حکومتی رٹ کی دھجیاں بلوچستان میں پھر دہشت گردی

تمام تر بھاری حکومتی اخراجات کے اس بار لوگ یوم آزادی منانے نہیں نکلے

بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر امن تہہ و بالا کردیا گیا، حکومتی عمل داری (رٹ) کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ 25 اگست2024ء کی شام کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مسلح گروہ صوبے کے مختلف اضلاع کے مختلف مقامات اور شاہراہوں پر نکل آئے اور لیویز تھانوں اور چوکیوں پر حملہ آور ہوئے۔ انہوں نے قومی شاہراہیں بند کردیں، مسافروں کی شناخت معلوم کرتے رہے۔ یہ سلسلہ 26 اگست کو طلوعِ فجر سے پہلے تک چلتا رہا۔ اس دوران یہ گروہ کھل کھیل رہے تھے۔ مسلح افراد نے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو مستونگ اور قلات کے مقام پر بند کردیا۔ مستونگ کے کھڈ کوچہ کے علاقے میں واقع لیویز تھانے پر دھاوا بول دیا، جہاں سے لیویز اہلکار فرار ہوگئے، چند یرغمال بنا لیے گئے۔ حملہ آوروں نے تھانے اور وہاں موجود سرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں کو آگ لگا دی اور تھانے میں موجود اسلحہ اور اہلکاروں کا اسلحہ ہمراہ لے گئے۔ اس کارروائی کے دوران اسسٹنٹ کمشنر مستونگ اکرم حریفال زخمی ہوگئے۔ مسلح افراد نے شاہراہ پر مسافر گاڑیاں روک دیں، ان میں سے مسافروں کو اتارا، ان کے شناختی کارڈ کی جانچ کی۔ ضلع قلات میں ہونے والے حملے میں 10 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں 4 لیویز اور ایک پولیس اہلکار شامل ہیں۔ 10 افراد زخمی ہوئے، ان میں اے سی آفتاب لاسی بھی شامل ہیں۔ قلات کا سرکاری اسپتال رات بھر مسلح گروہ کے قبضے میں رہا۔ ٹول پلازہ اور لیویز کی گاڑیوں کو جلا دیا گیا۔

مسلح گروہ نے صوبے کے شمال مشرقی ضلع موسیٰ خیل میں زاڑہ شم کے مقام پر قومی شاہراہ بند کردی، فائرنگ اور دھماکے کیے، مسافر اور مال بردار گاڑیاں روک دیں۔ پھر ٹرک،مزدا اور پک گاڑ یاں نذرِ آتش کردیں،جن کی تعداد 50 بتائی گئی ہے۔ پنجاب سے آنے والی بسوں سے مسافروں کو اتارا، ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر 20 مسافروں کو سائڈ پر لے جاکر گولیاں چلا کر قتل کردیا۔جبکہ ضلع دکی اور لورالائی کے دو مقامی ٹرک ڈرائیوروں کو بھی مار دیا۔اس طرح موسیٰ خیل میں مجموعی طور پر 22 افراد کا بہیمانہ قتل ہوا ہے۔مقتولین کا تعلق پنجاب کے علاقے خانیوال، ملتان، لیہ، ساہیوال،سرگودھا،فیصل آباد اور شجاع آباد سے ہے۔

ضلع لسبیلہ میں بیلہ شہر کے اندر ایف سی کیمپ پر حملہ کیا گیا۔ بیلہ حملے کو ’’آپریشن ہیروف‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس بلوچی لفظ کے معنی تیز آندھی اور طوفان کے ہیں۔ اس میں نوجوان لڑکی اور لڑکے نے خودکش دھماکا کیا ہے۔ لڑکی کا نام ماہل بلوچ معلوم ہوا ہے، جو گوادر کی رہنے والی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی، اور تربت یونیورسٹی میں قانون کی ساتویں سمسٹر کی طالبہ بتائی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حملے میں 7 جنگجوئوں نے حصہ لیا جن کے لیے فدائین کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ یہ سات افراد موت تک لڑنے کے لیے کیمپ گئے تھے۔ مسلح گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ بارود سے بھری گاڑی کیمپ کے داخلی دروازے سے ٹکرائی گئی تھی۔ اس نوعیت کے حملوں اور کارروائیوں کے لیے مجید بریگیڈ کے نام سے فورس قائم کی گئی ہے جو اس سے قبل بھی سنگین کارروائیاں کرچکی ہے۔ آئی ایس پی آر نے بتایا ہے کہ حملوں کی مدافعت میں فورسز کے 10 اہلکار جاں بحق ہوچکے ہیں اور 21 حملہ آور مارے گئے ہیں۔

