تذکرہ علمائے عرب (دوجلدیں)

عابد حسین شاہ پیرزادہ (چکوال، پاکستان) معروف علمی شخصیت ہیں۔ تحریر و تقریر کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ آپ نے روزگار کے سلسلے میں ایک بڑا عرصہ عرب ممالک میں قیام کیا۔ اس دوران علمی و تحقیقی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا اور عرب ممالک کے اہم سرکاری و نجی کتب خانوں نیز اہلِ علم سے بھرپور استفادہ کیا۔ گزشتہ تین دہائیوں سے آپ کے علمی و تحقیقی مقالات ملکی اور غیر ملکی جرائد و رسائل میں شائع ہورہے ہیں۔ آپ کے تحریری کام کا بیشتر حصہ عربی ادب، عرب علماء کے تذکروں، نیز ان کے علمائے پاک و ہند سے روابط پر مشتمل ہے۔

پیشِ نظر کتاب عابد حسین شاہ کے عرب علماء کے تذکروں پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں 11 مقالات ہیں۔ ان میں سے بعض مختلف قلمی ناموں سے پہلے کتابی صورت میں یا کسی ماہنامہ وغیرہ میں قسط وار شائع ہوچکے ہیں۔ البتہ پیشِ نظر مجموعے میں ان کو یک جا کرکے فاضل محقق کے اصل نام سے شامل کیا گیا ہے۔ اس اہم کتاب کی ترتیب و تدوین کا فریضہ نوجوان محقق محمد ثاقب رضا قادری نے بہت محنت اور سلیقے سے انجام دیا ہے۔ فاضل مرتب نے کتاب کے آغاز میں دونوں جلدوں کے مشمولات کا ایک مختصرلیکن جامع تعارف بھی پیش کیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کی معلومات کے لیے اس قابلِ قدر کتاب میں شامل مقالات اور ان کا مختصر تعارف اختصار کے ساتھ یہاں پیش کردیا جائے۔ ’’تذکرہ علمائے عرب‘‘ کی پہلی جلد میں درجِ ذیل 11 مقالات شامل ہیں:

1۔ علمائے مکہ مکرمہ کے حالات پر عربی کتب: فاضل محقق نے اس مقالے میں علماء مکہ مکرمہ کے حالات پر تصنیف کی گئی تقریباً 53 عربی کتب و رسائل کی فہرست و تعارف پیش کیا ہے جو کہ 1300ھ سے 1422ھ تک تحریر ہوئیں۔ ان میں سے 19 کتب کسی خاص شخصیت کے تعارف و تذکرے یا ان کی اجازات و اسانید کے تعارف پر مشتمل ہیں، جب کہ 34 میں سے 6 اپنے موضوع کے اعتبار سے ممتاز ہیں جیسے: الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ و المدینہ، المدرسۃ الصولتیۃ، المدرسۃ الصولتیۃ بمکۃ المکرمۃ، الاسرۃ القرشیۃ، اعیان مکۃ المحمیۃ، المدرسون فی الحرم المکی الشریف، الدور التربوی والثقافی لمدارس الفلاح۔ دیگر 28 کتب و رسائل میں علماء مکہ مکرمہ کے عمومی تذکرے ہیں۔

2۔ سلک الدرر اور اس کے مصنف کا تعارف: اس مقالے کی ابتدا میں فاضل محقق نے بارہویں صدی ہجری کے مشاہیر کے احوال پر مشتمل 18 اہم کتب کی فہرست دی ہے۔ اس کے بعد کتاب کا عمومی تعارف، اہمیت وخصائص پیش کیے ہیں، نیز اسلامیانِ پاک وہند سے اس کا تعلق بیان کیا ہے۔ فاضل محقق کے مطابق ’’سلک الدرر‘‘ پاکستان، ترکی، سعودی عرب، شام، عراق، فلسطین، لبنان، مصر، ہندوستان وغیرہ ممالک سے تعلق رکھنے والے کُل 763 مشاہیرِ اسلام کا تذکرہ ہے جن میں علماء، اولیاء، مجاذیب، ادباء، شعراء، اطباء، وزراء اور دیگر حکام شامل ہیں۔

3۔ حلیۃ البشر۔ تیرہویں صدی ہجری کے مشاہیرکا اہم عربی تذکرہ: اس مقالے میں تیرہویں صدی ہجری کے علماء و مشائخ ودیگر مشاہیر کے تعارف و تذکرے پر مشتمل ایک اہم عربی کتاب ’’حلیۃ البشر‘‘ کا تفصیلی وتحقیقی جائزہ پیش کیا گیاہے۔ ان مشاہیر میں عثمانی خلفاء، بادشاہان، وزراء و دیگر اعلیٰ حکام، علماء و فقہاء، مختلف مکاتب فکر کے پیشوایان، ادباء، شعراء، اولیاء اللہ، صوفیہ ومجاذیب شامل ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو حلیۃ البشر اردن، افغانستان، الجزائر، ایران، بحرین، بوسنیا، ترکی، تیونس، شام، سعودی عرب، سوڈان، فلسطین، لبنان، عمان، لیبیا، مراکش، مصر، ہندوستان و یمن سے تعلق رکھنے والے 875 اہم مشاہیر کے تعارف پر مشتمل ہے۔

