”سی پیک ،مواقع اور چیلنجز“

آئی آرایس پشاور کے زیر اہتمام گول میز مباحثے کاانعقاد

انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز(آئی آرایس) پشاور کے زیراہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد کے اشتراک سے ”سی پیک، مواقع اور چیلنجز“ کے موضوع پر منعقدہ گول میز مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ سی پیک پاکستان کی تعمیر اور ترقی کا پراجیکٹ ہے جسے پاکستان دشمن قوتیں ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہیں، ایک سی پیک کوریڈور کے مقابلے میں دہشت گردوں کے سات کوریڈور کام کررہے ہیں جن کا مقصد علاقائی ترقی کے اس اہم منصوبے سی پیک کو ناکام بنانا ہے۔ موجودہ دور اقتصادی ترقی کا دور ہے جس میں علاقائی تعاون بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یورپی یونین، آسیان اور شنگھائی تعاون تنظیم سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ اینی شئیٹو (بی آر آئی)کی کامیابی کے لیے بہترین ماڈل ہیں۔

یہ مباحثہ پشاور یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر، ڈین سوشل سائنسز اور چائنا اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر زاہد انور کی زیر صدارت قاضی حسین احمد آڈیٹوریم میں منعقد ہوا، جب کہ اس کے دیگر مقررین میں پشاور یونیورسٹی کے سابق ڈین اور انٹرنیشنل ریلیشنز ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عدنان سرور، قرطبہ یونیورسٹی پاکستان اسٹڈی ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر غلام قاسم مروت، آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل، انجینئر عزیزالحق اور سیکنڈری بورڈ پشاور کے سابق چیئرمین اور آئی آر ایس کے ڈپٹی چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی شامل تھے۔

سیمینار کا آغاز قاری عبداللہ کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ مقررین نے کہا کہ چین ہمارا آزمودہ دوست ہے اور وہ سی پیک کی شکل میں پاکستان میں 55ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری کررہا ہے وہ پاکستان سے اُس کی دوستی کا عملی اظہار ہے، سی پیک کی ناکامی کے لیے دشمن قوتیں جو سازشیں کررہی ہیں ہمیں اُن کو سمجھنا ہوگا اور دشمن کے عزائم ناکام بنانے کے لیے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھنا ہوں گے۔ مقررین نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے 20ہزار طلبہ چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں جو پاک چین دوستی کا ثبوت ہے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ چین نے کبھی بھی پاکستان کا برا نہیں چاہا، اور نہ ہی اُس نے کبھی پاکستان کو آزمائش میں تنہا چھوڑا ہے، جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے دیرینہ اتحادی امریکہ نے کئی مواقع پر پاکستان کو دھوکا دیا ہے اور اس پر اقتصادی پابندیاں تک عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ پشاور کابل موٹروے سی پیک کا حصہ ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی سرحدوں کو تجارت کے لیے نرم کرنا چاہیے انہیں زمینی حقائق اور دشمن کے عزائم کا ادراک نہیں ہے۔ مقررین نے کہا کہ خیبر پختون خوا کے لیے سی پیک میں ترقی کے کئی امکانات ہیں البتہ ہمارے بعض خودغرض اور مفاد پرست راہنما اس اہم پروجیکٹ کو اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں جس پر چین کو بھی تحفظات ہیں، لہٰذا اس اہم منصوبے سے تبھی کوئی بڑا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب اس میں چھوٹے اور بڑے صوبے کا فرق روا رکھے بغیر غربت و پسماندگی کے اجتماعی ازالے کو پیمانہ بنایا جائے۔

