قصۂ یک درویش! ڈھاکہ میں عبدالمالک کی شہادت

اٹھائیسویں قسط

عبدالمالک 13اگست1969ء کو زخمی ہوئے اور 15 اگست کو اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاکر جام شہادت نوش کر گئے۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم مجاہد اور زندۂ جاوید شہید کی قبر کو نور سے بھر دے۔ اس نے البدر اور الشمس کے جیالے مجاہدین کے لیے روشنی کا مینار تعمیر کردیا تھا جنھوں نے وطن (پاکستان) کے دفاع کے لیے ایک تاریخ رقم کردی۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ وطن کا دفاع کرنے والے ان سپوتوں (رضاکاروں) کو بنگلہ دیش حکومت نے تو گردن زدنی قرار دیا ہی تھا، مگر سرزمینِ پاک جس کے لیے انھوں نے بے لوث قربانیاں دیں، اس نے بھی ان کی قدر نہ کی۔ یہاں کے کئی نام نہاد دانشور ان کو باغی اور دہشت گرد تک قرار دیتے رہے ہیں۔ کس اصول کے تحت؟ اس کا کوئی معقول جواب ان کے پاس نہیں ہے۔

قدرت کا کمال دیکھیے کہ ان سطور کی ایڈیٹنگ کے موقع پر اگست 2024ء کے آغاز میں طویل عرصے کی بدترین آمریت اور ظلم و ستم، جعلی عدالتوں کے ذریعے بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے، نیز ہزاروں بنگالیوں کا قتلِ عام کرنے والی ظالم حسینہ واجد عبرت ناک انجام کو پہنچ گئی، اس کے خلاف نوجوان اور طلبہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سروں پر کفن باندھ کر اٹھ کھڑے ہوئے تو دنیا کو بہت سے جعلی تصورات اور جھوٹے، لغو الزامات پر قائم آمریت کی اصلیت و حقیقت معلوم ہوئی۔ اب ہر نوجوان کی زبان پر تھا ’’میں کون، رضاکار! تُو کون، رضا کار! ہم سب کون، رضا کار!‘‘ اسی دھرتی پر رضاکار کو غدار اور گردن زدنی قرار دیا گیا تھا، آج یہی لفظ عزت کی پہچان اور وقار کا نشان بن چکا ہے۔ مکتی باہنی کے مقابلے پر ڈٹ کر ملک کی سالمیت کا دفاع کرنے والے تنخواہ یافتہ کارندے نہیں بلکہ رضاکار تھے جو غدار اور گردن زدنی قرار پائے۔ بنگلہ دیش میں حکومت اور ذرائع ابلاغ نے لفظ رضاکار کو ایک بدترین گالی کا ہم معنی بنادیا تھا۔

عبدالمالک کی شہادت پر اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے اور شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ لاہور میں 17اگست 1969ء اتوار کے دن مولانا مودودیؒ کے درسِ قرآن (مبارک مسجد) کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق ناصر باغ میں غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہماری درخواست پر میاں طفیل محمد صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی تھی۔ نمازِ جنازہ کے بعد بطور ناظم لاہور جمعیت میں نے اور کئی دیگر مقررین نے عبدالمالک شہید کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ چند ایام کے بعد بوقتِ عصر لاہور جمعیت کے دفتر سعید منزل کی چھت پر ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے سے راقم الحروف اور جمعیت کے اُس وقت کے ناظم مشرقی پاکستان برادرم مطیع الرحمٰن نظامی (شہید) نے خطاب کیا۔ یہ جلسہ 20 یا 21 اگست کو منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے میں کی جانے والی تقریر کی بنیاد پر مجھے ستمبر کے وسط میں وولنر ہاسٹل سے عجیب ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا گیا۔