4۔ فیض الملک الوھاب کا جائزہ و تعارف: تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری کے مشاہیر کے تعارف واحوال پر مشتمل نہایت اہم کتاب ’’فیض الملک الوھاب‘‘ شیخ عبدالستار بن عبدالوہاب دہلوی کی عربی تصنیف ہے۔ فاضل محقق نے اس مقالے کے آغاز میں مولانا عبدالستار دہلوی کا خاندانی پس منظر اور ذاتی تعارف، اساتذہ و مشائخ اور تصنیفی خدمات کو جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کے بعد کتاب کا عمومی تعارف کروایا ہے۔ فاضل محقق کے مطابق ’’فیض الملک الوھاب‘‘ الجزائر، افغانستان، پاکستان، ترکی، تیونس، سعودی عرب، سوڈان، شام، عراق، فلسطین، لبنان، مراکش، ہندوستان اور یمن سے تعلق رکھنے والے علماء ومشائخ، صحافیوں، ادباء، شعراء، مورخین، قانون دانوں، سیاسی زعما، وزراء، فوجی قائدین، سماجی کارکنوں کے تعارف پر مشتمل ہے، نیز بعض مسیحی مشاہیر کا تعارف بھی شاملِ کتاب ہے۔ اس کتاب میں مجموعی طور پر تقریباً 1769 مشاہیر کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

5۔ الاعلام الشرقیہ۔ چودہویں صدی ہجری کے مشاہیر کا اہم عربی تذکرہ: اس کتاب میں مختلف مذاہب اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مثلاً بادشاہوں و سربراہان، قوم پرست رہنمائوں، وزراء و سفراء، افسران ِافواج، علماء ِاسلام، ججوں اور وکلاء، صوفیہ کرام، مورخین، صحافیوں، ادبا، شعراء، مصنفین وغیرہ کا تعارف واحوال شامل کیا گیا ہے جو کہ 1301ھ تا 1365ھ مطابق 1883ء تا 1946ء کے عرصے میں وفات پاگئے۔ کُل شخصیات 1294 ہیں لیکن فاضل محقق کے نزدیک تکرار کو حذف کرنے کے بعد تعداد 1277 بنتی ہے۔

6۔ اعلام مصر فی القرن الرابع عشر الھجری معروف بہ تکملۃ تاریخ الجبرتی عجائب الآثار۔ چودہویں صدی ہجری کے مصری مشاہیر کے احوال پر غیر مطبوعہ اہم عربی کتب کا تعارف: اس مقالے میں فاضل محقق نے چودہویں صدی ہجری کے مصری مشاہیر کے متعلق ایک غیر مطبوعہ کتاب کی تین جلدوں کا تعارف تحریر کیا ہے، جب کہ مکمل کتاب 6 جلدوں پرمشتمل ہے۔ پہلی تین جلدیں تیرہویں صدی ہجری کے مشاہیر کے تعارف پر مشتمل ہیں۔ فاضل محقق نے پیشِ نظر کتاب کے متعلق لکھا ہے کہ مصر کے ایک اہم حنفی عالم ومورخ شیخ عبدالرحمٰن بن حسن بن ابراہیم جبرتی نے اپنی کتاب ’’تاریخ جبرتی‘‘ میں 1688ء سے 1820ء تک کے احوال تحریر کیے تھے، جب کہ شیخ حسن بن قاسم کوہن نے اسی بنیاد پر 1821ء سے 1869ء تک کے احوال تحریر کیے ہیں لیکن یہ کتاب ابھی شائع نہیں ہوسکی ہے۔ فاضل محقق کو اس کی تین جلدیں میسر آئیں جن کا تعارف اس مقالے میں تحریر کیا گیا ہے۔

7۔ معجم المولفین۔ عربی کتب کے مصنفین کا عظیم تذکرہ: اس مقالے میں فاضل محقق نے شیخ عمر بن رضا کحالہ کی کتاب ’’معجم المولفین‘‘ کے مندرجات کا تعارف لکھا ہے، نیز چند اغلاط کی نشان دہی بھی کی ہے۔ اس کتاب میں تقریباً انیس ہزار مصنفین کا تعارف دیا گیا ہے۔

