جمہوری راستہ بند ہوجائے تو پھر؟

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’جب یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا،اور جمہوری طریقوں سے صالح تغیر کا راستہ قریب قریب بند کر دیا گیا ہے، اور اگر یہاں کبھی انتخابات بھی ہوئے تو وہ انتہائی بے ایمانیوں اور بددیانیتوں کے ذریعے سے جیتے جاتے رہے ہیں، اور ایسے حالات بھی یہاں پیدا کردیے گئے ہیں کہ اگر مفروضے کے طور پر ہم انتخابات میں کبھی سو فی صدی ووٹ حاصل کربھی لیں، تو صندوقچیوں سے ووٹ ہمارے خلاف ہی برآمد ہوں گے، تو ایسی صورت میں جمہوری ذرائع سے اصلاحِ احوال کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟

یہ صورتِ حال فی الواقع یہاں موجود ہے، لیکن ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیں اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرنی ہے۔ ہمیں اس غرض کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی ہے کہ ہماری اَن تھک محنتوں کے نتیجے میں، انسانوں کا سیلاب اس طرح انتخابات کے مراکز پر اُمڈ آئے کہ اگر کوئی شخص بے ایمانی کرنا بھی چاہے ، تو وہ ایسا نہ کرسکے۔ انقلابی تحریکوں کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب لوگوں کے اندر ایسا عزمِ راسخ پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی طاقت ان کے مطلوبہ نظام کو آنے سے نہیں روک سکتی۔ وہ ہر راستے سے آتا ہے اور ایسے ایسے راستوں سے آتا ہے، جن کو بند کرنے کا خیال بھی کسی کے دماغ میں نہیں آسکتا۔

اس لیے آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ جس نظام کے لیے جدجہد کر رہے ہیں، وہ یہاں کیسے آئے گا؟ آپ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا فرض نہایت خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ ادا کرتے چلے جائیں۔ آپ کی واحد فکرمندی آپ کا وہ کام ہو، جسے آپ کو انجام دینا ہے۔ یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، جو اس نظام کا تقاضا ہے۔

جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں؟ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی، یا اس کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے، جو کسی درجے میں بھی نظم کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہدکرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگا، وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں، آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، آپ کے اندر نظمِ جماعت کی اطاعت پائی جاتی ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں۔ چاہے یہ کام آپ کو برسوں بھی کرنا پڑے، لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت اس ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔

[۳۱مارچ، ۱۹۷۴ء، لاہور]