورٹرز روم میں تھے کہ نیوز روم میں ٹیلی پرنٹر کی گھنٹیاں بجنے کی تیز تیز آوازیں آنے لگیں جو اس بات کی علامت تھی کہ کوئی بڑی بریکنگ نیوز ہے۔ اُس دَور میں کسی بڑی خبر سے نیوز روم کو متوجہ کرنے کا یہی طریقہ تھا اور اخبارات فوری طور پر وہ خبر قارئین تک پہنچانے کے لیے اخباری ضمیمہ بھی شائع کیا کرتے تھے۔ یہ بریکنگ نیوز مولانا مودودیؒ کے انتقال پُرملال کی تھی۔ خبر سنتے ہی ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے اِس دنیا میں ہماری سب سے عزیز ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہو۔ ہماری آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا اور آنکھوں سے ایک جھڑی کی صورت آنسو رواں ہوگئے۔ ہم اِسی حال میں تھے کہ نیوز ایڈیٹر محمود مدنی نے ہمیں اپنے کمرے میں طلب کیا۔ ان کا بھی غم سے برا حال تھا، وہ بھی مولانا کے فدائی تھے۔ انہوں نے ہمیں مولانا کے سانحہ ارتحال کی خبر لکھنے کی ہدایت کی۔ اس طرح روزنامہ جنگ میں ان کے انتقال کی خبر لکھنے کی سعادت ہمیں ہی حاصل ہوئی جو شہ سرخیوں کے ساتھ سب سے بڑی خبر کے طور پر شائع ہوئی۔

سیّد مودودیؒ کے انتقال کے بعد بفیلو میں پہلی نمازِ جنازہ ہوئی اور ان کے جسدِ خاکی کو 25ستمبر کی صبح نیویارک سے پاکستان کے لیے روانہ کیا گیا۔ ان کے جہاز کا پہلا پڑاؤ لندن میں تھا جہاں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر ان کی دوسری نمازِ جنازہ پڑھی گئی، اور لندن اور برطانیہ کے دُور دراز شہروں اور علاقوں سے ان کے چاہنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں مولانا کی شخصیت اور علمیت سے متاثر الطاف گوہر بھی شامل تھے جو چند برس قبل مولانا سے قیدِ تنہائی کے دوران میں ’’تفہیم القرآن‘‘ کے ذریعے متعارف ہوئے تھے اور ڈان میں تفہیم القرآن کے منتخب حصوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی شائع کیا تھا۔ الطاف گوہر نے مولانا کے جنازے میں شرکت کا احوال بی بی سی کے ایک پروگرام میں ’’عزیز ِ جہاں‘‘ کے نام سے پیش کیا تھا، جس کو بہت سنا اور پسند کیا گیا تھا۔

لندن سے اُن کا جسدِ خاکی پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لایا گیا۔ اس کی اطلاع پہلے سے عاشقان ِ مودودیؒ کو تھی، اس لیے جہاز کی آمد سے پہلے ہی ہزاروں لوگ ایئرپورٹ پہنچے اور اشک بار آنکھوں سے ان کا جسدِ خاکی وصول کیا۔ ایئرپورٹ کے سامنے کھلے میدان میں نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا گیا تھا، وہاں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس میں کراچی اور سندھ کے بڑے شہروں سے آنے والے ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد ان کی میّت لاہور لے جائی گئی۔ یہ اعلان پہلے سے کردیا گیا تھا کہ اگلے روز لاہور میں مولانا کی نماز جنازہ اور تدفین ہوگی۔

فرائیڈے اسپیشل: ہم نے سنا ہے کہ لاہور کے مشہور قذافی اسٹیڈیم میں مولانا کی نماز جنازہ لاہور اور ملک کی تاریخ کا بڑا جنازہ تھا۔آپ کیا کہتے ہیں؟

