معروف کالم نگار ابن مصور نے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر بروز اتوار یکم ستمبر 2024ء کو وطنِ عزیز کے معروضی حالات کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
’’مہنگائی اور سیاسی بے یقینی کی دلدل میں پھنسا وطنِ عزیز اِس وقت پوری طرح سے جہاں معاشی زوال پذیری کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، وہیں پر اندرونی خلفشار بھی اس وقت زوروں پر ہے، خاص طور پر بلوچستان کی سیاسی صورتِ حال، کے پی کے کی ناراضی، سندھ کی وفاق سے بے شمار شکایات یہ کہانی بیان کررہی ہیں کہ ہم گزشتہ 70 برس میں اپنے لوگوں کو انصاف اور برابری کا احساس بھی دینے میں ناکام رہے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ہم اپنے لوگوں کو احساسِِ محرومی سے دوچار کرنے کے ماسوا اتنے عرصے میں اور کچھ بھی نہیں کر پائے ہیں، اور اس ساری صورتِ حال کی تمام تر ذمہ داری ہمارے سیاسی نظام کی ناکامی پر عائد ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انصاف کی فراہمی، مساوات اور برابری کا احساس بنیادی طور پر کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا کرتے ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک طرح سے ناپید ہیں۔ معاشی بحران، اندرونی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام ، نیز معاشی زوال… یہ سب دراصل مسائل کا ایک پیکیج ہے جسے اگر ایک ہی مسئلہ تصور کرلیا جائے تو بہترہے، کیوں کہ مذکورہ سارے مسائل کسی نہ کسی طرح سے باہم پیوست ہیں اور ان تینوں مسائل کا حل نکالنے سے ہی ملک کسی درست سمت کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو باقی سارے مسائل بھی انھی مسائل کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وطنِ عزیز کئی عشروں سے جن پیچیدہ اور انتہائی سنگین مسائل میں مبتلا ہے، وہ تو ہنوز حل نہیں ہوسکے ہیں، بلکہ اس پر مستزاد اور زیادہ گمبھیر، سنگین ترین اور پیچیدہ تر مسائل جنم لے چکے ہیں۔ اگر ہم اپنی معاشی صورتِ حال ہی کا جائزہ لیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ سیاسی بلوغت پر بات کریں تو اس کی حالت یہ ہے کہ ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کرنے والی قوتیں اس وقت خود اسٹیٹس کو کی آغوش میں بیٹھی دکھائی دیتی ہیں۔ جمہوریت کی دعویدار قوتیں خود ہی غیر جمہوری روش پر چلتی ہوئی نظر آتی ہیں، اور سویلین بالادستی کی بات بھی اب محض ایک بات کی حد تک ہی رہ گئی ہے۔ معاشی بدحالی اور اندرونی انتشار کا شکار ہمارا ملک گویا کہ ایک طرح سے عالمی تماشا بن چکا ہے۔ وطنِ عزیز کا بچہ بچہ آج عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں کشکول ہے لیکن دنیا ہمیں اب بھیک دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ بظاہر کہنے کے لیے تو ہمارے ہاں ایک جمہوری حکومت ہے تاہم فیصلوں اور طاقت کا اصل سرچشمہ آج بھی وہی مقتدر حلقے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ملک کی تقدیر کے فیصلے ہاتھوں میں رکھے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم 70 برس سے وہیں پر کھڑے ہوئے ہیں یا اس سے بھی کہیں مزید پیچھے کی سمت چلے گئے ہیں، جب کہ دوسری طرف دنیا ہم سے بہت زیادہ آگے نکل چکی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک شاہراہِ ترقی پر گامزن ہوچکے ہیں، ان کے ہاں سیاسی نظام مضبوط اور مستحکم ہوچکے ہیں، وہاں کے عوام بھی بہت زیادہ ترقی کرچکے ہیں اور وہ بھی ہر شعبۂ زندگی میں۔ جب کہ ہم سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ یقیناً ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے یہ سب ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ ایسے میں جب ہم سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے گٹھڑی کھولتے ہیں تو تلاش کرتے کرتے جو گٹھڑی کھلتی ہے وہ ہے مائنڈسیٹ کی گٹھڑی۔ وہ مائنڈسیٹ جو قیامِ پاکستان سے ہی بطور سیاست اپنایا گیا ہے۔ ملک کے سارے مسائل کا اگر کھرا تلاش کیا جائے تو ہمیں اس کے پائوں کے نشانات ماضی میں اختیار کردہ اسی فرسودہ مائنڈسیٹ تک پہنچتے ہوئے نظر آئیں گے جو تاحال ہم پر حاوی ہے۔ یہ خارج المیعاد اور بدبودار مائنڈ سیٹ بطور سیاست کے ہو یا بحیثیت سیاست کے… انصاف کے ایوانوں یا اداروں میں ہو یا ملک کی اشرافیہ یا عام نوکر شاہی کا ہو… ہمیں یہ دکھائی پڑتا ہے کہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو اپنا تسلط قائم رکھتا چلا آرہا ہے۔ پھر باقی ساری کی ساری لڑائی اپنی اپنی بادشاہی کو برقرار رکھنے کے لیے لڑی جارہی ہے، خواہ یہ بادشاہی فرد کے اندر کی دنیا میں قائم کردہ ہو یا پھر فرد کے اختیارات کی دنیا میں قائم شدہ ہو، جو اختیارات کسی نہ کسی طرح سے اسے ملے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات نے ہماری ریاست کو ایک طرح سے ہلا سا ڈالا ہے۔ یقیناً دہشت گردی کے یہ واقعات نئے ہرگز نہیں ہیں۔ لیکن ملک جب پہلے ہی سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور معاشی طور پر بھی ہم سسک سسک کر اپنا وقت گزارنے پر مجبور ہیں ایسے میں اس طرح کے واقعات بے حد قابل تشویش ہیں۔ بلوچستان کے اندر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری حکمتِ عملی بہرحال ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے، کیوں کہ اس امر پر تنقید کی جارہی ہے کہ بلوچستان کے اندر عام شہری اور دہشت گردوں کے مابین تفریق روا رکھے بغیر ہی کارروائیاں کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے ردعمل کے طور پر سماجی بغاوتیں بھی جنم لے رہی ہیں اور دہشت گردی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس نازک مرحلے پر وفاق کو بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا اور یہ تفریق بھی کرنی پڑے گی کہ کون دہشت گرد ہے اور کون عام بلوچ ہے؟ کیوں کہ جب تک اس امر پر اپنی توجہ مبذول نہیں کی جائے گی اُس وقت تک مسئلے کا حل تلاش کرنا بھی مشکل ہی رہے گا۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ بلوچستان کے لیے مختلف ناموں کے ساتھ پیکیجز کا اعلان تو کیا جاتا رہا ہے لیکن بلوچستان سے محرومیوں کے خاتمے کے لیے حقیقی معنوں میں جو دیرپا اور ٹھوس نوعیت کی مساعی بروئے کار لائی جانی چاہیے تھیں وہ نہیں ہوسکی ہیں۔ اس وقت اشد ضرورت ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتوں سے لے کر عسکری طاقتوں تک سب باہم یک جا ہو کر، سر جوڑ کر بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے سوچ بچار کریں اور اس مسئلے کو حقیقی طور پر حل کرنے کی کوشش کریں۔
وزیراعظم نے گزشتہ دنوں یہ کہا ہے کہ ’’بلوچستان میں دہشت گردوں کو بیرونی امداد مل رہی ہے، بلوچستان میں ایسا ماحول بنایا گیا ہے گویا وہاں پر علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔‘‘ لیکن وزیراعظم کو اس بیان بازی سے کہیں آگے بڑھ کر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھانا چاہیے، کیوں کہ یہ مسئلہ محض کسی ایک صوبے کا نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ دراصل وفاق کی بقا کا ہے اور یہ ہماری ملکی سالمیت کا بھی ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو محض بیانات سے ہی حل کیا جانا ناممکن ہے۔ حقیقی معنوں میں بلوچستان کی سیاسی قوتوں کو آگے لایا جائے، ہمدردی کے ساتھ ان کی باتیں سنی جائیں اور اہلِ بلوچستان کی محرومیوں کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر یہ مسئلہ اور زیادہ الجھتا ہی چلا جائے گا جو کسی بھی طور سے ملکی مفادات کے لیے مناسب ثابت نہیں ہوگا۔
