ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد میں اور جامعہ پنجاب کی یونین بحال کرانے میں لاہور جمعیت نے اُس دور میں بڑی منظم جدوجہد کی۔ میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ اُس دور کے اخبارات و رسائل دیکھ کر ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ تحریک کس انداز سے چلی اور اس میں جمعیت کا کتنا حصہ تھا۔ اس دور میں ہم سرد راتوں کو شہر میں اشتہارات لگاتے اور دن کو کلاسیں اٹینڈ کرتے۔ اجتماعات منعقد کرتے، طلبہ سے رابطہ قائم کرتے اور اعانتیں جمع کرنے کے لیے شہر کی خاک چھانتے۔ اس کے ساتھ اُس دور میں کم و بیش ہر روز کوئی نہ کوئی مظاہرہ حکومتی آمرانہ پالیسیوں اور غیراسلامی احکام کے خلاف طے ہوتا، اور ہمیں سڑکوں پر آنا پڑتا۔ پولیس سے کم و بیش ہر روز جھڑپیں ہوتیں اور سخت صورتِ حال کا سامنا رہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑا پُرآشوب دور تھا۔ مختلف طلبہ تنظیمیں ایم ایس ایف، این ایس ایف، پی ایس ایف، پی ایس او، این ایس او، اور بعض مذہبی تنظیمات بھی ہماری مخالفت کے لیے سڑکوں اور تعلیمی اداروں میں متحرک رہتی تھیں۔ اللہ کے فضل سے ہم اکیلے ان سب محاذوں پر سارے مخالفین کا پوری استقامت کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کررہے تھے۔
لاہور جمعیت کے پاس اُس وقت ایک سائیکل تھی جو میرے ناظم بننے کے بعد خصوصی فنڈ جمع کرکے خریدی گئی تھی۔ جب بھی کبھی کوئی مہم چلتی… اور یاد رہے کہ وہ دور مسلسل مہمات کا دور تھا… تو شہر کو زون اور حلقے بنا کر کارکنوں کی ٹولیوں میں تقسیم کردیا جاتا۔ ناظمِ لاہور رات کو شہر کے مختلف حلقوں میں کارکنوں کی ٹیموں کو مصروفِ کار دیکھنے کے لیے اپنی سائیکل لے کر نکل کھڑا ہوتا۔ کارکنوں کا شوق اور جذبہ نہایت ایمان افروز اور مثالی ہوا کرتا تھا۔ ہر گروپ سے ملاقات اور کارکنان کی حوصلہ افزائی، سرد راتوں میں جو لطف دیتی اس کی شیرینی اب تک دل و دماغ اور جسم کی رگوں میں محسوس کرتا ہوں۔ وہ دن اور وہ راتیں زندگی کا حاصل ہیں۔ اُس دور میں تعلیمی اداروں میں تعلیم کے سلسلے میں تعطل بھی آجایا کرتا تھا۔ احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے اکثر کالج اور جامعات بند رہتی تھیں اور طلبہ کو ہاسٹلوں سے نکال دیا جاتا تھا۔
پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے، میں اورینٹل کالج کے وولنر (woolner) ہاسٹل میں رہتا تھا۔ چند سالوں سے اسلامی جمعیت طلبہ لاہور نے سعید منزل انارکلی کا ایک پورا فلور دفتر کے لیے کرائے پہ حاصل کر رکھا تھا۔ اس کے ایک بڑے کمرے میں بھی اُس زمانے میں طلبہ بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہوتے تھے۔ وہاں پر ایک بہت بڑی اجتماعی رضائی بڑی نعمت تھی۔ فرش پر سادہ سا قالین ہوتا تھا۔ اس پر سات آٹھ طلبہ آسانی کے ساتھ سردیوں میں اس رضائی کے اندر رات بسر کرسکتے تھے۔
کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ وولنر ہاسٹل میں، مَیں نے اپنے کمرے میں بھی اپنی چارپائی کے علاوہ ایک چٹائی بچھا رکھی تھی جو دو تین مہمانوں کے لیے استراحت اور شب گزاری کا کام دیتی تھی۔ وولنر ہاسٹل کے اُس دور کے سپرنٹنڈنٹ پروفیسر سید اکرم شاہ مرحوم (شعبہ فارسی) کا ذکر بھی اُن کے احترام و اکرام کی وجہ سے دوبارہ کررہا ہوں۔ مرحوم نہایت کریم الخلق اور شریف النفس انسان تھے۔ حکومتی احکام کے تحت ہاسٹلوں کی بندش کی وجہ سے میری موجودگی اگرچہ انتظامیۂ جامعہ کے احکام کے خلاف تھی مگر سید صاحب ہمیشہ چشم پوشی فرماتے، ان کی شفقت کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ ہمارے کام کے خاموش حامی اور قدردان تھے۔
1968ء میں بائیں بازو کے طلبہ سے کئی مرتبہ جھڑپیں ہوئیں۔ جمعیت کے دفتر سعید منزل سے قریب ہی جماعت اسلامی لاہور کا دفتر نیلا گنبد میں تھا۔ جماعت اور بانیِ جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے خلاف مختلف لادینی، کمیونسٹ اور بعض مذہبی شخصیات اور ان کے جرائد و رسائل مسلسل زبانی اور تحریری فتنے پھیلانے میں مصروف رہتے تھے۔ اسی زہر آلود فضا میں فتنہ پردازوں نے پُرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔ اسی دوران ایک روز جماعت اسلامی لاہور کے دفتر نیلا گنبد پر اشتراکی عناصر نے حملہ کیا اور قرآن مجید کو جلانے کی ناپاک اور شیطانی حرکت کی۔ اس روز انارکلی بازار میں ان غنڈہ عناصر سے ہم دو تین ساتھیوں کی مڈبھیڑ ہوئی۔ انھوں نے ہم پر حملہ کردیا۔ اس لڑائی کے دوران میں زخمی ہوگیا، لیکن مخالف گروپ کو بھی ہم نے خوب رگڑا دیا۔ پھر ہماری مدد کے لیے آنے والے جمعیت اور ڈیموکریٹک یوتھ فورس کے کارکنوں اور جماعت اسلامی لاہور کے بہادر قیم صفدر حسن صدیقی نے، جو اچانک ادھر آ نکلے، ان کے ہجوم کو مار بھگایا۔
ایک حملہ آور کی پٹائی کرتے ہوئے میں نے اس کی عینک بھی چھین لی۔ اگلے دن وہ میرے پاس دفتر میں آیا اور منتیں کرنے لگا کہ وہ غریب آدمی ہے، اپنی نظر کی عینک چھن جانے کی وجہ سے وہ شدید پریشانی میں ہے، خدا کے لیے اس کی عینک واپس کردی جائے۔ کچھ دوستوں نے اس کی دوبارہ مرمت کرنے کا ارادہ کیا، مگر میں نے سختی سے منع کردیا۔ اسے قالین پر بٹھایا اور اس کا پورا تعارف حاصل کیا۔ نام تو اب یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ وہ اندرون شہر لوہاری گیٹ کا رہنے والا تھا۔ میں نے اس کی عینک واپس کی اور پوچھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ کب حملہ کرنے کے لیے آئے گا؟ اس نے بے بسی سے میرے پائوں پکڑ لیے اور کہا کہ وہ کبھی ہماری مخالفت نہیں کرے گا۔ پھر ایک آدھ مرتبہ بازار میں اس سے آمنا سامنا ہوتا تو بڑے احترام سے ملا۔ اب پتا نہیں دنیا میں ہے یا خلد کو سدھار گیا ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے۔
قرآن مجید جلنے کے واقعے پر بعض مذہبی اور غیر دینی عناصر نے ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہاں تک بکواس کردی کہ قرآن کب جلا ہے، یہ تو مودودی کی ’’گمراہ کن‘‘ تفسیر قرآن تھی (اشارہ تھا تفہیم القرآن کی طرف)۔ اندازہ کیجیے جب انسان گرتا ہے تو کیسے اسفل سافلین کی منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے! تفسیر سے علمی انداز میں دلائل کے ساتھ اختلاف کریں تو کوئی بات نہیں، مگر اس میں قرآن پاک کا جو متن ہے، اس کی بے حرمتی کے لیے کیا دلیل ہے۔ (یہ تحریر میں نے غالباً 1983ء میں یا 1982ء میںکینیا سے لکھ کر سلیم منصور خالد کو رسالہ ’’محور‘‘ جامعہ پنجاب کے خصوصی نمبر کے لیے بھیجی تھی)