عارف الحق عارف:ہم نے خود اس جنازے میں شرکت کی تھی اور اسی دن رات 8 بجے کی پرواز سے واپس کراچی جاکر ان کے اس جنازے اور تدفین کی خبر بھی فائل کی تھی۔ کراچی میں مولانا کی نمازِ جنازہ کے بعد ان کے جسدِ خاکی کو اسی دن لاہور لے جایا گیا۔ ہم بھی دوسرے دن صبح کی پرواز سے لاہور پہنچے اور ایئرپورٹ سے قذافی اسٹیڈیم کے لیے روانہ ہوئے جہاں ان کی نماز جنازہ ہونی تھی۔ ائیرپورٹ سے قذافی اسٹیڈیم جاتے ہوئے ہم نے پورے لاہور کو سوگوار دیکھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ لاہور کے سب راستے قذافی اسٹیڈیم کو جارہے ہیں۔ اُس دن ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ ایک عالِم کی موت عالَم (دنیا) کی موت ہوتی ہے۔ لوگ بسوں، ویگنوں، کاروں، ٹیکسیوں، موٹر سائیکلوں، تانگوں کے ذریعے اور پیدل قذافی اسٹیڈیم کی طرف رواں تھے۔ قذافی اسٹیڈیم میں عوام کا جم ِ غفیر نماز جنازہ کے لیے اُمڈا چلا آرہا تھا۔ پورے پاکستان سے لوگ ان کا آخری دیدار اور ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اور میلوں قطار میں بڑے منظم انداز میں عالم اسلام کے اس عظیم مفکر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ جماعت کے کارکن اس وقت بڑے ہجوم کی جگہ جگہ رہنمائی اور انہیں منظم کرنے کے لیے موجود تھے اور اس امر کا ثبوت دے رہے تھے کہ جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم جماعت ہے۔ یہ بڑا ہی دل خراش منظر تھا۔ ہزاروں لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور مولانا کو دعاؤں کے ساتھ آخری منزل کے لیے رخصت کررہے تھے۔ مولانا کی نمازِ جنازہ امام کعبہ کو پڑھانا تھی لیکن ان کے نہ آنے کی وجہ سے عالمِ اسلام کی سب سے بڑی علمی شخصیت علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھائی جو علمی میدان میں مولانا کے خوشہ چین تھے۔ اس جنازے میں اُس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر ضیاء الحق کے علاوہ ملک کے سیاسی لیڈروں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔ نماز جنازہ کے وقت پورا قذافی اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ باہر اس کے چاروں طرف کی گلیوں میں موجود تھے۔ بلاشبہ یہ جنازہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا جنازہ تھا۔ ہم نے کچھ بزرگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ قائداعظم کے جنازے کے بعد یہ سب سے بڑا جنازہ تھا، جس میں لوگوں نے سیاسی اور مذہبی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر شرکت کی تھی۔

فرائیڈے اسپیشل:مولانا کی تدفین کہاں ہوئی؟

عارف الحق عارف:جنازے کے بعد مولانا کے جسدِ خاکی کو اُن کی رہائش گاہ، 5 اے ذیل دار پارک، اچھرہ لایا گیا۔ ہم بھی وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جماعت اسلامی مولانا کی تدفین جماعت کے نوتعمیر مرکز منصورہ میں کرنا چاہتی تھی لیکن اُس نے مولانا کے اہلِ خانہ کی اچھرہ میں تدفین کی خواہش کے احترام میں اس پر زیادہ زور نہ دیا۔ مولانا کی تدفین اُن کی کوٹھی کے صحن کے اُسی مقام پر ہوئی جہاں وہ برسوں نمازِ عصر کے بعد اپنے ملنے والوں سے ملاقات کرتے اور ان کے سوالوں کے جوابات دیتے تھے۔ ہم بھی اس محفل میں دو چار بار شریک ہوئے تھے۔ تدفین کے موقع پر کوٹھی کو ہجوم سے بچانے کے لیے اندر سے داخلے کے بڑے گیٹ کو بند کردیا گیا تھا، لیکن ہم اُس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور تدفین کے آخر تک وہیں موجود رہے۔ مولانا کو جب قبر میں اتارا گیا تو بڑے ہی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ وہاں موجود تمام افراد افسردہ تھے اور ان کے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔ اس موقع پر ہمیں جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے قائدین کے علاوہ وہ لوگ بھی نظر آئے جو 1957ء میں مولانا محترم سے اختلافِ رائے کی وجہ سے جماعت سے الگ ہوگئے تھے، ان میں راؤ خورشید علی اور دیگر شامل تھے۔ ان سب کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے۔ ہم مولانا کی تدفین کے بعد اُسی رات واپس کراچی پہنچے، ائیرپورٹ سے سیدھے دفتر گئے اور مولانا کے جنازے اور تدفین کا آنکھوں دیکھا حال خبر کے طور پر لکھا، جو اخبار کی دوسرے دن کی اشاعت میں شامل ہوا۔ اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی قبر کو نور سے بھر دے جنہوں نے ہماری طرح لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو اپنی عظیم تفسیر تفہیم القرآن اور دوسری لاتعداد کتب اور اپنے اُجلے کردار کے ذریعے بدل دیا تھا۔