سیاسی حوالے سے سندھ کو پانی اور بجلی کی تقسیم سمیت دیگر کئی اہم مسائل پر شکایات رہی ہیں اور تحفظات اور خدشات بھی درپیش اور لاحق رہے ہیں لیکن دہائیوں سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ وفاق اپنے مخصوص مائنڈ سیٹ کے تحت کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں، الٹا اُس کی جانب سے صوبائی اختیارات کی پامالی میں بھی کوئی تاخیر نہیں برتی جاتی رہی ہے، جس کی ایک نمایاں مثال 18 ویں ترمیم ہے جسے ویٹو کرنے کے لیے اکثر کون سے ایسے حربے ہیں جو استعمال نہیں کیے جاتے؟ وفاقی مائنڈسیٹ آج بھی صوبوں کو دیے گئے اختیارات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کبھی این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والی رقم میں کٹوتی کردی جاتی ہے، کبھی پانی روک دیا جاتا ہے، کبھی صوبے کی ہائی ویز کی ترقی سمیت مختلف مدوں میں رکھے گئے پیسوں کو بھی جاری نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی کبھی سندھ کی ترقی ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پھر خواہ حکومت کسی کی بھی ہو، لیکن مائنڈ سیٹ سبھی کا یکساں ہوتا ہے کہ چھوٹے صوبوں کو کسی بھی طرح سے اختیارات اور سیاسی آزادی نہیں دینی ہے۔ بس انہیں صرف دبائے رکھنا ہے۔ یہ مائنڈسیٹ بھی ملک کے وسیع تر مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب تبدیل کرنا پڑے گا۔ ملک کے ہر اسٹیک ہولڈر کو اب اپنا مائنڈسیٹ بدلنا ہوگا۔ اگر ہم اپنے مسائل کو واقعتاً حل کرنا چاہتے ہیں، مثلاً اس وقت ہماری عدالتوں میں بے شمار کیس گم شدہ افراد کے حوالے سے تاخیر کا شکار ہیں، بے شمار کیسوں کی سماعت بھی ہوتی رہتی ہے لیکن پھر ہوتا کیا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بھی ملک دشمن سرگرمیوں اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد ہیں انہیں بھلے سے سزائیں دی جائیں، لیکن جو بے گناہ افراد اٹھا لیے گئے ہیں انہیں تو کم از کم آزاد کردیا جائے۔ لیکن اس طرح سے ہوتا نہیں ہے۔ نتیجے میں ایک حد تک انصاف کا نظام بھی ہمیں بے بس اور لاچار دکھائی دیتا ہے۔ یہ تو کچھ حساس کیس ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی چھوٹی اور بڑی عدالتوں میں لاکھوں کیس برس ہا برس سے پینڈنگ میں پڑے ہوئے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے لے کر چھوٹی چھوٹی عدالتوں تک میں بھی سیاسی کیس زیر التوا ہیں یا ان عدالتوں کو ان میں مصروف رکھا گیا ہے۔ ہمارے ہاں انصاف کے اداروں میں براجمان افراد کا مائنڈ سیٹ بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے لیکن خاص طور پر پوسٹ افتخار چودھری عدالتی سسٹم بھی کچھ اس طرح سے تشکیل پایا ہے کہ ہمارے منصف ہائی پروفائل کیس اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں، ریمارکس کے ذریعے شہرت حاصل کرتے ہیں اور شہرت کے مزے لوٹتے ہیں۔ اس سارے عدالتی رویّے کا بدلائو عام فرد سے حصولِ انصاف اور بھی دور اور زیادہ فاصلے پر کر بیٹھا ہے۔ جب کہ وہ دیکھتے ہیں کہ عدالتیں ’’مصروف ترین‘‘ ہیں، لیکن یہ مصروفیت ایسے کیسوں کی ہے جنہیں سیاسی اور انجینئرڈ کیس کہتے ہیں جبکہ عوام کے بنیادی مفادات کے کیس کم ہیں جنہیں عدالتوں میں چلایا جاتا ہو یا جن کی سماعت کی جاتی ہو۔ ہماری موجودہ حکومت کے کچھ فیصلوں پر چارج شیٹ مشہور معاشی ماہر قیصر بنگالی بھی چکے ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی کے اہم ممبر کی حیثیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے اور حکومت کا سارا دھیان چھوٹے چھوٹے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے پر ہی مرتکز ہے۔ یہ وہی رائٹ سائزنگ کمیٹی ہے جو واقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ ہماری سیاسی حکومتوں کو بھی یہ مائنڈسیٹ ختم کرنا پڑے گا کہ بہر صورت اقتدار میں آنا ہے، بادشاہوں کی طرح اقتدار میں ہی رہنا ہے، عوام کے بنیادی مسائل سے نظریں چرانی ہیں، کچھ ایڈہاک یا عارضی فیصلے کرکے محض اپنا وقت پاس کرنا ہے اور پھر نئے منشور دے کر عوام کو جھوٹے وعدوں اور آسروں میں لگانا ہے۔ ایسے میں عوام کو بھی اپنا ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کی طرح کا مائنڈسیٹ تبدیل کرنا پڑے گا۔ انہیں بھی بجائے سیاست دانوں کے اپنے لیے سوچنا پڑے گا۔ اسی صورت میں ان کے تھوڑے بہت مسائل حل ہو سکیں گے۔