1869ء میں غالب کے انتقال کے بعد تیس برس کے اندر اندر ہی غالب فہمی اور غالب شناسی کی روایت کا آغاز ہوا۔ بقول مشفق خواجہ یہ روایت چند ہی دہائیوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غالب پرستی کے درجے میں داخل ہوگئی اور اس کے ردعمل میں غالب شکنی کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور ظاہر ہے کہ اس سلسلے کی پہلی آواز مرزا واجد حسین یاس عظیم آبادی لکھنوی (یاس چنگیزی) کی تھی۔
رسالہ ’’خیال‘‘ میں جب یاس چنگیزی کا مضمون ’’آتش و غالب‘‘ شائع ہوا تو ادبی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اس مضمون کے متعدد جوابات لکھے گئے اور خود یاسؔ نے بھی جواب الجواب قسم کے مضامین لکھے۔ یہ ادبی بحث ایک عرصے تک رسائل میں جاری رہی۔ یہ ہنگامہ ابھی پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ رسالہ ’’شبابِ اردو‘‘ لاہور کے فروری 1921ء کے شمارے میں محمد عبدالمالک کا مضمون ’’مہملاتِ مرزا غالب‘‘ شائع ہوا۔
یہ سلسلہ خاصا دراز ہوا اورکئی لوگ ان کے حق میں، کئی خلاف قلم آراء ہوئے۔ اس بحث کا آخری مضمون چراغ حسن حسرت کا جنوری 1922ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ حسرت کے مضمون پر بحث ختم ہوجاتی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس بحث کو ’’شبابِ اردو‘‘ کی طرف سے ختم کیا گیا یا کسی نے اس بحث میں مزید حصہ نہیں لیا۔ البتہ حسرت کے مضمون کے چودہ ماہ بعد مارچ 1923ء کے شمارے میں ’’مطالب الغالب‘‘ کے عنوان سے شیر علی خان سرخوش کا مضمون نظر آتا ہے۔
پیشِ نظر کتاب رسالہ’’شباب ِاردو‘‘ کے شماروں میں شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین ’’مہملاتِ غالب‘‘ کے نام سے ادارہ یادگار غالب کے جریدے ’’غالب‘‘ کے انیسویں شمارے میں یکجا کردیے گئے تھے اور مشفق خواجہ نے تمہید کے عنوان سے ان کا تعارف لکھا۔
اب ادارے کی جانب سے اسے کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔
کتاب میں درجِ ذیل مضامین شامل ہیں: مہملات ِغالب/ محمد عبدالمالک، کلامِ غالب/ مرزا یاس لکھنوی، نظرِمنتقد/گہر جائسی، مہملاتِ غالب/ابو عزیز حکیم غلام غوث، کلامِ غالب/ الف دین، مہملاتِ غالب اور نظر منتقدپر محاکمہ/ابو العطاعامل الٰہ آبادی، مہملاتِ غالب/گہر جائسی، مہملاتِ غالب/ مرزایاس لکھنوی، مہملاتِ غالب/ ابوالعطامل الٰہ آبادی، مہملاتِ غالب/گہرجائسی، مہملاتِ غالب، چراغ حسن حسرت/ مطالب الغالب/شیر علی خاں سرخوش
ادارہ یادگارِ غالب کی جانب سے ان کتابوں کی مکرر اشاعت خوش آئند ہے۔