8۔ مکہ مکرمہ کے ’’عجیمی‘‘ علماء: اس مقالے میں فاضل محقق نے مکہ مکرمہ میں گزشتہ تین صدیوں تک علم دین کی خدمت و اشاعت میں مصروفِ عمل رہنے والے خاندان کی 27 ذی علم شخصیات کا تعارف کروایا ہے، نیز اسلامیانِ ہند سے اس خاندان کا ربط بھی نمایاں کیا ہے۔ عجیمی خاندان کی 27 شخصیات کے تفصیلی تعارف کے ساتھ ساتھ فاضل محقق نے مقالے میں ضمنی طور پر ذکر ہونے والی تقریباً 204 علمی شخصیات کا مختصر تعارف بسا اوقات متن میں، اور تفصیلات کے لیے حواشی میں ماخذ کی نشان دہی کردی ہے جو کہ واقعتاً ایک عظیم علمی خدمت ہے۔

9۔ مکہ مکرمہ کے کُتبی علماء: تیرہویں صدی سے چودہویں صدی ہجری کے وسط تک مکہ مکرمہ میں علمی خدمات سرانجام دینے والے کُتبی خاندان کی چار اہم شخصیات کا مفصل تعارف اس مقالے میں پیش کیا گیا ہے، جب کہ ضمنی طور پر ایک سو کے قریب دیگر علماء کے مختصر کوائف بھی شاملِ مقالہ ہیں۔

10۔ دمشق کے غلایینی علماء: اس مقالے میں فاضل محقق نے چودہویں صدی ہجری میں دمشق (شام) میں نمایاں طور پر علمی خدمات انجام دینے والے غلایینی خاندان کی شخصیات کا مفصل تعارف کروایا ہے۔ ان علماء کے اساتذہ، تلامذہ، خلفاء و دیگر متعلقین کے ضمن میں پچاس سے زائد دیگر اہلِ علم کا تعارف بھی شاملِ مقالہ ہے۔

11۔ تذکرہ سنوسی مشائخ: الجزائر سے تعلق رکھنے والے مجاہد ِکبیر شیخ سید محمد بن علی خطابی ادریسی حسنی سنوسی سے منسوب اس سلسلے نے انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں متعدد عرب ممالک کی آزادی، فروغِ علم، امت ِمسلمہ میں اتحاد پیداکرنے کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ صوفیہ کے سلسلہ شاذلیہ کی اس شاخ کو سلسلہ سنوسیہ یا سنوسی تحریک کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ فاضل محقق نے اس سلسلے کے مشائخ کی علمی تحریکی خدمات پر مشتمل یہ تفصیلی مقالہ تحریر کیا جس میں سلسلے کے مشائخ کے علاوہ متن وحواشی میں لگ بھگ 75 دیگر شخصیات کا تعارف ضمنی طور پر دیا گیاہے یا ان کے تعارف کے لیے ماخذ کی نشان دہی کردی گئی ہے۔ نیز اسلامیانِ پاک و ہند سے سنوسی مشائخ کے ربط و تعلق کو بھی واضح کیا ہے۔

جب کہ دوسری جلد میں 6 مقالات شامل ہیں جن کی ترتیب و تعارف حسبِ ذیل ہے:

1۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کے عرب مشائخ: اس مقالے میں فاضل محقق نے ’’ظفر المحصلین‘‘ کی ایک عبارت کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے سفرِ حجاز اور اس دوران عرب مشائخ سے استفادہ کرنے کا مختصر احوال درج کیا ہے، نیز مستند ذرائع سے ان مشائخ کا تعارف تحریر کیا ہے۔

2۔ عرب دنیا کے نقشبندی مشائخ: اس مقالے میں فاضل محقق نے سلسلۂ نقشبندیہ کی شاخ مجددیہ سے وابستہ عرب مشائخ کا تعارف تحریر کیا ہے۔ ابتدا میں برصغیر پاک و ہند کے اُن مشائخ کا تعارف تحریر کیا ہے جن کی وساطت سے یہ شاخ عرب کے مختلف ممالک میں پھیلی۔

3۔ شیخ الازہر عبداللہ شرقاوی: اس مقالے میں شیخ الازہر عبداللہ شرقاوی کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ علامہ شرقاوی اپنے وقت کے عظیم صوفی، شیخ طریقت، جید عالم دین اور مصنف و مبلغ تھے۔ آپ شیخ الازہر کے منصب ِجلیلہ پر فائز رہے۔ تفسیر صاوی کے مصنف شیخ احمد بن محمد صاوی اور شیخ ابراہیم باجوری جیسے جلیل القدر علماء و مشائخ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں۔