فرائیڈے اسپیشل:سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک انٹرویو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا، انٹرویو لینے والے پینل میں ریڈیو کے سلیم گیلانی، مشہور ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار سلیم احمد اور کالم نگار عبدالقادر حسن شامل تھے، لیکن اس کے بعد کسی بات پر فتنہ یا فساد پیدا ہونے کا خدشہ ہوا۔ اس کی کیا تفصیلات ہیں؟

عارف الحق عارف:کیا یاد دلادیا آپ نے۔ یہ بڑی دلچسپ اور طویل کہانی ہے۔ یہ 1978ء کی بات ہے۔ بانی جماعت سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک انٹرویو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا جس کی بڑے پیمانے پر ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی پر تشہیر کی گئی تھی۔ اِس لیے اس کا بڑا چرچا تھا۔ انٹرویو لینے والے پینل میں ریڈیو کے سلیم گیلانی، مشہور ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار سلیم احمد اور کالم نگار عبدالقادر حسن شامل تھے۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا نافذ ہوئے دوسرا سال تھا اور ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی بعض جماعتیں بھی عبوری حکومت میں شامل تھیں جن میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، چودھری رحمت الٰہی، محمود اعظم فاروقی اور پروفیسر خورشید احمد بھی شامل تھے۔

فرائیڈے اسپیشل:تو یہ انٹرویو اُس وقت ہوا جب وزارتِ اطلاعات جماعت کے محمود اعظم فاروقی کے پاس تھی؟

عارف الحق عارف:جی ایسا ہی تھا۔ محمود اعظم فاروقی، وفاقی وزیراطلاعات و نشریات تھے۔ اس انٹرویو کا پینل ابلاغِ عامہ کے تین بڑے لوگوں پر مشتمل تھا جن میں ملک کے مایہ ناز ادیب، شاعر، نقاد، ڈراما نگار اور کالم نگار سلیم احمد، مشہور شاعر، صداکار اور ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر سلیم گیلانی اور ملک کے صفِ اوّل کے اخبار نویس اور کالم نگار عبدالقادر حسن شامل تھے۔ اس لحاظ سے یہ بہترین پینل تھا جس کا مرتبہ علمی طور پر بھی بہت بلند تھا۔ ہم اُس زمانے میں عربی کی کلاسیں لینے روزانہ دارالعلوم جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن جاتے تھے اور کلاس کے بعد مفتی ولی حسن کے پاس کچھ وقت گزارتے تھے۔ ہم نے مفتی ولی حسن سے اس انٹرویو کا تذکرہ پہلے ہی کردیا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ اسے ضرور سنیں اور اس پر اپنی رائے بھی دیں۔ جس رات یہ انٹرویو نشر ہوا ہم کسی دفتری مصروفیت کی وجہ سے اسے سن نہ سکے، اس لیے اُس کے دوسرے دن ہم عربی کی کلاس میں شرکت کے بعد معمول کے مطابق مفتی ولی حسن کے کمرے میں گئے تو چائے پینے کے دوران میں ہم نے اُن سے پوچھا ’’آپ نے مولانا کا انٹرویو سنا؟‘‘ جس کا جواب انہوں نے اثبات میں دیا۔ ہم نے دریافت کیا ’’انٹرویو کیسا تھا؟ اور کیا مولانا نے کوئی متنازع بات تو بیان نہیں کردی؟‘‘ اس پر انہوں نے تھوڑی دیر سوچا، پھر کہنا شروع کیا ’’مجموعی طور پر تو انٹرویو ٹھیک تھا مگر ایک جگہ ایسی بات بیان ہوگئی ہے جس سے اگر کوئی چاہے تو فتنہ پیدا کرسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انٹرویو میں کاٹ چھانٹ کی گئی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا۔‘‘ جہاں تک ہمیں یاد ہے وہ متنازع جملہ یہ تھا: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی رائے کی پابندی لازمی نہیں، اختیاری ہے۔‘‘ انٹرویو میں اس کی تفصیل نہیں تھی اور نہ کسی واقعے یا حدیث کا ذکر تھا، جس سے مولانا نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا۔ ہم دونوں کی رائے تھی کہ ممکن ہے، مولانا نے اس حدیث کا ذکر کیا ہو جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورے کے بعد کھجوروں کے پودے لگائے تھے اور ان سے پھل نہ آنے پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ وہ میری ذاتی رائے تھی اور تم کھجوروں کی فصل کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہو اس لیے میری رائے پر عمل کرنا ضروری نہیں تھا۔ لیکن انٹرویو میں اس کا یا کسی اور حدیث کا ذکر نہیں تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔

