26 اگست 1941ء… سنِ عیسوی کی ایک تاریخ ساز تاریخ ہے، جب پورے برصغیر پاک و ہند سے پچھتر منتخب افراد لاہور کے تاریخی شہر کے علاقہ اسلامیہ پارک میں جمع ہوئے اور مختصر افرادی و مادی قوت کے باوجود دنیا میں ’اسلامی انقلاب‘ برپا کرنے کے عزم صمیم کے ساتھ ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے منظم ہونے کا فیصلہ کیا۔ تب سے اب تک کی طویل جدوجہد میں اس ’جماعت اسلامی‘ نے خود کو ایک منفرد اور مثالی جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرایا ہے۔ محدود وسائل اور افرادی قوت کے باوجود ’جماعت اسلامی‘کی دعوت نے پوری دنیا میں اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ برصغیر بلکہ پورے عالمِ اسلام میں گزشتہ ایک صدی میں جنم لینے والی مختلف دینی و مذہبی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ کم و بیش سب ہی ایک محدود دائرے یا علاقے سے باہر اپنا اثر محسوس کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں، البتہ برصغیر میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور عالمِ عرب میں سید حسن البناؒ کے افکار کی روشنی میں جنم لینے والی تحریکوں نے عالم گیر سطح پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ دونوں تحریکیں قرآن و سنت کو ایک زندہ و متحرک نظامِ حیات کی حیثیت سے دنیا میں غالب کرنے کی داعی ہیں، اور آج دنیا کے بہت سے ممالک میں تو اپنے ابتدائی ناموں ’جماعت اسلامی‘ اور ’اخوان المسلمون‘ کے طور پر ہی کام کررہی ہیں، جب کہ بہت سے دیگر ملکوں میں دیگر مختلف ناموں سے اسی سوچ و فکر کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اور وہ جو علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ’’کھٹکتا ہوں دلِ بزداں میں کانٹے کی طرح‘‘، اس وقت عالمی سامراج اور بین الاقوامی ساہوکار بھی عملی سیاسی نظام کے طور پر اسلام کو غالب کرنے کی اس تحریک کو اپنے لیے خطرہ اور مدمقابل سمجھتے ہیں۔
پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اور یہاں کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوری ہونے کی دعویدار ہیں، مگر عمل کے میدان میں ان میں سے غالب اکثریت کا جمہوری اقدار و روایات سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کوئی بھی جماعت اپنے اندرونی انتخابات کروانے پر آمادہ ہے نہ اپنے ارکان یا کارکنان کو پارٹی قیادت کے انتخاب کے لیے رائے دہی کا حق دینے پر تیار ہے۔ خالص سیاسی جماعتیں ہوں یا دینی سیاسی جماعتیں، سب پر خاندانی قیادتوں کا تسلط ہے۔ یہ خاندان اپنے خوشامدی ٹولے کو جمع کرکے بار بار اپنے حقِ قیادت پر مہرِ تصدیق ثبت کروا لیتے ہیں، قیادت پر فائز کوئی فرد اگر زندگی کی بازی ہار جائے یا کسی دوسرے سبب سے قیادت سنبھالنے کے قابل نہ رہے، تب بھی قیادت کا سہرا اسی خاندان کے کسی دوسرے فرد کے سر پر سجا دیا جاتا ہے۔ پارٹی میں کوئی دوسرا فرد کتنا بھی باصلاحیت ہو، قیادت کا اہل بہرحال نہیں ہوسکتا۔ صرف جماعت اسلامی ایسی جماعت ہے جس پر کسی خاندان کی اجارہ داری نہیں، حتیٰ کہ جماعت کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے خاندان کو جماعت کے کسی منصب پر حق جتانے کا کوئی استحقاق حاصل نہیں۔ جماعت میں خالصتاً جمہوری انداز میں مقررہ وقفوں کے بعد ہر سطح کی قیادت کے لیے انتخاب اور استصواب کا طریقِ کار رائج ہے۔ ارکان اور کارکنان جس کے حق میں رائے دیں، وہ منتخب قرار پاتا ہے۔ مالی حیثیت دیکھی جاتی ہے نہ خاندانی وابستگی… سیاسی قد کاٹھ کام آتا ہے نہ سماجی مرتبہ… تقویٰ، اللہ، رسولؐ کی اطاعت، امانت و دیانت اور صلاحیت و اہلیت البتہ پیش نظر رکھی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان ہی نہیں خطے کے دیگر ممالک بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما اور نیپال وغیرہ میں بھی قیادت وراثت ہی میں منتقل ہونے کی روایت مستحکم ہے۔ تاہم ان ممالک میں بھی جماعت اسلامی میں جمہوری انداز ہی میں قیادت کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔
پاکستانی سیاسی ومذہبی جماعتوں کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی اندرونی گروہ بندیاں اور تقسیم در تقسیم ہے۔ ہر جماعت مختلف مفادات اور معمولی اختلافات کی بنیاد پر کئی کئی گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے، تاہم جماعت اسلامی کو اللہ تعالیٰ نے تقسیم کے اس عمل اور گروہ بندی سے بھی محفوظ رکھا، اور اتحاد و اتفاق اختلافِ رائے کی آزادی کے باوجود جماعت کا طرۂ امتیاز ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت مذہبی، لسانی، علاقائی یا طبقاتی تعصبات کی علَم بردار ہے اور انہی بنیادوں پر یہ منظم کی گئی ہیں، جب کہ جماعت اسلامی ان تمام تعصبات اور ذات برادری کے تعلق سے بالاتر ہوکر اسلام اور پاکستان سے وابستگی کی اساس پر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
جماعت اسلامی اس لحاظ سے بھی انفرادیت کی حامل ہے کہ اس میں اپنے ارکان و کارکنان اور وابستگان کی تعلیم و تربیت کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے لیے مرکز میں اور نچلی سطحوں پر باقاعدہ ایک نظام کے تحت کام کیا جاتا ہے جو کارکنوں کی ذاتی اصلاح اور نظریاتی پختگی کا سبب ہے۔ اس تعلیم و تربیت کا ایک ثمر یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنان کی امانت و دیانت پر اپنے پرائے سب ہی اعتماد کرتے ہیں اور کوئی کٹّر سے کٹّر مخالف بھی جماعت کے لوگوں پر آج تک بدعنوانی کا الزام عائد نہیں کرسکا، بلکہ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ملک کے منصف ِاعلیٰ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر امانت و دیانت کو معیار بنایا گیا تو صرف جماعت اسلامی کے امیر ہی اس معیار پر پورا اتر سکیں گے۔ یہ بھی نہیں کہ جماعت کے لوگوں کو ذمہ داریوں پر آزمایا نہ گیا ہو، یعنی انہیں بدعنوانی یا بددیانتی کا موقع ہی نہ ملا ہو… جماعت کے لوگ بلدیاتی اداروں سے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور ایوانِ بالا تک کے رکن رہے، وفاقی و صوبائی وزارتوں کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں اور بلدیاتی اداروں کے سربراہ بھی رہے، اور اپنی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کرایا، مگر کسی پر بدعنوانی کا الزام آج تک نہیں آیا۔ اس صاف ستھرے کردار کے حامل افراد کی فراہمی میں جماعت اسلامی کے اندر موجود داخلی احتساب کے نظام کا بھی خاصا دخل ہے جس کے ذریعے جماعت کے اندر موجود کمزور کردار کے افراد کی اصلاح بھی ہوتی رہتی ہے اور چھانٹی بھی۔
خلقِ خدا کی خدمت میں بھی جماعت اسلامی ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اگرچہ ملک کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں میں سے کوئی جماعت سے وابستگی کا متحمل ہونا گوارا نہیں کرتا، اس کے باوجود اپنے کارکنوں کے ایثار اور مخیر حضرات کے تعاون سے جماعت اسلامی ملک میں خدمتِ خلق کے شعبے میں ایسی خدمات انجام دے رہی ہے جس کا تصور بھی دیگر سیاسی جماعتیں بے پناہ وسائل کی دستیابی کے باوجود نہیں کرسکتیں۔ جماعت کے کارکنان آفاتِ سماوی و ارضی کے موقع پر مصیبت زدہ افراد کی مدد میں ہمیشہ سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں، خدمتِ خلق کے مستقل منصوبوں میں جماعت اسلامی کے زیراہتمام غریب اور مستحق شہریوں کے علاج معالجہ اور بچوں کی تعلیم کے لیے اسپتال اور تعلیمی ادارے، جب کہ بے سہارا بچوں کے لیے ’’آغوش‘‘ کے نام سے معیاری ادارے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر دیگر جماعتیں بھی جماعت اسلامی ہی کی طرز پر منظم اور جمہوری انداز میں کام اور خدمتِ خلق کو شعار بنا لیں تو ملک و قوم اور عوام کو اکثر مسائل و مصائب سے بآسانی نجات مل سکتی ہے۔ (حامد ریاض ڈوگر)