4۔ علامہ سید احمد طحطاوی حنفی: اس مقالے میں مفتی اعظم مصر خاتم المحققین امام طحطاوی کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ علامہ طحطاوی فقہ حنفی کے جلیل القدر عالم دین تھے۔ ان کی تصانیف میں بالخصوص حاشیہ درالمختار اور حاشیہ مراقی الفلاح عرب و عجم کے فقہاء کرام و مفتیانِ عظام میں متداول ومقبول اور امام طحطاوی کی علمی عظمت اور فقہی جلالت پر شاہد عادل ہیں۔

5۔ دورِ حاضر کے بعض عرب علماء کا تعارف: اس مقالے میں درجِ ذیل علماء کا تعارف تحریر کیا گیا ہے:

ڈاکٹر شیخ محمد انیس عبادہ، ڈاکٹر محمد ابوالوفا بن محمد غنیمی تفتازانی، شیخ سید محمد زکی الدین بن خلیل ابراہیم حسنی، ڈاکٹر محمد ضیاء الدین بن محمد نجم الدین بن محمد امین کردی، ڈاکٹر شیخ سید محمد حسن بن علوی مالکی، ڈاکٹر شیخ محمد ابراہیم فیومی، ڈاکٹر شیخ عوض اللہ جاداحمد حجازی، شیخ سید عبدالغنی بن صالح جعفری، شیخ عبدالحفیظ فرغلی علی قرنی، ڈاکٹر شیخ علی معبد فرغلی، ڈاکٹر سید محی الدین احمد صافی حسینی، ڈاکٹر شیخ محمود حمدی زقزوق، ڈاکٹر شیخ سید طہ بن دسوقی حبیشی، ڈاکٹر شیخ محمد عبدالفضیل محمد القوصی، ڈاکٹر شیخ عبدالحمید علی عزالعرب، ڈاکٹر شیخ احمد عمر ہاشم، مفتی شیخ علی جمعہ، شیخ سید حبیب علی بن عبدالرحمٰن جفری۔

6۔ تاریخ الدولۃ المکیۃ: یہ مقالہ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی ایک عربی کتاب ’’الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ‘‘ کی تاریخ یعنی سببِ تالیف و اثرات پر مشتمل ہے۔ کتاب کی تالیف اور تشہیر و طباعت میں معاونت کرنے والے اربابِ علم کے علاوہ تقاریظ لکھنے والے علماء و مشائخ کا تعارف بھی شاملِ مقالہ ہے۔

کتاب میں شامل دیگر مقالات کی فہرست حسبِ ذیل ہے: 7۔ علامہ عبدالرحمٰن ابن جوزی، 8۔ شیخ سید محمد حقی نازلی، 9۔ شیخ یونس بن ابراہیم سامرائی، 10۔ مبلغِ اسلام شیخ سید عبدالقادر الجنید شافعی، 11۔ شیخ محمد ابوزہرہ مصری، 12۔ فضیلۃ الشیخ محمد علی مراد، 13۔ محدث اعظم مصر شیخ سید محمد حافظ تجانی مالکی، 14۔ شیخ علماء مکہ مکرمہ سید محمد علوی مالکی اور پاک وہند کے اہلِ سنت و جماعت، 15۔ شیخ محمود بن حسن ربیع مالکی ازہری۔
بعض اہم عرب علماء و مشائخ کے انتقال پر فاضل محقق کی مختصر تحریریں مختلف اردو ماہناموں میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ مرتب نے انھیں بھی کتاب کے آخر میں ’’وفیات‘‘ کے عنوان سے شامل کردیا ہے، ان وفیات کی فہرست حسبِ ذیل ہے: 16۔ شیخ الاسلام ابراہیم سمنودی، 17۔ مفسر و مبلغ شیخ سید محمد متولی شعراوی، 18۔ مبلغِ اسلام شیخ برعی، 19۔ شیخ محمد تیسیر مخزومی دمشقی، 20۔ مفتی اعظم عراق شیخ عبدالکریم، 21۔ عارف باللہ مفتی شیخ سید عبدالقادر سقاف۔
کتاب میں شامل مذکورہ بالا مقالات کے تعارف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کتاب کسی خاص دور یا عرب کے کسی خاص خطے سے متعلق علماء کا باقاعدہ تذکرہ نہیں ہے بلکہ فاضل محقق نے مختلف اوقات میں یہ مقالات تحریر کیے، جس کا مقصد علماء عرب کی علمی، تحقیقی اور تحریکی خدمات سے برصغیر پاک و ہند کے اہلِ علم کو متعارف کروانا تھا۔ یوں یہ ایک باقاعدہ تذکرے کی کتاب نہ سہی لیکن علماء عرب کے احوال پر اردو زبان میں اپنی نوعیت کی ایک مبسوط اور لائقِ قدر کتاب ہے جس کے لیے فاضل محقق عابد حسین شاہ پیرزادہ اور لائق مرتب محمد ثاقب رضا قادری قابلِ مبارک باد ہیں۔
nn