ضلع بولان میں بھی قومی شاہراہ مسلح افراد کے کنٹرول میں رہی۔ 6 افراد کی نعشیں ملیں جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ یہاں دوزان کے مقام پر ریلوے پل تباہ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ریل سروس معطل ہوگئی ہے۔ حملے ضلع نوشکی میں بھی ہوئے جہاں دو مقامات پر ریلوے لائن اڑا دی گئی، لیویز چیک پوسٹ تباہ کردی گئی، حملہ آور اسلحہ اور دیگر آلات لے گئے۔ نوشکی کے خاران روڈ پر ریکو کے مقام پر سرکاری اہلکاروں سے اسلحہ چھینا گیا۔ نوشکی کے واقعات میں 2 افراد قتل کردیے گئے۔ ایک کا خضدار اور دوسرے کا تعلق قلات سے بتایا گیا ہے۔ نوشکی ہی میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر راکٹ فائر کیا گیا، فائرنگ ہوئی جس سے خاتون اور بچی سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے۔ یعنی ان تمام واقعات میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔

جیسا کہ لکھا گیا ان میں 4 لیویز اور ایک پولیس اہلکار، اور جوابی کارروائیوں کے دوران 10 ایف سی اہلکار بھی مرنے والوں میں شامل ہیں۔ جبکہ مسلح گروہ کے 21 ارکان الگ ہیں۔ یہ کارروائیاں 29 اور30 جنوری 2024ء کی درمیانی شب بولان کے شہر مچھ میں پیش آنے والے حملوں کے مماثل ہیں۔ مچھ شہر کو تین روز تک مسلح گروہ نے یرغمال بنائے رکھا تھا، ساتھ ہی بولان کی قومی شاہراہ بھی بند رکھی تھی۔ حالیہ حملوں کے لیے 26 اگست کے دن کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ اس روز نواب اکبر خان بگٹی کی برسی تھی۔ پیش ازیں 13اور14اگست کو تخریب و خلل کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔ بم دھماکے کیے گئے۔ مستونگ میں ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر بلوچ کی گاڑی پر حملہ ہوا۔ مسلح افراد نے قومی شاہراہ بند رکھی تھی، لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کررہے تھے کہ اس اثنا ذاکر بلوچ کا گزر ہوا۔ انہوں نے صورتِ حال دیکھی تو واپس مڑنے کی کوشش کی، کہ مسلح افراد نے گولیاں چلائیں جن کی زد میں آکر ذاکر بلوچ زخمی ہوئے اور اسپتال میں دم توڑ دیا۔ نیشنل پارٹی کے رہنما رکن بلوچستان اسمبلی رحمت صالح بلوچ کے بھائی عبدالمالک صالح بلوچ بھی ہمراہ تھے، وہ زخمی ہوئے۔ عبدالمالک صالح بلوچ ضلع کونسل پنجگور کے چیئرمین ہیں کالعدم بی ایل اے نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا، تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ ان کے پاس انٹیلی جنس رپورٹ اور شواہد ہیں کہ اس واقعے میں کالعدم تنظیم بی ایل اے کا ہاتھ ہے۔

بہرحال حقیقت یہ ہے کہ تمام تر بھاری حکومتی اخراجات کے، اِس بار لوگ یوم آزادی منانے نہیں نکلے۔ اس کی ایک وجہ امن و امان کی خراب صورت حال تھی۔13اگست کی رات محکمہ ریلوے کا ملازم دستی بم حملے میں جاں بحق ہو گیا، ایک بچی بھی زخمی ہو گئی تھی۔یہ شخص بچوں کو شہر میں چراغاں دکھانے نکلا تھا۔لیاقت بازار چائنا مارکیٹ میں جھنڈیاں فروخت کرنے والی دکانوں پر دستی بم پھینکا گیا۔یہاں ایک شخص جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں بھاری اخراجات سے آتش بازی اور موسیقی کی تقریب کا بندوبست کیا گیا تھاجس میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق شریک ہوئے تھے۔اس دوران نامعلوم سمت سے گرنیڈ لانچر فائر ہواجو اسٹیڈیم کے قریب کلی دیبہ میں واقع ایک گھر میں گرا اور دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں معمر خاتون سمیت گھر کے دو افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔یہ دھماکا تقریب کے مہمانوں کو سنائی دیا۔ایوب اسٹیڈیم کی اس تقریب میں شہری شریک نہیں ہوئے۔

لوگوں کی عدم شمولیت اور عدم دلچسپی کی ایک وجہ نظام پر سے اعتماد کا اٹھنا بھی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومتیں عوام کی منتخب کردہ نہیں ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو خالی اسٹیڈیم سے خطاب کرنا پڑا۔غرض حالیہ تخریبی واقعات مضطرب کرنے والے ہیںجس کی ذمے داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کرلی ہے۔