وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سلسلہ وار دہشت گردی کا
مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کو ناکام بنانا ہے
ملک میں ایک نئی تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے۔ چودھری شجاعت حسین کی سیاست دانوں سے ملاقاتیں بلاوجہ نہیں ہورہی ہیں۔ ابھی تک ان ملاقاتوں کا حتمی نتیجہ نہیں نکلا، تاہم جس نکتے پر بات چیت ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملکی مسائل کا حل تلاش کریں۔ ہوسکتا ہے یہ سیاسی پیش رفت کسی بھی طرح آئینی چھتری تلے ملکی حالات کے پیش نظر قومی حکومت کی جانب بڑھ جائے، تاہم فی الحال بات بلوچستان سے شروع کرتے ہیں۔ وزارتِ داخلہ نے سینیٹ میں بلوچستان میں سلسلہ وار دہشت گرد حملوں کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ ان حملوں کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے اگلے سربراہی اجلاس کو ناکام بنانا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یہ اجلاس اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے، لیکن ان حملوں کو شنگھائی تعاون تنظیم سے جوڑنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ حکومت نے اس معاملے کو کس قدر سنجیدگی سے دیکھا ہے۔ لیکن ملک کی وزارتِ داخلہ کی اپنی تنظیم سازی میں کیا کیا خامیاں ہیں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی، اور ملک کی خارجہ پالیسی تو 5 اگست 2019ء کو اپنے سارے رنگ دکھا چکی ہے۔ بھارت بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ملک ہے، تاہم اُس نے ابھی تک کانفرنس میں شرکت کی تصدیق نہیں کی۔ 2016ء سے اب تک پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنسوں میں بھارت نے کبھی شرکت نہیں کی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اگر بھارت شریک ہوا تو سمجھا جائے گا کہ اُس نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ خود ہی کھول دیا ہے۔
’علاقائی دہشت گردی‘ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ علاقائی دہشت گردی کو بھڑکانے کے لیے بھارت اور اُس کے گماشتوں کی افغانستان میں سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ افغانستان بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہے لیکن طالبان کی حکومت کو اس کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ ابھی تک یہ بات طے نہیں ہوسکی کہ شنگھائی تعاون تنظیم افغانستان کے ساتھ کیسے بات چیت کرے؟ پاکستان بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی افغان طالبان کی پیش کش کو مسترد کرچکا ہے۔ بہرحال اس کانفرنس میں بلوچستان میں حالیہ حملے ضرور زیرِبحث آئیں گے۔
علاقائی امن کے لیے بھارت کا رویہ ایک رکاوٹ ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ امکان انتہائی کم ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں محض بات چیت سے زیادہ کچھ ہوگا۔ پاکستان کے علاوہ بھارت کا چین کے ساتھ بھی ٹکرائو ہے جس کی بنا پر وہ بیجنگ کی زیرِقیادت کسی بھی تنظیم کی حمایت کرنے میں کترا رہا ہے۔ اس تنظیم کے حوالے سے نئی پیش رفت یہ ہے کہ بیلاروس جولائی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بنا ہے، ترکیہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت پر غور کررہا ہے، جبکہ تنظیم خود بھی یورپ میں ہنگری کو رکن بنانے پر غور کررہی ہے۔ اس وسعت کا مقصد ڈالر پر انحصار کو کم کرنا ہے۔ اس کے بعد مستقبل کا ممکنہ نقشہ یہ بن رہا ہے کہ جیسے جیسے چین اور روس گلوبل ساؤتھ کے ممالک تک رسائی حاصل کررہے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے جس میں اسے معیشت، بڑھتی ہوئی مایوسی، حکومتی رٹ پر عوامی عدم اعتماد سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، اور مسائل ہیں کہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ حکومت کی مسائل حل کرنے کی کم ہوتی صلاحیت اس سے کہیں بڑا چیلنج ہے۔ فاٹا، بلوچستان، اور پنجاب میں کچے کا علاقہ ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ بلوچستان شدید خطرات کا سامنا کررہا ہے۔ سیاسی پسماندگی بڑھ رہی ہے، خیبرپختون خوا کے قبائلی علاقوں میں جاری جان لیوا جھڑپوں کا دائرہ اب ڈیرہ غازی خان، مردان اور سوات تک پھیل چکا ہے۔ بالائی سندھ اور جنوبی پنجاب کے دریائی کناروں پر بھی صورتِ حال تشویش ناک ہے۔ ان علاقوں پرغیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کا راج ہے، جبکہ وہ اپنی سرگرمیوں کو توسیع دے رہے ہیں۔ ملک کا عدالتی نظام انصاف دینے سے قاصر دکھائی دے رہا ہے، گورننس کا پورا ڈھانچہ ہی ایک سوال بنا ہوا ہے۔ حکومت نے کسی حد تک اصلاحات کی کوششیں کی ہیں لیکن بیوروکریسی نے انہیں کامیابی سے ناکام بنادیا ہے۔
جمہوریت عوام کی حکومت کا نام ہے، تاہم انتخابی نتائج کسی اور کے ہاتھ میں ہیں جس نے عوام کی پرچی کے نتائج کوڑے دان میں پھنک کر ایک کمزور سویلین سیٹ اَپ عوام پر مسلط کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن اس کی پشت پر ہے۔ نتیجتاً موجودہ حکمرانوں اور اُن کی سرپرستی کرنے والے اداروں کی قنانوی اور اخلاقی جواز کا فقدان ہے، جبکہ انہیں عوام کی سرپرستی اور حمایت بھی حاصل نہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ معیشت، سلامتی، انصاف اور خدمات کی فراہمی کے مسائل پر پیش رفت صرف اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب ریاست کے بنیادی تنظیمی انتظامات کو نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی جواز بھی حاصل ہو۔ آج اداروں کے پاس اس کی کمی ہے اور عوام کی سرپرستی بھی حاصل نہیں۔کسی بھی ریاست کا بنیادی قانون، اس کا آئین ہوتا ہے۔ آئین کے نفاذ سے ہی نظام کی قانونی ساکھ بحال ہوگی۔
عدالتی فیصلوں کو نقصان پہنچانے اور عدالتوں میں اپنے منتخب کردہ جج بھرتی کرنے کے مقصد سے اب پارلیمنٹ میں ترامیم لانے کی کوشش کی جاری ہے۔ سپریم کورٹ انہیں آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی قرار دے کر روک سکتی ہے لیکن اس سے ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان تعطل پیدا ہوگا۔ یہ بھی اچھی صورتِ حال نہیں ہوگی۔اگر ہم ریاستی معاملات کی بحالی کی بات کرتے ہیں تو یہ دشمنی اور اختلافات کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں اسی پر چلتے ہوئے ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ اسی سر پھٹول میں ملکی معیشت کا حال یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ نے 3 اہم مالیاتی اداروں اسلامک ٹریڈ فنانس کارپوریشن، اسلامی ترقیاتی بنک اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک کو مجموعی طور پر ایک ارب 75 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی فراہمی کی درخواست دی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ان قرضوں سے ضروری اشیا کی خریداری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے خرچ کی جائےگی۔ مجموعی طور پر اسلامک ٹریڈ فنانس کارپوریشن سے اہم اشیا کی خریداری کے لیے 40 کروڑ ڈالر مانگے جا رہے ہیں، جبکہ اسلامی ترقیاتی بنک سے 35 کروڑ ڈالر کی فراہمی کی درخواست کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے ایک ارب ڈالر کے قرض کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔ یہ قرضے طویل مدتی ادائیگی اور تقریباً 5 فیصد کی شرح سود کے ساتھ ملنے کی توقع ہے۔ اس قرضے کی وصولی آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے نئے قرضے کے حصول کی غرض سے مقرر کردہ اہم مالیاتی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔ وزارتِ خزانہ کو کمرشل بنکوں سے زیادہ شرح سود پر قرض لینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ملکی معیشت کی ساری کہانی بجلی کے منصوبوں سے جڑی ہوئی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک میں بجلی کے فی یونٹ نرخ اس خطے کے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ ہوسکتا ہے یہی بات درست ہو، مگر پاکستان کی نصف سے زائد آبادی بجلی کے بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہی، ملک کے بارہ کروڑ عوام بجلی کے بلوں کی وجہ سے پریشان ہے۔ وزیر توانائی کہتے ہیں کہ حکومت آزاد پاور پروڈیوسر کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کررہی ہے تاکہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کیا جا سکے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے ملک میں سماجی بدامنی پیدا کی ہے اور 350 ارب ڈالر کی معیشت میں صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، اس کی انتہائی زیادہ اور ناقابلِ برداشت قیمتوں اور اس کے ساتھ اووربلنگ نے گھریلو، صنعتی اور کاروباری سمیت تمام صارفین کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ مڈل اور لوئر کلاس صارفین کا عرصۂ حیات بری طرح سے تنگ ہوا ہے۔ بجلی کے انتہائی زیادہ بلوں کی وجہ سے کئی لوگ بچوں سمیت خودکشیاں کرچکے ہیں۔ کئی لوگ گھریلو اشیاء بیچ کر بل جمع کروانے پر مجبور ہیں۔ بڑی تعداد میں کاروبار ڈوب رہے ہیں۔ ملک میں بجلی کی قیمتوں کا موجودہ نظام ناقابلِ برداشت ہے۔ اگر یہ نظام ناقابلِ برداشت ہے تو پھر اس کو تبدیل کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ بجلی کے صارفین کے لیے آئی پی پیز پیر تسمہ پا بن چکے ہیں، حکومت کا مؤقف تھاکہ بڑی گارنٹیاں دی گئی ہیں، آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی نہیں ہوسکتی۔ تاہم اب نظرثانی کی بات کی گئی ہے۔ ان کی کس بات پر اعتبار کیا جائے؟ یہ تو طے ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے، خصوصاً کیپیسٹی پیمنٹ مہنگی بجلی کی بڑی وجہ ہے۔ نظرثانی کب ہوگی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس دوران حکومت کم از کم بجلی مزید مہنگی تو نہ کرے۔ ایک طرف پنجاب حکومت کی طرف سے بجلی بلوں میں عارضی ریلیف دیا گیا ہے تو دوسری طرف بجلی مہنگی کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نیپرا مہاراج نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پونے دو روپے یونٹ بجلی مزید مہنگی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بیانات کا لولی پاپ دینے کے بجائے حکومت عوام کو بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، اور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔
تمام صنعتی اور زرعی اشیاء کی مہنگائی کا بنیادی سبب بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ خطے کے دوسرے تمام ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں فی یونٹ بجلی کے نرخ سب سے زیادہ ہیں جس کے باعث ہماری صنعتی اور زرعی پیداوار عالمی منڈیوں میں مسابقت کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے۔ ملک میں تیار اور پیدا ہونے والی متعدد اشیاء کی قیمتیں دوسرے ملکوں سے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ اشیاء ملک میں اسمگل ہوکر آرہی ہیں یا باقاعدہ درآمد کی جارہی ہیں۔ اس صورتِ حال نے تجارتی توازنِ ادائیگی کو مستقل طور پر منفی کررکھا ہے، کیونکہ ہماری برآمدات، درآمدات کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہیں، یعنی ہم خرید زیادہ رہے ہیں اور فروخت کم کررہے ہیں جس کی وجہ سے ملکی اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض پر قرض لینا ہماری مجبوری بن گیا ہے۔ قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ نے ملک کو مسلسل انحطاط سے دوچار کررکھا ہے۔ اس تباہ کن چکر سے نکلنے کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی اور انہیں خطے کے دوسرے ملکوں کی سطح پر لانا ضروری ہے۔