ہماری عوامی سرگرمیوں کے ساتھ وقتاً فوقتاً مختلف سرکاری شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ مردان کے سیاسی ہوتی خاندان سے تعلق رکھنے والے 1968ء میں موجودہ وزیر تعلیم محمد علی خاں ہوتی، صوبائی وزیر تعلیم تھے۔ اب (1982ء میں) اگرچہ وہ مرکزی وزیر تعلیم ہیں مگر ان کا حلقہ وزارت اُس وقت بھی اتنا ہی بڑا تھا جس قدر آج پروموشن کے بعد ہے۔ اُس وقت کا صوبہ مغربی پاکستان ہی تو اب پاکستان رہ گیا تھا۔ مجیب، بھٹو اور یحییٰ خان کی سازشوں کا یہ کرشمہ ہے کہ جو کبھی ایک صوبہ اور ملک کا آدھا حصہ ہوا کرتا تھا، وہ اب پورا ملک ہے۔ لاہور میں متحدہ محاذ طلبہ کے نام سے 1968ء میں ایک وفاق بنایا گیا۔ مرکز جمعیت کے مشورے سے لاہور جمعیت بھی اس وفاق میں شامل ہوئی۔
اس دور میں بھی ہم نے محسوس کرلیا تھا کہ جمعیت کے سوا جتنی بھی نام نہاد طلبہ تنظیمیں ہیں ان کے اندر نہ تو کوئی نظم ہے اور نہ ہی کارکنان کی کوئی قوت۔ ہر تنظیم محض تین چار لیڈروں پر مشتمل ہے۔ جیبی یا کاغذی تنظیموں کا تذکرہ اس سے قبل بھی ہوچکا ہے۔ اس وفاق سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم نے ان تنظیموں کی اصل حقیقت پہچان لی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی حکمت عملی میں بھی مناسب تبدیلی کرلی۔ اس تبدیلی کے بارے میں آئندہ سطور میں مختصر سی جھلک آپ دیکھیں گے۔ بہرحال یہ وفاق تھوڑے ہی عرصے بعد ٹوٹ گیا۔
جمعیت کا ایک وفد ناظم لاہور کی قیادت میں اُس دور کے وزیرتعلیم محمد علی خان آف ہوتی سے ان کے دفتر میں ملا اور ان کی خدمت میں اپنا ایک میمورینڈم پیش کیا۔ اس میمورینڈم کی جھلکیاں اس دور کے اخبارات میں بھی چھپی تھیں اور جمعیت کے ریکارڈ میں بھی اس کی کاپیاں ہوں گی۔ اس کی اہم شقوں میں (1) یکساں نظام تعلیم، (2) اردو ذریعہ تعلیم، (3)مخلوط تعلیم کا خاتمہ،(4) خواتین کی ضرورت کے مطابق کالجز کا قیام، (5) خواتین یونیورسٹی کا قیام، اور(6) مقابلے کے امتحانات میں انگریزی کی جگہ اردو کا نفاذ وغیرہ کے مطالبات شامل تھے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہوتی صاحب نے اپنی ملاقات کے دوران جمعیت کی قوت، تنظیم اور بہترین ڈسپلن کا اعتراف کیا مگر عجیب بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ جمعیت کی جدوجہد کو ملکی سالمیت کے خلاف قرار دیا۔
میں نے بھی وزیر صاحب کے اس اعتراض کا بھرپور جواب دیا جس پر وزیر صاحب نے کسی ناراضی کا اظہار نہ کیا بلکہ خاموشی سے میرا مؤقف سنا۔ ہوتی صاحب سے خاصی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ ہوتی صاحب اس سے قبل جمعیت کے سالانہ اجتماعات کے دوران کھلے اجلاسوں میں جمعیت کی دعوت پر بطور مہمان خصوصی بھی شرکت کرچکے تھے۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اردو پریس میں، ہمارے مخالف اخبارات و رسائل بھی اور موافق بھی، لاہور کی حد تک تو جمعیت کی خبروں اور جدوجہد کی رپورٹ چھاپا کرتے تھے، مگر لاہور کا ’’پاکستان ٹائمز‘‘ ہمیشہ جمعیت کی خبروں کا مکمل بلیک آئوٹ کیا کرتا تھا۔ اس موقع پر پاکستان ٹائمز نے بھی اس میمورینڈم کے حوالے سے جمعیت کا تذکرہ طلبہ کے کالم میں کیا اور اس ملاقات کے احوال کے ساتھ ہمارے تمام اہم نکات بھی شائع کیے۔ یہ کالم لکھنے والے صحافی میرے ہم نام محمد ادریس ہوا کرتے تھے۔