چین کے ساتھ ہمیں ثقافتی اور سماجی اختلافات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور اس حوالے سے ان دوریوں کے خاتمے کے لیے دو طرفہ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ایک مقرر نے کہا کہ ہمیں شمال جنوب کے طویل اور غیر فطری سی پیک روٹ کے ساتھ ساتھ مشرق مغرب کی 18 سے زائد قدرتی گزرگاہوں کو بھی تجارتی مقاصد کی خاطر کھولنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیکورٹی اور جیو پالیٹکس نقطہ نظر کے بجائے دو طرفہ تعلقات کے فروغ میں اقتصادی اور تجارتی مقاصد اور مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی استدلال تھا کہ مشرق و مغرب کے درمیان آمد و رفت اور ان گزرگاہوں کے ذریعے پانچ ہزار سال سے تجارت ہوتی رہی ہے، یہ روٹس مشرق میں بھارت اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک، اور مغرب میں افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے ان روٹس کو ملک روٹس (Milk Routes)کا عنوان دیتے ہوئے کہا کہ یہ راستے صدیوں سے مال مویشیوں اور سامانِ تجارت کی آمد و رفت کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، لہٰذا سی پیک کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کی فعالیت پر بھی وسیع تر قومی مفاد میں کام کرنا چاہیے۔

مباحثے کے آخر میں سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی جس میں مقررین نے شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے۔ جب کہ آخر میں آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے مقررین کو آئی آر ایس کی یادگاری شیلڈز پیش کیں۔

دریں اثناء میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ دنوں وفاقی وزیر منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال کی زیر صدارت اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور 2.0 کے روڈمیپ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفاقی وزیر نے تمام وزارتوں کو اگست 2023ء میں چین کے صدر شی جن پنگ کے تجویز کردہ 5 کوریڈورز پر جلد از جلد کنسپٹ پیپرز تیار کرنے کی ہدایت دی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومتِ پاکستان اور چین نے سی پیک فیز 2 کے تحت ان پانچ اقتصادی راہداریوں پر جلد از جلد کام شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ سی پیک فیز 2 کے تمام منصوبے ان پانچ نئے کوریڈورز کے مطابق تیار کیے جائیں۔ ان پانچ نئے کاریڈورز میں گروتھ، لائیولی ہوڈ، انوویشن، گرین ریولیوشن، اور ریجنل کنیکٹیویٹی شامل ہیں۔ یہ پانچوں کوریڈورز پاکستان کی اقتصادی ترقی کے فریم ورک”فائیو ای ایز“ سے مطابقت رکھتے ہیں۔

کوریڈور برائے لائیولی ہوڈ کے تحت عوام کو بہترین سہولیات فراہم کرنا اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنا شامل ہے۔ انوویشن کوریڈور کے تحت جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نئے منصوبوں کا انعقاد اور نوجوانوں کو آئی ٹی میں مہارت دینا شامل ہے۔ اوپن ریجنل کوآپریشن کے تحت سی پیک کو وسطی ایشیا سے روابط کے فروغ اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے ہدایت دی کہ اگست کے آخر تک ان پانچ کوریڈورز پر جامع دستاویز تیار کی جائے۔ مزید یہ کہ تمام وزارتیں سی پیک پورٹ فولیو کے تحت پانچ سالہ منصوبے تیار کریں جنہیں مشترکہ ورکنگ گروپ میں پیش کیا جائے، تاکہ انہیں آئندہ جی سی سی میں سی پیک کے دائرہ کار میں شامل کیا جا سکے۔ پروفیسر احسن اقبال نے ہدایت دی کہ ستمبر میں زیادہ سے زیادہ جوائنٹ ورکنگ گروپس کے اجلاس منعقد کیے جائیں۔ ان منصوبوں کا مقصد صنعتی و تجارتی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہونا چاہیے۔

پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ طویل المدتی منصوبوں کو ہر شعبے کے لحاظ سے بریک اپ کرکے ورکنگ گروپس میں شامل کیا جائے، اور یہ کہ تمام وزارتیں اگلے پندرہ دنوں میں سی پیک کے باقاعدہ پلان تیار کرکے پیش کریں۔ مشترکہ ورکنگ گروپ کے ایجنڈے اور مجوزہ منصوبوں کے انتخاب کے لیے ہفتہ وار میٹنگز منعقد کی جائیں۔ اجلاس میں سیکرٹری منصوبہ بندی جناب اویس منظور سمرا سمیت متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز، اداروں کے سربراہان اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