میں اُن دنوں ایم اے عربی کا امتحان دے رہا تھا اور ہمارے بزرگ ساتھی محترم (پروفیسر) نصیرالدین ہمایوں بھی ایکسٹرنل طالب علم کے طور پر اسی سال ایم اے کا امتحان دینے پاکپتن سے لاہور آئے ہوئے تھے۔ وہ ہاسٹل میں میرے پاس رہ رہے تھے۔ میری گرفتاری کے وقت وہ میرے کمرے میں موجود تھے۔ یہ گرفتاری نہایت دلچسپ اور سنسنی خیز تھی۔ مختصراً عرض ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک اجنبی شخص میرے کمرے میں آیا اور دعا سلام کے بعد کہا کہ حافظ ادریس صاحب! مجھے آپ کے پاس بابو غلام علی صاحب نے بھیجا ہے۔ میری بچی کا یونیورسٹی میں ایک مسئلہ ہے۔ وہ باہر سڑک پر کھڑی ہے۔ مسئلے کی تفصیل وہی بتا سکتی ہے۔ بابو صاحب نے کہا کہ حافظ محمد ادریس میرا عزیز اور وہاں طلبہ کا لیڈر ہے۔ اس سے جاکر ملو۔ میں نے کہا بچی کو جاکر ساتھ لے آئو، میں بات سن لوں گا، اگر میرے لیے ممکن ہوا تو میں کام کروا دوں گا ورنہ آپ کو رہنمائی اور مشورہ دے دوں گا۔ وہ کہنے لگا کہ وہ دونوں ماں بیٹی پردہ دار خواتین ہیں، ہاسٹل میں آنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ آپ مہربانی فرمائیں، میرے ساتھ چلیں اور بچی کی بات سن لیں۔

بابو غلام علی صاحب جن کا حوالہ دیا گیا تھا، ہمارے گائوں کے بزرگ رہائشی، ریلوے سے ریٹائرڈ ایک اسٹیشن ماسٹر تھے اور دُور کے رشتے میں میرے والد صاحب کے ماموں لگتے تھے۔ میں اس شخص کے ساتھ چل پڑا۔ جوں ہی ہاسٹل کے بیرونی دروازے سے میں باہر آیا تو سڑک پر دونوں جانب مغرب اور مشرق میں پولیس کے جوان اور افسران اپنی گاڑیوں سمیت گھیرا ڈالے ہوئے چاق چوبند کھڑے تھے۔ میں نے اس اجنبی سے کہا ’’ارے بدبخت جھوٹے! جو ڈرامہ تُو نے رچایا اس کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے وارنٹ دکھاتے تو میں خود کو گرفتاری کے لیے بغیر کسی حیل و حجت کے پیش کردیتا۔‘‘ اس پر اُس نے آہستگی سے معذرت کرتے ہوئے کہا: ’’جناب! برا نہ منائیں، میں معافی چاہتا ہوں، یہ میری پیشہ ورانہ ذمہ داری اور مجبوری ہے۔‘‘

گرفتاری کے بعد مجھے نئی انارکلی تھانے لے جایا گیا۔ مجھے گرفتار کرنے کے لیے پتا نہیں کیوں بہت بڑی گارد اور کئی گاڑیاں آئی تھیں۔ مجھے اس گرفتاری کے وقت کسی قسم کا ڈر نہیں تھا۔ مجھے صرف اپنے امتحان کی فکر تھی جس کے دو پرچے ہوچکے تھے اور پانچ باقی تھے۔ اگلے روز صبح کے وقت تیسرا پرچہ تھا۔ اس بات کا افسوس تھا کہ میں اپنی کتب اور کاپیاں ساتھ نہ لا سکا۔ نئی انارکلی تھانے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس غلام محمد خاں نیازی بڑی خندہ پیشانی سے ملے اور میری گرفتاری کے سبب (تقریر) پر بڑا افسوس کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ موصوف محکمہ پولیس کے اُن چند افسران اور کارندوں میں سے تھے جن کے اندر انسانی شرافت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار موجود تھیں۔

میری گرفتاری کے واقعے سے چند روز قبل اسلامیہ کالج سول لائنز کے سات آٹھ طلبہ گرفتار ہوئے تھے۔ یہ بی اے کا امتحان دینے والے وہ طلبہ تھے جو ایک مشکل پرچے (غالباً معاشیات) سے واک آئوٹ کر گئے تھے اور امتحانی مرکز (بخاری آڈیٹوریم گورنمنٹ کالج لاہور) کے شیشے توڑنے کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ انھیں گرفتاری کے بعد جیل میں باقی ماندہ پرچے دینے کی اجازت نہ ملی تھی حالاںکہ ان کے والدین نے خاصی بھاگ دوڑ کی تھی اور یہ دلیل بھی دی تھی کہ مذکورہ پرچے کے کئی سوال آئوٹ آف کورس تھے۔ مجھے بھی یہی خدشہ لاحق تھا کہ میرے باقی ماندہ پرچے نہیں ہوسکیں گے اور میری محنت کے دو قیمتی سال ضائع ہوجائیں گے۔

