ریاست کا فلاحی تصور

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ:
” جس نے میرے طریقے کو میری امت کے بگاڑ کے وقت مضبوطی سے
تھامے رکھا اسے شہید کا ثواب ملے گا“۔(طبرانی، ترغیب)

خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیاد ریاست کا فلاحی تصور تھا۔ ریاست محض ایک منفی ادارہ نہیں ہے جو محض اندرونی خلفشار اور بیرونی حملہ سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے وجود میں لایاگیاہو، بلکہ معاشری تنظیم کی وہ صورت ہے جس کے ذریعے مثبت طور پر ایک خاص طرزِ زندگی کو ترویج دینے کی منظم سعی و جہد کی جائے۔ اس ادارے کا اصل مقصد نیکی کا فروغ، بدی کا استیصال اور ایک فلاحی معاشرے کا قیام ہے جو انسانوں کی حقیقی ضرورتوں کا اہتمام کرے، اور ان کو مادی اور اخلاقی اعتبار سے اس لائق بنا دے کہ وہ زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار مؤثرانداز میں ادا کرسکیں۔

خلافت ِ راشدہ کا مقصد اجتماعی فلاح کا قیام تھا اور اس سلسلے میں خلافت ِ راشدہ نے تین بنیادی اقدامات کیے:

۱- پہلا اقدام کتاب و سنت کی تعلیم، اور ان کا فروغ اور قیام تھا۔ حضور اکرمؐ نے جب عمرو بن حزمؓ کو یمن کا گورنر بنایا تو ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ حق پر قائم رہیں، جیساکہ اللہ نے حکم دیا ہے، اور لوگوں کو بھلائی کی خوشخبری اور نیکی کا حکم دیں اور لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور ان میں اس کی سمجھ پیدا کریں اور لوگوں کی دل داری کریں یہاں تک کہ لوگ دین کا فہم پیدا کرنے کی طرف مائل ہوجائیں۔

اسی پالیسی پر خلافت ِ راشدہ کے پورے دور میں عمل کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! میں اپنے تمام علاقوں کے عہدے داروں پر تجھ کو گواہ ٹھیراتا ہوں کہ میں نے ان کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ وہ لوگوں کو اِن کے دین اور ان کے نبیؐ کی سنت کی تعلیم دیں‘‘۔

ایک دوسرے خطبے میں آپؓ نے فرمایا: ’’میں نے اِن کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ تم کو تمھارے پروردگار کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کی تعلیم دیں۔

خلفاے اربعہ قیامِ فلاح کے لیے سب سے ضروری اس امر کو سمجھتے تھے کہ لوگوں کو فلاح کا صحیح اور اس کا اصل راستہ بتا دیں اور یہ علم قرآن اور سنت نبویؐ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ان کا مقصد دنیاوی اور اُخروی فلاح تھا اور اس کے حصول کے لیے سب سے پہلی ضرورت قرآن اور سنت کی تعلیم اور تنفیذ تھی۔

۲- دوسری بنیادی چیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یعنی ریاست تمام اچھی چیزوں کی ترویج کرے، نیکیوں کو پھیلائے، صدقات کو عام کرے اور خیر کی روایت قائم کرے، نیز ان تمام چیزوں کی حوصلہ افزائی کرے جو کسی طرح بھی حسنات کو فروغ دینے والی ہوں۔ اسی طرح ریاست ان تمام چیزوں کو ختم کرے جو بُرائی اور منکر کو پھیلانے والی ہوں اور معاشرے میں کسی قسم کی بھی گندگیوں کو نہ پنپنے دے تاکہ فرد اور ملت دونوں کو صحیح خطوط پر ترقی کرنے کا پورا پورا موقع ملے۔ حکومت کی اس پالیسی کی اساس قرآن کا یہ حکم ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ(اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے ہو، پس نیکیوں کا حکم کرو، برائیوں کو روکو، اور تم مومن ہو‘‘۔

۳- اس سلسلے کی تیسری چیز یہ ہے کہ حکومت عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے، ان پر ظلم و جبر نہ کرے، ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالے جس کے وہ متحمل نہ ہوسکتے ہوں۔ نیز حسنات زندگی کو فروغ دے ، اور اس بات کی کوشش کرے کہ اس کے دائرۂ اثر میں کوئی متنفس بلالحاظ مذہب و ملّت ایسا نہ رہے جو اپنی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کر رہا ہو۔

حضرت عمرؓ اس بات کا اہتمام کرتے تھے کہ مجاہدین زیادہ عرصے تک اپنے اہل و عیال سے جدا نہ رہیں، اور کہا کرتے تھے کہ ’’اور تمھارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمھیں تباہی میں نہ ڈالوں اور تم کو سرحدوں میں روکے نہ رکھوں‘‘۔

اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو ایک خط میں حضرت عمرؓ نے لکھا کہ ’’سب سے زیادہ خوش نصیب حاکم اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا خوش حال ہو، اور سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا بدحال ہو۔ تم خود بھی اپنے آپ کو کج روی سے بچانا تاکہ تمھارے ماتحت کج روی اختیار نہ کریں‘‘۔

اس حقیقت کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا تھا کہ: ’’ اے اللہ! جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا جائے اور وہ اِن کو مشقت میں ڈالے تو، تو بھی اِس کو مشقت میں ڈال۔ اور جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا تو، تو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر‘‘۔

خلافت ِ راشدہ کی تمام پالیسیوں میں لوگوں تک حسنات زندگی پہنچانے اور ضرورت مندوں کی کفالت کرنے کا جذبہ کارفرما تھا، بلکہ حضرت عمرؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو صفاء کے پہاڑوں میں جو چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا ہوگا، اس کو بھی اس مال سے اس کا حصہ پہنچے گا اور اس کے لیے اس کو کوئی زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی‘‘۔ اور یہ کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں اہلِ عراق کی بیوائوں کی خدمت کے لیے زندہ رہ گیا تو ان کو اس حال میں چھوڑ جائوں گا کہ میرے بعد ان کو کسی اور امیر کی مدد کی احتیاج باقی نہ رہے گی‘‘۔

خلافت ِ راشدہ ایک صحیح اور معیاری خادم خلق ریاست تھی اور عوام کی حقیقی فلاح و بہبود اور ان کے لیے آسانیوں کی فراہمی اس کا اصل مقصد تھا اور حکومت کا یہی فلاحی تصور خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیادی خصوصیت تھا۔

(اقتباس،تبدیلی کی سمت اور منزل مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست،| مارچ ۲۰۱۲ | اشارات)