1968ء کے آخر اور 1969ء کے آغاز میں پورا ملک بحالیِ جمہوریت کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ اس دور میں ایوبی آمریت نیم بسمل حالت میں تھی اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق ہر حربہ استعمال کرکے اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کررہی تھی۔ لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں اکثر کرفیو لگا رہتا تھا۔ اسی نوعیت کا ایک یادگار اور خوف ناک کرفیو وہ تھا جو لاہور میں (غالباً) جنوری 1969ء میں لگا۔ میں اس روز ایک بڑے جلوس کے اختتام پر چند ساتھیوں کے ساتھ مال روڈ سے واپس آرہا تھا کہ فوجی گاڑیاں حرکت میں دیکھیں، گاڑیوں سے اعلان ہورہا تھا کہ پانچ بجے شام سے پورے شہر میں مکمل کرفیو ہوگا اور کسی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوگی۔ باہر نکلنے پر گولی کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
میں جلدی سے وولنر ہاسٹل پہنچا۔ اس روز شہر میں پُرامن جلوس کے گزر جانے کے بعد بائیں بازو کے عناصر نے بہت بری طرح سے دکانوں کے شیشے توڑ کر وحشیانہ انداز میں لوٹ مار کی تھی۔ بازاروں کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ ہمارے جلوسوں اور مظاہروں پر اگرچہ پولیس آنسو گیس اور ربڑ کارتوس سے فائر کرتی تھی، مگر ہمارے کسی ساتھی نے کبھی توڑ پھوڑ کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔ بائیں بازو کی تنظیموں کی سوچ ہی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار پر مشتمل تھی۔ اپنے ملک میں اپنے شہریوں کی اشیا کی توڑ پھوڑ نہایت کریہہ اور گھنائونا عمل تھا۔ اس روز شام کو لگنے والا کرفیو اگلے 36 یا 40 گھنٹے مسلسل نافذ رہا اور ایک دن چھوڑ کر اگلے دن محض دو گھنٹے کے لیے صبح نو بجے سے گیارہ بجے تک کرفیو کی پابندی نرم کردی گئی۔
کرفیو سے قبل جمعیت کے ایک سابقہ اعلامیے اور پروگرام کے مطابق اس روز دس بجے اولڈ کیمپس سے ایک جلوس نکلنا تھا۔ عوام کرفیو کی نرمی سے فائدہ اٹھاکر کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کے لیے بھاگ دوڑ کررہے تھے۔ میں اپنے ہاسٹل سے باہر نکلا اور فوراً سعید منزل پہنچا۔ کئی کارکنان پہلے سے ہی یہاں قیام پذیر تھے۔ باقی طلبہ بھی اپنے گھروں سے یکے بعد دیگرے پہنچ گئے تھے۔ مجھ کو دیکھتے ہی سب دوستوں نے پوچھا اب کیا پروگرام ہے؟ میں نے کہا کہ اب ہم جلوس تو نہیں نکال سکیں گے مگر اولڈ کیمپس میں جلسہ ضرور کریں گے۔ ایک روز قبل مشرقی پاکستان میں پولیس فائرنگ سے ایک طالب علم (غالباً اسد اللہ نام تھا) شہید ہوگیا تھا۔ اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا اعلان کرکے ہم اولڈ کیمپس کے مال روڈ کی جانب والے لان میں جمع ہوگئے۔ تقریباً ساٹھ ستّر طلبہ اور ڈیموکریٹک یوتھ فورس کے نوجوان موجود تھے۔(جاری ہے)