فرائیڈے اسپیشل: اچھا، تو پھر کیا ہوا؟

عارف الحق عارف:اصل قصہ تو اب شروع ہوتا ہے۔ ہم دونوں نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ ایک نوجوان دفتر میں داخل ہوا۔ السلام علیکم کے بعد اس نے کھڑے کھڑے کہا ’’مجھے مفتی ولی حسن صاحب سے ملنا ہے۔‘‘ مفتی صاحب نے کہا ’’جی میں ہوں، بتائیے کیا مسئلہ ہے؟ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘ اس نے کہا ’’میں لانڈھی میں رہتا ہوں اور وہاں سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر ایک کاغذ ان کے آگے رکھ دیا۔ مفتی صاحب نے تحریر پڑھی اور مسکراتے ہوئے وہ کاغذ ہمارے سامنے رکھ دیا جو دراصل ایک استفتیٰ(سوال) تھا جس میں لکھا تھا ’’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے۔ (اس میں وہی جملہ درج تھا جو انٹرویو میں نشر ہوا تھا) تو کیا وہ پھر بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟‘‘ مفتی صاحب اس بات پر حیران ہورہے تھے کہ ہم ابھی یہ بات کر ہی رہے تھے کہ یہ نوجوان وارد ہوگیا۔ مفتی صاحب نے اس نوجوان سے کہا ’’تم سوال چھوڑ جاؤ اور اپنا پتا لکھ دو۔ ہم باری آنے پر اس کا مفصل جواب ڈاک سے بھیج دیں گے۔‘‘ نوجوان نے کہا ’’نہیں، مجھے تو ابھی فتویٰ چاہیے۔‘‘ جب اس نے زیادہ اصرار بلکہ ضد کی تو مفتی صاحب نے کہا ’’اگر تمہیں جلدی ہے تو مہتمم صاحب سے مل لو، ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارے مسئلے کا کوئی حل نکال دیں۔‘‘ چناں چہ وہ ان کے کہنے پر سوال کا پرچہ وہیں چھوڑ کر مفتی احمد الرحمٰن سے ملنے ان کے دفتر چلا گیا۔ اس دوران میں مفتی صاحب نے ہم سے کہا کہ اس کے استفتیٰ کی فوراً فوٹو اسٹیٹ مشین سے کاپی کرالو۔ ہم نے باہر جاکر کاپی کرائی اور چند منٹ میں واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اسی دوران میں وہ نوجوان بھی واپس آگیا۔ اس نے کہا ’’مفتی احمد الرحمٰن صاحب نے کہا ہے کہ فتویٰ جلدی دے دیں۔‘‘ اس پر مفتی ولی حسن صاحب کو غصہ آگیا اور بولے ’’اگر تمہیں بہت جلدی ہے تو جاکر مفتی احمد الرحمٰن ہی سے فتویٰ لے لو۔ وہ بھی تو مفتی ہیں۔ میں تو طریقے کے مطابق باری آنے پر ہی جواب دوں گا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، حوالے کی کتب دیکھنا ہوتی ہیں، پھر فتویٰ لکھا جاتا ہے۔‘‘