جنرل امیر عبداللہ خان نیازی (ڈھاکہ والے) اس دور میں صوبہ پنجاب کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ جونہی میری گرفتاری کی خبر شہر میں سینہ بہ سینہ پھیلی، حوالات میں ملنے کے لیے آنے والے احباب کا تانتا بندھ گیا۔ بارک اللہ خاں بھی ملنے کے لیے تشریف لائے اور وعدہ کیا کہ امتحان کی اجازت ہر حال میں حاصل کرلیں گے۔ اورینٹل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر صاحب کا پیغام بھی ملا کہ وہ اس مسئلے پر خاصی تگ و دو کررہے ہیں۔ پرچہ 8بجے سے 11بجے تک ہوا کرتا تھا۔ اگلے روز طلبہ اور شہریوں کا ایک وفد اس موضوع پر جنرل نیازی سے ملنے اُن کے دفتر گیا۔ کیس چوںکہ مارشل لا کے تحت تھا اس لیے فیصلہ بھی وہیں سے ہونا تھا۔ دس بج گئے اور امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی۔

مجھے اس وقت ایک ایک لمحہ پہاڑ لگ رہا تھا اور میں بیم ورجا کے عالم میں درود شریف اور تلاوت سے دل کی اداسی دور کرنے میں مشغول تھا۔ میں چوںکہ بی اے میں گولڈ میڈلسٹ تھا اس لیے نیازی صاحب سے ملنے والے وفد نے اسی پہلو پر زور دیا کہ ایک ہونہار اور گولڈ میڈلسٹ طالب علم کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ جنرل نیازی صاحب نے پہلے تو اپنے مخصوص آمرانہ لہجے میں کہا: ’’امتحان اور مستقبل کو بھول جائو، تمھیں معلوم نہیں ہے کہ ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے اور ایک طالب علم کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اس دور میں حکومت کے خلاف تقریریں کرتا پھرتا ہے۔‘‘

بارک اللہ خاں اور محمد یوسف خاں صاحب نے دانش و حکمت کے ساتھ نیازی صاحب سے مزید گفتگو کے نتیجے میں ان کو کسی حد تک نرم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس پر جنرل صاحب نے فرمایا: ’’مجھے زبانی اور تحریری بھی حلف دو کہ وہ گولڈ میڈلسٹ ہے، اور اگر یہ ثابت ہوا کہ تمھارا دعویٰ غلط ہے تو اس کا خمیازہ کسی اور کو نہیں، تم دونوں کو بھگتنا پڑے گا۔‘‘ چناں چہ حلف دیا گیا اور اس کے بعد نیازی صاحب نے اپنے معاون (اے ڈی سی) سے کہا کہ وی سی پنجاب کے نام آرڈر لکھو کہ اس طالب علم کے امتحان کا اہتمام اسیری کی حالت میں کیا جائے۔ ساڑھے دس گیارہ بجے کے درمیان شعبہ فارسی کے استاد پروفیسر غلام جیلانی صاحب تھانے میں تشریف لائے اور سربمہر لفافے میں سے پولیس سپرنٹنڈنٹ صاحب کی موجودگی میں امتحانی پرچہ نکالا۔ پولیس کپتان کا دفتر امتحانی سینٹر قرار پایا اور جیلانی صاحب میرے سپرنٹنڈنٹ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ اس پرچے کے بعد میرے باقی کے پرچے امتحانی شیڈول کے مطابق جیلانی صاحب نے کیمپ جیل میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کے آفس میں لیے۔

