برادرِ عزیز سید ایاز محمود لکھتے ہیں: ’’پاکستان میں نو فی صد لوگوں کی پہلی زبان اُردو ہے۔ دیگر افراد جب اُردو بولتے ہیں تو اپنی اپنی مقامی زبانوں کے لب ولہجے کا تڑکا بھی لگاتے جاتے ہیں۔ اُن سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ جب بھی اُردو بولیں گے تو صحتِ زبان کو ذہن میں رکھتے ہوئے بولیں گے، محض خام خیالی ہے‘‘۔
یہ ’خام خیالی‘ بھی خوب چیز ہے۔ لفظی مطلب ہے ’کچے خیالات، کچی باتیں‘۔ جیسا کہ اقبالؔ کی نظم ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ میں:
کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
صاحبو! ہمیں تجسس ہی رہا کہ گلہری کا وعظ سن کر پہاڑ نے اپنی ’خام خیالی‘ دور کی یا نہیں۔ تاہم آخری شعر میں آپڑنے والی سخن گسترانہ بات سے گلہری نے ہماری خام خیالی تو یہ کہہ کر دور کردی کہ ’’نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں‘‘۔ لہٰذا وہ لوگ بھی اپنی ’خام خیالی‘ دور فرما لیں جو ہمیں نکما جانتے ہیں۔ جن ’خام خیالوں‘ کو ’خام خیالی‘ کا مطلب نہیں معلوم، اُن کے لیے عرض ہے کہ لغوی مطلب ’خام خیالی‘ کا: غلط خیال، جھوٹا خیال، ناپختہ خیال اور گُمان یا ’وہم‘ ہے۔ مزید عرض ہے کہ ہر پختہ خیال کسی نہ کسی خام خیال، کسی وہم یا کسی گمان ہی سے جنم لیتا ہے۔ مولانا ابوالجلال ندویؒ فرماتے ہیں:
ہر فکرِ نَو کی وہمِ کُہن ہی اساس ہے
ماضی گُندھا ہوا ہے بشر کے خمیر میں
ماضی کے متعدد توہمات نے انسان کو حقیقت کی تلاش پر مجبور کیا۔ یوں فکرِ نو کے دریچے یکے بعد دیگرے کھلتے چلے گئے اورانسان نے خوش ہو کر کہا :
راہ دکھلائی مری ہمتِ عالی نے مجھے
کر دیا پختہ مری خام خیالی نے مجھے
یہ تو ہوئیں ’خام خیالی‘ کی باتیں۔ اب آئیے پختہ خیالی کی طرف۔ شاید بہت سے لوگ سید ایاز محمود صاحب کے اس خیال سے اتفاق نہ کریں کہ پاکستان میں نو فی صد لوگوں کی پہلی [یا مادری] زبان اُردو ہے۔ گننے والے تو اس سے بھی کم گنتے ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ اس تعداد کو صرف دو فی صد تک محدود کردیتے ہیں۔ مگر سید صاحب ایک ایسے محکمے سے وابستہ رہ چکے ہیں جو اعداد و شمار کی شاعری بھی کرتا ہے، سو اُن کے شمار سے انکار کچھ آسان نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستانی زبانوں میں سے کوئی بھی زبان بولنے والے افراد جب دوسری پاکستانی زبانیں بولنے والوں سے ہم کلام ہوتے ہیں تو ان میں سے نوّے فی صد کی رابطے کی زبان اُردو ہی ہوتی ہے۔ یوں کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے نوّے فی صد لوگ اُردو بولتے ہیں یا اُردو بول سکتے ہیں۔
جن نو فی صد لوگوں کی پہلی (یا مادری) زبان اُردو ہے وہ کون سا صحتِ زبان کو ذہن میں رکھتے ہوئے بولتے ہیں؟ وہ تو بس ’’بھرم بازی‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ’عوام‘ سے صحتِ زبان کو مدنظر رکھنے کی توقع شاید دنیا میں کہیں نہیں کی جاتی۔ ایسی توقع ہمیشہ اہلِ علم و ادب سے، اساتذہ سے، مقررین سے، رہنماؤں سے، حکام سے، اخبارات و جرائد سے اور نشریاتی اداروں سے رہتی ہے۔ کیوں کہ سیکھنے والے ان سے سیکھتے ہیں اور اپنی گفتگو یا تحریر میں انھیں کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان سب کی حیثیت معلمین اور مدرّسین کی سی ہے۔
رہی صحتِ زبان کی بات، توصاحب! یہ بات محتاجِ ثبوت نہیں کہ ہر چھوٹی بڑی پاکستانی زبان بولنے والوں میں اُردو لکھنے والے یا اُردو میں شاعری کرنے والے، اب سے پہلے بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے نام ور افسانہ نگاروں، شاعروں، ادیبوں اور صاحبِ تصنیف صحافیوں کی فہرست بنائیے تو اکثر ایسے ہوں گے جن کی پہلی یا مادری زبان اُردو نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان میں بہت سے ایسے ہیں جن سے صحت کے ساتھ اُردو زبان لکھنے کا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ فہرست طویل ہے۔ کس کس کا نام لکھیے؟ حاصلِ کلام یہ کہ صحتِ زبان کے سلسلے میں جو بھی کسبِ کمال کرے گا درجۂ کمال پر فائز ہوگا۔ اس کے لیے اہلِ زبان ہونا شرط نہیں۔
