عقیدۂ ختمِ نبوت، مسلمانانِ عالم کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل اور ایسا حساس معاملہ ہے کہ دینِ اسلام کی پوری عمارت جس کی اساس پر استوار ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ سے لے کر آج تک علماء کرام اور دانشورانِ اسلام نے ہمیشہ اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر شمشیر و سناں اور زبان و قلم سے جہاد میں کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، اور جان و مال سمیت ہر طرح کی قربانی کو سعادت سمجھ کر قبول کیا ہے۔ دورِ حاضر میں گزشتہ صدی کے دوران انگریز حکمرانوں کی سرپرستی میں برصغیر میں پرورش پانے والے ’’فتنۂ قادیانیت‘‘ کے خلاف جدوجہد کی داستان بھی بہت طویل ہے۔ پیامبر انقلاب علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے ملّتِ اسلامیہ کے خلاف اس فتنے کی سازشوں کی شدت کا ادراک کرتے ہوئے انہیں نہ صرف اسلام بلکہ ہندوستان کے بھی غدار قرار دیا۔ 21 جون 1936ء کو پنڈت جواہر لال نہرو کے نام لکھے گئے اپنے خط میں علامہ اقبالؒنے واضح کیا کہ ’’میں اپنے ذہن میں اس امر سے متعلق کوئی شبہ نہیں پاتا کہ احمدی، اسلام اور ہندوستان کے غدار ہیں‘‘۔ ’’قادیانی اور جمہور مسلمان‘‘ کے عنوان سے 14 مئی 1935ء کو اسٹیٹسمین دہلی میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں شاعرِ مشرق نے لکھا کہ: ’’ایسی ہر مذہبی جماعت، جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو، لیکن اپنی بناء نئی نبوت پر رکھے اور بزعمِ خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے، مسلمان اُسے اسلام کی وحدت کے لیے خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لیے کہ اسلامی وحدت ختمِ نبوت ہی سے استوار ہوتی ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے قادیانیت کے رد میں اردو اور فارسی میں کئی نظمیں بھی لکھیں اور انہوں نے سب سے پہلے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانی چونکہ مذہبی اور سیاسی طور پر مسلمانوں سے الگ تشخص رکھتے ہیں اس لیے انہیں غیر مسلم قرار دیا جائے ۔
علامہ اقبالؒ نے 1936ء میں پنجاب مسلم لیگ کی کونسل میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کی تجویز بھی منظور کرائی اور مسلم لیگ کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں سے تحریری حلف نامہ لکھوایا کہ وہ کامیاب ہوکر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے لیے آئینی اداروں میں مہم چلائیں گے۔
قادیانیت چونکہ انگریز حکمرانوں کا خود کاشتہ پودا تھا اس لیے اُن کے دورِ حکمرانی میں تو اس گروہ کی سرپرستی کی گئی، مگر اسے بدقسمتی کے سوا کیا نام دیا جائے کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی سرکاری طور پر قادیانیوں کی پشت پناہی کا سلسلہ جاری رہا، چنانچہ 1953ء میں جب اس مسئلے پر عوامی تحریک شروع ہوئی تو پاکستانی حکمرانوں نے لاٹھی، گولی اور اندھادھند تشدد کے ذریعے اسے دبا دیا۔ تحریک ختمِ نبوت کے ہزاروں کارکنوں اور علماء کرام کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیا گیا اور سخت سزائیں سنائی گئیں۔ اسی تحریک کے دوران مارچ 1953ء میں مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائی۔ جرم ان کا اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے قادیانیت کے جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک کرنے والی کتاب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھی تھی۔ بعد ازاں اندرون اور بیرونِ ملک، خصوصاً عالمِ اسلام میں شدید ردعمل کے باعث حکومت یہ سزا ختم کرکے مولانا مودودیؒ کی رہائی پر مجبور ہوئی ۔ 1974ء میں تحریک ختمِ نبوت کا دوسرا اور فیصلہ کن مرحلہ اُس وقت سامنے آیا جب نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ پر مشتمل اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے تفریحی دورے پر جاتے ہوئے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ختمِ نبوت کے حق میں نعرے لگائے۔ یہ وفد جب دورہ مکمل کرکے واپس آیا تو ربوہ اسٹیشن پر مسلح قادیانی گروہ نے ان طلبہ پر حملہ کردیا۔ شدید زخمی حالت میں جب یہ نوجوان واپس پہنچے تو ملک بھر میں آگ لگ گئی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی قیادت میں ایک نئی تحریکِ ختمِ نبوت برپا ہوئی۔ پوری قوم اس تحریک کی ہم آواز تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جو 1970ء میں قادیانیوں کی بھرپور حمایت سے انتخابات جیتے تھے، مجبور کردیا کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیں۔ چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ یہ یقیناً ایک تاریخ ساز دن ہے ۔ آج اس معرکۂ خیر و شر کو سر ہوئے نصف صدی مکمل ہوچکی، مسلمان اس پر جس قدر سجدۂ شکر بجا لائیں، کم ہے۔
7 ستمبر 1974ء بلاشبہ ایک تاریخ ساز دن اور تحریکِ ختمِ نبوت کا روشن سنگِ میل تھا، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوگئی۔ قادیانیوں کی سازشیں اپنے سرپرستوں کی پشتی بانی سے اس کے بعد بھی جاری رہیں اور آج بھی جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں بھی ایسی ہی سازش کی ایک جھلک پاکستانی قوم کو دیکھنے کو ملی، تاہم الحمدللہ کہ ملّتِ اسلامیہ پاکستان نے متحد ہوکر اسے ناکام بنادیا۔ 7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے بعد دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم اور جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحقؒ نے ایک خط کے ذریعے اس حوالے سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے بعض اہم استفسارات کیے۔ اس خط کا تفصیلی جواب مولانا مودودیؒ نے 6 نومبر 1974ء کو تحریر کیا۔ اس تاریخی خط میں آٹھ نکات کی صورت میں مولانا مودودیؒ نے قادیانیت سے متعلق دستوری ترمیم کے بعد مزید قانون سازی اور عملی لائحہ عمل پر تفصیلی رہنمائی فراہم کی۔ یہ خط مولانا مودودیؒ کی دور اندیشی اور معاملات کی تہہ تک پہنچ کر حکمتِ عملی مرتب کرنے کی بے پناہ صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مکمل خط پروفیسر نورورجان کے مرتب کردہ ’’مکاتیب سید مودودیؒ‘‘ میں شامل ہے، ضرورت ہے کہ تحریکِ ختمِ نبوت کے کارکنان اس خط کا بغور مطالعہ کریں اور درپیش حالات میں مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کریں۔ (حامد ریاض ڈوگر)