اس امتحان کا نتیجہ میری رہائی کے ڈیڑھ دو ماہ بعد آیا۔ اس میں مَیں نے اللہ کے فضل سے یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل کا مستحق ٹھیرا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ محترم پروفیسر جیلانی صاحب میری گرفتاری پر بہت افسردہ اور پریشان تھے۔ مجھ سے ملے تو یوں جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کی گرفتاری پر پریشان ہو، مگر مجھے ہشاش بشاش دیکھ کر اُن کو بھی اطمینان ہوگیا۔ آپ ایک طویل قامت بزرگ علمی شخصیت تھے جو جناح کیپ اور شیروانی میں ملبوس ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا ’’سر! اب کوئی پریشانی نہیں۔ مجھے اگر فکر تھی تو اپنے امتحان کی، اس کے سوا کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘ اس پر پروفیسر صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور مجھے دعائیں بھی دیں۔ (میں بھی ہمیشہ مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو رہتا ہوں۔)

آپ کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ جنرل نیازی صاحب سے بعد کے زمانے میں بہت یادگار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس سلسلے کی پہلی ملاقات لاہور کینٹ میں ایک تقریبِ نکاح میں ہوئی۔ مجھے اس میں جماعت اسلامی کے بزرگ رکن نواز خاں ترین مرحوم (مقیم منصورہ) نے نکاح پڑھانے کے لیے دعوت دی۔ دولہا ان کے رشتے داروں میں سے تھا (نام یاد نہیں رہا)۔ دلہن جنرل نیازی مرحوم کی نواسی بتائی گئی تھی۔ نواز خاں ترین صاحب کے ساتھ جب میں تقریب میں پہنچا تو اسٹیج پر جنرل نیازی صاحب اپنی معمول کی شان کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ علیک سلیک کے بعد جنرل صاحب کو معلوم ہوا کہ میں جماعت اسلامی کا کوئی ذمہ دار ہوں تو بہت احترام کے ساتھ پیش آئے۔

پھر نیازی صاحب نے اپنے فوجی کیرئیر کے بعد سیاسی سفر کا مختصر تذکرہ کیا جب آپ جمعیت علمائے پاکستان میں شریک ہوئے تھے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد وہاں سے جی بھر گیا اور جمعیت علمائے پاکستان چھوڑ دی۔ پھر مجھ سے کہنے لگے کہ جماعت اسلامی میں پروفیسر غفور احمد میرے اچھے دوست ہیں، مگر انھوں نے میرے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ میں نے پوچھا: کیا تعاون نہیں کیا؟ فرمانے لگے: میں نے اُن سے کہا تھاکہ میں جماعت میں آنا چاہتا ہوں، مگر شرط یہ ہے کہ مجھے مرکز میں کوئی منصب دیا جائے۔ پروفیسر صاحب نے مجھے مایوس کیا کہ جماعت میں مشروط داخلے کی گنجائش نہیں۔ جنرل صاحب کی بات سن کر مجھے ہنسی آگئی اور میں نے عرض کیا: جنرل صاحب! پروفیسر صاحب نے بالکل ٹھیک فرمایا۔ جماعت میں کوئی بھی آدمی اس طرح نہ آیا ہے نہ آئندہ آنے کا امکان ہے۔ جماعت کا طے شدہ اصول و ضابطہ ہے، اس کے مطابق لوگ آتے ہیں اور جن میں صلاحیت ہوتی ہے وہ آگے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جنرل صاحب کو یہ بات اچھی نہ لگی۔

ابھی بارات کے آنے میں کچھ دیر تھی اس لیے مزید باتوں کا تذکرہ شروع ہوگیا۔ اسی دوران آپ نے فرمایا ’’جب میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا تو جماعت کا ایک لڑکا حکومت کے خلاف تقریر کرنے پر گرفتار ہوا تھا۔ اس کے امتحان کا مسئلہ میرے سامنے آیا تو میں نے اجازت دینے سے انکار کردیا، مگر جماعت کے لوگوں نے مجھے حلف دیا کہ وہ طالب علم بی۔اے میں گولڈ میڈلسٹ ہے اور اب اس کا ایم۔اے کا امتحان ہے کہ اسے پولیس نے ایک کیس میں گرفتار کرلیا ہے۔ آپ بتائیں کہ جماعت والوں کی اس بات میں کتنی صداقت تھی؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’محترم جنرل صاحب! وہ بات سو فیصد درست تھی۔ جماعت والے ویسے بھی کوئی جھوٹی گواہی نہیں دیتے، اور جب اُن سے آپ جیسی عظیم شخصیت کی طرف سے حلف لیا جائے تو کیسے جھوٹ بولیں گے؟
(جاری ہے)