خیر، صحتِ زبان کا مرحلہ تو بعد کو آتا ہے۔ اس وقت تو بقائے زبان کی پڑی ہے۔ منہ میں زبان رہے گی تو اس کی صحت کی فکر ہوگی نا۔ اب آپ جو چاہے کہہ لیجے۔ سازش کہیے، نادانی کہیے، غفلت کہیے یا مرعوبیت… ہمارے بچوں کے منہ سے اُن کی زبان اُن کے بچپن ہی سے چھینی جارہی ہے۔ تعلیمی اداروں سے گھر آنے والے بچے گال پر ستارہ لے آتے ہیں۔ ’’ایوارڈ‘‘ کے نام پر کوئی نشانی وصول کر لاتے ہیں۔ حیرت انگیز حد تک نمبر حاصل کرلیتے ہیں، مگر ’’علم‘‘ حاصل نہیں کر پاتے۔ وہ رٹّا لگاتے ہیں ایک ایسی زبان کا، جو ان کے باپ دادا کی زبان ہے نہ ان کے ملک کے کسی حصے کی زبان ہے، نہ ایشیا کے اس پورے خطے کی زبان ہے۔ وطنِ عزیز کے شہروں کا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ پشتو، پنجابی، سندھی اور اُردو بولنے والے والدین بھی اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ ’’ہینڈ واش کرلو‘‘… ’’بریک فاسٹ فنش کرلو‘‘… اور … ’’یہ لنچ باکس لو، مگر دیکھو! لنچ کسی سے شیئر مت کرنا‘‘۔ زباں بگڑی تو بگڑی ہے، خبر لیجے کہ اخلاقی قدریں بھی بگڑ رہی ہیں۔ ہمارے بچے ’ہاتھ دھو لو‘، ’ناشتہ ختم کرلو‘، ’ناشتے دان‘ اور ’کھانے [یا ظہرانے] میں ساتھیوں کو شریک کرنا‘ جیسے الفاظ سنیں گے بھی نہیں تو سمجھیں گے کیسے؟
اُردو زبان ہماری قومی و ملّی روایات کی امین ہے۔ تمام پاکستانی زبانیں اُردو کی ہم شیر زبانیں ہیں۔ اُردو اور دیگر پاکستانی زبانوں میں مشترک رسم الخط اور مشترک الفاظ کا ایک مستحکم رشتہ ہے۔ یہ اعزاز انگریزی کو حاصل نہیں۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ انگریزی ہماری قوم کو طبقات میں تقسیم کرتی ہے… اعلیٰ اور ادنیٰ طبقات میں، حاکم اور محکوم طبقات میں اور معاشرتی سطح پر بلند و پست طبقات میں۔ جب کہ اُردو اس قوم کے تمام طبقات کو باہم مربوط کرتی ہے۔ انھیں ایک صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی میں اُردو کا اہم کردار ہے۔
پاکستانی زبانوں ہی پر کیا موقوف؟ برصغیر میں بولی جانے والی تمام زبانوں اور اُردو میں مشترک الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ برصغیر سے باہر نکلیے تو فارسی، ترکی اور عربی سے بھی اُردوکا مضبوط رشتہ نکلے گا۔ اُردو سب کو جوڑنے والی زبان ہے۔ انگریزی ہمارے خطے میں جڑے ہوؤں کو بھی توڑنے کا کام کررہی ہے۔ اِس کم بخت انگریزی کے پیچھے دیوانے ہوجانے کی وجہ سے ہمارے اپنے بھی ہمیں بیگانے محسوس ہونے لگے ہیں۔ ہم مسلم اُمہ اور عالمِ اسلام کی تمام زبانوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ انگریزی میں ابلاغ کی غیر فطری کوشش کرتے رہنے کی مشق میں مبتلا ہوکر ہمیں اپنے ہمسایوں کی زبان سے بھی آشنائی کی فرصت نہیں رہی۔ ہمسایوں کی زبان تو پھر بھی ذرا دورکی بات ہے، ہمارے بچوں کی اپنے ملک کی زبانوں اور خود اپنی مادری زبان سے بھی شناسائی نہیں رہی۔ البتہ سات سمندر پار کی زبان بچوں کے منہ میں بالجبرگھسیڑی جا رہی ہے۔
زبان محض حروف و الفاظ کا نام نہیں۔ یہ اپنی تہذیب، اپنے تمدن، اپنی ثقافت، اپنی روایات، اپنی اقدار اور اپنے عقاید کے اظہار کا اوزار ہے۔ قومی زبان سے محرومی کے ساتھ ساتھ یہ قوم اپنی ہر چیز سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت قومی نشریاتی اداروں پر، انگریزی میں اُردو کے حروفِ ربط ملا ملا کر، جو بولی بولی جارہی ہے، وہ ہماری زبان نہیں۔ وہ تو ولایتی مرغی خانوں میں مصنوعی طریقوں سے پروان چڑھنے والے فارمی چوزوں کی ’چوں چوں‘ ہے اور ہمارے نشریاتی ادارے ’چوں چوں کا مربّہ‘۔