ہم استفتیٰ کی عبارت کا رسم الخط دیکھ کر معاملے کی تہ تک پہنچ چکے تھے کہ دراصل اس کے پیچھے کون ہے؟ اس لیے فیصلہ کیا کہ اس نوجوان کی آمد کی اصل حقیقت مفتی ولی حسن کی موجودگی میں بے نقاب کی جائے۔ چناںچہ ہم نے اس سے کہا کہ وہ اطمینان سے بیٹھ جائے، ہم اس مسئلے کا کوئی حل نکالتے ہیں۔ اس طرح ہم نے اُس پر وکیلوں کی طرح جرح شروع کردی۔ ہم نے اس سے کہا ’’دیکھو! تم اسلامی ذہن و فکرکے مالک لگتے ہو، جب ہی یہ مسئلہ پوچھنے آگئے ہو۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ غلط بیانی نہیں کرو گے اور ہم جو پوچھیں گے اس کا صحیح جواب دو گے۔‘‘ پھر اس سے سچ اگلوانے کے لیے مزیدکہا ’’جس جگہ تم بیٹھے ہو یہ اگرچہ مفتی صاحب کی لائبریری اور دفتر کا ایک کمرہ ہے لیکن یہ جامع مسجد بنوری ٹاؤن کے احاطے کے اندر ہی واقع ہے اور اس طرح یہ بھی مسجد ہی کا حصہ ہے۔ ہم سب اس وقت مسجد ہی میں بیٹھے ہیں، اس لیے توقع کرتے ہیں کہ سچ بولو گے۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ نے تو وکیلوں کی طرح جرح شروع کی۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟

