کئی دہائیوں بعد اِس برس یوم آزادی کے موقع پر اولمپک کے میدان سے پاکستان کے لیے ایک اچھی خبر سننے کو ملی۔ جولین تھرو میں ارشد ندیم نے 32 برس بعد پاکستان کے لیے سونے کا تمغا جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کردیا۔ پیرس میں ہونے والے اولمپکس 2024ء میں 7 قومی ایتھلیٹ نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی، مگر ابتدائی مراحل میں ہی ہمارے 6 ایتھلیٹ کھیل سے باہر ہوگئے تھے، لیکن ارشد ندیم سونے کا تمغا جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ جولین تھرو کا فائنل مقابلہ 8 اگست کو ہوا، جس میں ارشد ندیم نے نہ صرف اپنی شاندار کامیابی کو یقینی بنایا بلکہ قوم کو پہلی بار اس کھیل سے متعارف کروایا اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ کھیل کیا ہے اور کیسے کھیلا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ارشد ندیم اگرچہ اچھے کھلاڑی ہیں مگر وہ اولمپکس میں سونے کا تمغا جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، کیونکہ ان مقابلوں میں دنیا کے بہترین کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں اور اُن کے پاس ارشد ندیم کے مقابلے میں زیادہ تجربہ بھی ہے اور سہولتوں سمیت اعلیٰ کوچز بھی انہیں دستیاب ہیں۔ جبکہ پاکستان کے ارشد ندیم کے پاس نہ تو عالمی معیار کے کوچز تھے اور نہ ہی بنیادی نوعیت کی سہولتیں میسرتھیں، لیکن انہوں نے اپنی محنت، لگن اور شوق کی بنیاد پر وہ کچھ کردکھایا جس کا پاکستان میں کسی کو یقین نہیں تھا۔ دنیا بھی ارشد ندیم کی جیت پر حیران ہوئی کہ کیسے پاکستان نے اس مقابلے میں سونے کا تمغا حاصل کرلیا!
2015ء سے اس کھیل کا آغاز کرنے والے ارشد ندیم کا تعلق پنجاب کے علاقے میاں چنوں سے ہے، اس سے قبل وہ کرکٹ کے کھلاڑی تھے مگر ان 9 برسوں میں انہوں نے جولین تھرو کے تمام مقابلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور بالآخر اس کھیل میں پاکستان کو سونے کا تمغا لے کر دے دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ارشد ندیم نے اس کھیل میں عالمی ریکارڈ92.97 کی تھرو کرکے قائم کیاجو یقینی طور پر پاکستان کے لیے بڑا اعزاز ہے۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ ناروے کے کھلاڑی کے پاس تھا جو اُس نے 23 اگست2008ء کو بیجنگ اولمپکس میں 90.57میٹر تھرو کرکے قائم کیا تھا۔ یاد رہے کہ 1984ء میں مشرقی جرمنی کے کھلاڑی نے 104.80میٹر کا ریکارڈ بنایا تھا، لیکن اس کے بعد جولین تھرو کے کھیل میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور اس کے وزن میں اضافہ کردیا گیا جس کے بعد کا ورلڈ ریکارڈ98.48میٹر ہے جو 1996ء میں جمہوریہ چیک کے کھلاڑی نے اپنے نام کیا تھا۔ ارشد ندیم اب جولین تھرو کھلاڑیوں کی فہرست میں 7ویں نمبر پر ہیں۔
یہ تو عالمی ریکارڈ ہے، اگر بات کی جائے پاکستان کی، تو پاکستان کی 77سالہ تاریخ میں انفرادی حیثیت میں اولمپک کھیلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم پہلے پاکستانی کھلاڑی بن گئے ہیں۔ اسی کھیل میں بھارت سے تعلق رکھنے والے نیرج چوپڑا نے کانسی کا تمغا حاصل کیا اور دونوں میں خوب دوستی بھی ہے، اسی بنا پر بھارتی کھلاڑی کی والدہ نے ارشد ندیم کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا، اسی طرح کا جوابی خراجِ تحسین ارشد ندیم کی والدہ نے بھی بھارتی کھلاڑ ی کو پیش کیا جسے ہر سطح پر پسند کیا جارہا ہے۔
ارشد ندیم نے اس کھیل میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد یہ کھیل یقینی طور پر پاکستان میں اپنی اہمیت منوائے گا بلکہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ ارشدندیم کے بقول: جب دوسری باری میں تھرو کی تو مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں پاکستان کے لیے ایک بڑا کام کرنے جارہا ہوں، کیونکہ جو کام میں کرچکا ہوں امکان یہی ہے کہ اس سے آگے کوئی اور نہیں جاسکے گا۔
ارشد ندیم کی اس شاندار کامیابی پر ان کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں خوب پذیرائی مل رہی ہے اور انہیں بڑے بڑے انعامات اور نقد رقوم دی جارہی ہیں۔ انہیں پاکستان کی جانب سے اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ سندھ حکومت نے انہیں 5کروڑ 10روپے دینے کا اعلان کیا ہے، جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ارشد ندیم کے گائوں جاکر انہیں 10کروڑ روپے نقد اور ہنڈا سوک کار تحفے میں دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ اس کھیل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائے۔ اس کھیل کے لیے جو بھی سہولتیں درکار ہیں وہ مہیا کی جانی چاہئیں، کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ جب ارشد ندیم نے کھیل شروع کیا تو ان کے پاس جولین بھی نہیں تھی۔ اس لیے اب وقت ہے کہ پاکستان صرف کرکٹ کی ہی نہیں بلکہ دیگر کھیلوں کی بھی سرپرستی کرے۔ ہمارے پاس جو نوجوان ٹیلنٹ ہے اس کی سرپرستی کرکے ہمیں ان نوجوانوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ ملک کا نام روشن کرسکیں۔ خاص طور پرہمیں صوبائی سطح پر اس کھیل کے لیے اکیڈمیاں درکار ہیں جہاں نئی نسل کو تربیت دے کر کھیل کے میدان میں ترقی کے نئے امکانات کو پیدا کیا جاسکے۔
یاد رہے کہ اولمپکس میں جانے سے پہلے ارشد ندیم کو چوٹ بھی لگ گئی تھی، اس چوٹ سے باہر نکلنے میں انہوں نے اپنے کوچ سلمان اقبال اور ڈاکٹر علی شیر باجوہ کا بہت شکریہ ادا کیا۔ ارشد ندیم کی یہ کامیابی یقینی طور پر ان کے عزم کی جیت تھی اور انہوں نے اپنی محنت سے ثابت کیا کہ اگر ارادے بلند ہوں اور خدا پر یقین ہو تو انسان بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عملی طور پر ردعمل کی سیاست کرتے ہیں۔ ہمیں محض اس کامیابی پر اکتفا کرکے اس کھیل کی ترقی کے لیے درکارضرورتوں کو بھولنا نہیں ہے۔ ہم اس کھیل کو جب تک اپنی قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بنائیں گے، اس میدان میں کچھ بڑا نہیں کرسکیں گے۔ اصل مسئلہ کھیلوں میں سیاسی مداخلت ہے، جب تک ہم کھیلوں میں میرٹ کو بنیاد نہیں بنائیں گے کچھ نہیں ہوسکے گا۔