عارف الحق عارف:ہم نے یہ انداز اس لیے اختیار کیا کہ ایک تو ہم سوال کی عبارت کے رسم الخط سے اس کے لکھنے والے کو پہچان چکے تھے۔ دوسرے ہم چھے سال سے اعلیٰ عدالتوں کی رپورٹنگ کررہے تھے اور بڑے بڑے ہائی پروفائل مقدمات میں وکیلوں کی جرح کو دیکھ اور رپورٹ کرچکے تھے۔ اس لیے ہم جرح کی تکنیک سے واقف تھے۔ اس لیے اس طریقے کو اختیار کیا۔ ہم نے اُس سے سوال جواب شروع کردیے۔ ہمارا پہلا سوال تھا ’’تم کیا کرتے ہو؟‘‘ اُس نے اونچی آواز میں بڑے طمطراق سے کہا ’’جی میں صحافی ہوں۔‘‘ ہمیں خوشی ہوئی کہ اپنی برادری کا بندہ ہے۔ ہمارا اگلا سوال تھا ’’کس اخبار میں کام کرتے ہو؟‘‘ اُس نے جواب دیا کہ وہ روزنامہ ’’وفاق‘‘ راولپنڈی میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ ہم نے اِس کا ثبوت مانگا تو اُس نے ادارے کا شناختی کارڈ دکھا دیا۔ واقعی اس کا کارڈ اصلی تھا۔ اب ہمیں اُس سے سوال جواب کرتے ہوئے مزہ آرہا تھا، تاہم اپنی صحافتی شناخت صیغۂ راز ہی میں رکھی اور بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’روزنامہ وفاق کے مالک غالباً مصطفیٰ صادق ہیں اور راولپنڈی ایڈیشن کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اُن کے بیٹے وقارالمصطفیٰ ہیں؟‘‘ یہ سن کر اُس کی آواز تھوڑی دھیمی پڑی۔ اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ تو اخبار کے مالک کو بھی جانتے ہیں۔ بہرحال اُس کا انداز اب بھی جارحانہ تھا۔ ہم نے کہا’’تم نے بتایا تھا کہ لانڈھی سے آئے ہو، جب کہ کام تو پنڈی میں کرتے ہو۔ کراچی میں یقیناً رشتے داروں سے ملنے کے لیے آئے ہوگے۔ تمہیں اس کام پر کس نے لگا دیا؟ تم تو کراچی میں مہمان ہو۔‘‘ اس نے کہا ’’مجھے میرے ماموں نے بھیجا ہے۔‘‘ اب ہم نے فیصلہ کیا کہ اُس کے جھوٹ اور سچ کو اُس کی زبان سے دو اور دو، چار کی طرح کھول کر مفتی صاحب کے سامنے رکھ دیا جائے۔ چناں چہ سیدھا سوال کیا ’’سچ سچ بتاؤ۔ اگر میں تم سے کہوں کہ تم لانڈھی سے نہیں آئے تو تمہارا کیا جواب ہوگا؟‘‘ وہ پہلے تو کچھ دیر اپنی بات پر اَڑا رہا لیکن جب ہم نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور کہا ’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم ہرگز لانڈھی سے نہیں آئے‘‘، تو وہ گڑبڑا گیا۔ پھر ہم نے یہ سوال پوچھ کر تو گویا اُس کا سارا کروفر ہی نکال دیا ’’بھائی! تم کب تک جھوٹ بولو گے؟ تمہارے سوال کی تحریر خود بتا رہی ہے کہ اسے آدھا گھنٹہ پہلے لکھا گیا ہے۔ ابھی تو اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی۔ آدھے گھنٹے میں تو کوئی شخص تیز رفتار کار میں اس رش کے وقت لانڈھی سے یہاں نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں پہنچنے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ اب تم سچ سچ بتاؤ، کہاں سے آئے ہو اور تمہیں کس نے بھیجا ہے؟‘‘ اس پر وہ بری طرح چکرا گیا مگر جگہ اور بھیجنے والے کا نام بتانے سے پھر بھی گریزاں ہی رہا۔ تاہم اب اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ چکا تھا اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اُس کا راز فاش ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب کے لیے ہمارا نوجوان سے یوں سوال کرنا اور وکیل کی طرح جرح کرنا بڑا حیران کن تھا۔ وہ اس صورتِ حال پر حیران تھے مگر ساتھ ساتھ اس سے لطف بھی لے رہے تھے۔ جب ایک بار پھر اُس نے سچ بتانے سے پہلوتہی کی کوشش کی تو ہم نے اُس سے آخری اور فیصلہ کن سوال کردیا ’’اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم کہاں سے آئے ہو اور تمہیں کس نے بھیجا ہے۔‘‘ پھر کہا ’’تم جہاں سے آئے ہو اگر کوئی نوجوان وہاں سے موٹر سائیکل پر یہاں آئے تو پانچ منٹ میں، تیز قدموں سے پیدل چلے تو پندرہ منٹ میں، اور اگر آرام سے چلے تو بیس، پچیس منٹ میں بآسانی پہنچ سکتا ہے اور یہ تحریر ٹھیک آدھا گھنٹہ پہلے لکھی گئی ہے۔‘‘ اب وہ حیرت سے ہمارا منہ دیکھ رہا تھا۔ ہم نے مزید کہا ’’ہم تمہیں وہ جگہ اور اُس شخص کا نام بھی بتا سکتے ہیں جس نے تمہیں یہ تحریر لکھ کر دی اور اس ’’نیک‘‘ کام پر لگایا۔ تم بی ہائینڈ جیکب لائن میں اُس جگہ سے آئے ہو جہاں لبِ سڑک حبیب بنک قائم ہے۔ اسی بلڈنگ میں ایک دفتر ہے جہاں ایک پڑھا لکھا شخص بیٹھا ہے۔ اُس کا نام بھی بتادیا اور بتایا کہ اسی نے یہ سوال لکھا اور تمہارے حوالے کیا ہے۔ یہ تحریر اسی کی ہے۔‘‘ اس پر مفتی صاحب اور نوجوان، دونوں پر گویا حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ نوجوان نے فوراً ساری باتیں قبول کرلیں اور شرمندہ ہوتے ہوئے کہا ’’جی آپ سچ کہہ رہے ہیں، میں اُن کے کہنے میں آگیا تھا۔‘‘ اس نے بڑی کوشش کی کہ ہم اپنا تعارف کرا دیں لیکن ہم نے اپنا نام نہیں بتایا اور مفتی صاحب کو بھی اشارے سے منع کردیا کہ وہ بھی نہ بتائیں۔ یوں وہ نوجوان اپنے منصوبے میں ناکام ہوکر واپس چلا گیا۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ نے بڑی حکمت اور وکیلوں کی طرح جرح کرکے سچ اگلوا لیا۔ پھر کیا ہوا؟ قارئین کے لیے مزید تفصیل بتائیں۔

عارف الحق عارف:مفتی صاحب بڑے حیران تھے کہ ہم نے کس طرح یقین کے ساتھ اُس کو سچ بولنے پر مجبور کیا۔ وہ تھوڑی دیر بعد بولے ’’دیکھو! ابھی تو ہم نے بڑی حکمت سے اس نوجوان کو ٹال دیا ہے، لیکن فتنہ اٹھانے کے خواہش مند چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وہ دوسرے علماء کے پاس جائیں گے اور فتویٰ لے کر اخبارات میں شائع کرا دیں گے۔ اس کا کوئی مؤثر حل نکالنا چاہیے۔‘‘ پھر انہوں نے خود ہی تجویز کیا کہ اگر مولانا مودودی خود اِس انٹرویو کے متنازع حصے کی تفصیل سے وضاحت کردیں تو فتنے کو بپا ہونے اور بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہم نے اس سوال کی فوٹو کاپی لی اور ادارہ معارف اسلامی، فیڈرل بی ایریا میں سیّد منورحسن صاحب کے پاس پہنچے، جو اُس وقت ادارے کے ڈائریکٹر تھے، اُنہیں اِس واقعے کی پوری تفصیل بتائی اور مفتی ولی حسن کا پیغام پہنچایا کہ مولانا سے بات کرکے وضاحتی بیان جاری کیا جائے۔ سیّد منور حسن نے اُسی وقت اچھرہ، لاہور فون کیا۔ تھوڑی دیر بعد مولانا لائن پر تھے۔ سیّد منورحسن نے انہیں واقعے کی تفصیل بتائی اور سوال پڑھ کر سنایا، جس کے جواب میں مولانا نے وضاحت کی کہ ’’یہ انٹرویو کوئی ڈھائی تین گھنٹے کا تھا جس کو ایڈٹ کرکے مختصر کردیا گیا۔ اس مذکورہ سوال سے متعلق میری بات پوری طرح نشر نہ ہوسکی۔‘‘ انہوں نے مفتی ولی حسن صاحب کی بات سے اتفاق کیا کہ وضاحت جاری ہونی چاہیے۔ تاہم اُنہوں نے کہا ’’میری طرف سے مفتی ولی حسن کو سلام کہیں، ان کا شکریہ ادا کریں اور ان ہی سے عرض کریں کہ وہ خود پورا واقعہ لکھ کر اس کی وضاحت شائع کرا دیں۔ میری طرف سے ان کو اجازت ہے۔‘‘ مولانا نے ان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کردیا تھا۔ چناں چہ ہم یہ ہدایات لے کر دوبارہ بنوری ٹاؤن آئے جہاں مفتی صاحب نے مولانا مودودی کی طرف سے وضاحتی بیان لکھا جو ہم نے دوسرے دن روزنامہ جنگ کے پہلے صفحے پر شائع کردیا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ بات اب ختم ہوگئی ہے لیکن جب دوسرے دن شام کو دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ 43بریلوی علمائے کرام نے اسی استفتیٰ پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جو دوسرے دن کے اخبارات میں شائع ہوا۔ اسی دن کے اخبار جنگ میں بھی اندر کے صفحے پر ان کا یہ بیان شائع کیا گیا تھا۔ اصل میں دیوبندی علمائے کرام کا بیان حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد بریلوی علماء سے مشترکہ بیان حاصل کرلیا گیا تھا۔ مولانا کی وضاحت سے واقعی یہ معاملہ دب گیا اور زیادہ نہ پھیل سکا، اسی وجہ سے دیوبندی علماء سے فتویٰ یا کوئی مشترکہ بیان بھی جاری نہ ہوسکا جس میں ہماری بھی حقیر سی کوشش شامل تھی۔

فرائیڈے اسپیشل: اس کے بعد بھی کیا آپ کا رابطہ مفتی صاحب سے رہا؟

عارف الحق عارف:مفتی ولی حسن سے ہمارا رابطہ اُن کے انتقال تک جاری رہا۔ اور جب بھی اس واقعے کا ذکر آتا تو اُن کو ساری باتیں یاد آجاتیں اور کہتے کہ اُس دن تو تم نے کمال کردیا تھا اور اپنی ذہانت سے ملک کو، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کو ایک بڑے فتنے سے بچا لیا تھا۔ مفتی ولی حسن شدید بیمار ہوئے اور کئی سال تک بستر تک محدود ہوگئے۔ وہ دوسروں کی باتیں سن سکتے تھے لیکن بول نہیں سکتے تھے۔ ہم جب بھی اُن کے پاس عیادت کے لیے جاتے تو اُن سے اور باتوں کے علاوہ اس واقعے کا بھی ذکر کرتے تو اُن کی آنکھوں میں چمک آجاتی اور وہ خوش ہوکر مسکرانے کی کوشش کرتے۔