فیل بان اور خاتونِ خر :امریکہ کے صدارتی انتخابات میدان سج گیا

صدر جو بائیڈن کی دست برداری کے بعد نائب صدر شریمتی کملا دیوی ہیرس نے پارٹی ٹکٹ کے لیے مندوبین کی مطلوبہ تعداد پوری کرلی ہے۔ جس وقت آپ ان سطور کو شرفِ مطالعہ عطا فرما رہے ہوں گے، شکاگو بیٹھک سے ہیرس صاحبہ کو پارٹی ٹکٹ مل چکا ہوگا۔ آگے بڑھنے سے پہلے سرنامہِ کلام کی وضاحت ضروری ہے کہ اس سے کسی کی دل شکنی مقصود نہیں۔ ہاتھی ریپبلکن پارٹی کا نشان ہے، اس لیے ہم نے سابق امریکی صدر کو ’فیل بان‘ قراردیا، جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی گدھے کے نشان سے پہچانی جاتی ہے چنانچہ کملا صاحبہ کو آپ ’خاتونِ خر‘ کہہ سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کملا ہیرس نے ریاست منیسوٹا (Minnesota) کے گورنر ٹم والز (Tim Walz)کو نائب صدر کے لیے اپنا امیدوار نامزد کردیا۔ صدر ٹرمپ نے نائب صدر کے لیے ریاست اوہایو کے سینیٹر جے ڈی وانس کا انتخاب کیا ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے اسرائیل نواز عناصر کا اصرار تھا کہ نائب صدر کا ٹکٹ ریاست پنسلوانیا کے گورنر جاش شپیرو کو دیا جائے۔ جناب شپیرو ایک راسخ العقیدہ یہودی اور فلسطینیوں کے دشمنی کی حد تک مخالف ہیں۔ چنانچہ ڈیموکریٹک کے مسلم ارکان اور اراکینِ کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب اور الحان عمر نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر شپیرو کو سامنے لایا گیا تو مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ کملا ہیرس نے جاش شپیرو کے بجائے گورنر ٹم والز کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔

مجموعی طور پر مسلمان ووٹرز کی تعداد اتنی نہیں کہ انہیں اہمیت دی جائے، لیکن یہاں صدارتی نتائج مجموعی یا Popularووٹ کے بجائے انتخابی (Electoral) ووٹوں سے ترتیب دیے جاتے ہیں، اس لیے کچھ ریاستوں میں مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ انتخابی کالج کیا ہے؟ اسے سمجھ لینے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابی نتائج کا تجزیہ درست انداز میں کیا جاسکے۔

امریکہ 50 آزاد و خودمختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی ہر ریاست کا اپنا دستور، پرچم اور مسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح بااختیار ہیں۔ امریکی صدر وفاق کی علامت اور اس کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے اور اس مقصد کے لیے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeتشکیل دیا گیا ہے۔ امریکہ میں مرکزی الیکشن کمیشن یا مقتدرہ نہیں، اور انتخاب کا انتظام اور نگرانی ریاستیں کرتی ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی بھی ہر ریاست میں الگ الگ جمع کرائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستوں کے بیلٹ پیپر پر امیدواروں کی فہرست مختلف ہوتی ہے۔

کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے، اور یہ اس ریاست کے لیے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کے لیے مختص نشستوں کے برابر ہے۔ امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں، جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر ریاست سے دو دو سینیٹر منتخب کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے، جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کے لیے انتخابی کالج میں 3 ووٹ ہیں۔ یعنی کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے، اور 270 یا اس سے زیادہ ووٹ لینے والے کے سرپر امریکی صدارت کا تاج رکھ دیا جائے گا۔

الیکٹورل کالج کی ہیئت کو اس طرح سمجھیے کہ نیویارک سے ایوانِ نمائندگان کے 26 ارکان منتخب ہوتے ہیں، چنانچہ 2 سینیٹروں کو ملاکر انتخابی کالج میں نیویارک کے 28 ووٹ ہیں۔ انتخابی کالج میں سب زیادہ ووٹ کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 54۔ جبکہ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ڈلوئر، ورمونٹ اس اعتبار سے بہت چھوٹی ریاستیں ہیں کہ ان کے صرف تین تین ووٹ ہیں۔ الیکٹورل کالج میں ’سارے ووٹ جیتنے والے کے لیے‘ کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی اُس ریاست سے انتخابی کالج کے لیے مختص سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 54 الیکٹورل ووٹ اُسے مل جائیں گے۔ صرف ریاست مین (Maine) اور نبراسکا میں ایک تہائی الیکٹورل ووٹ ایوانِ نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کیے جاتے ہیں، ورنہ باقی سارے امریکہ میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔

دلچسپ بات کہ اس سال 5 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں، بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے 17 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹورل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ مکمل ہونے پر نتائج مرتب کیے جائیں گے اور اسے ایک ڈبے میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائے گا۔ 6 جنوری 2025ء کو سربراہ سینیٹ (امریکی نائب صدر) کی نگرانی میں تمام ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر سرکاری نتیجے کا اعلان ہوگا۔

یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ قانونی طور پر الیکٹورل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں، اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود گزشتہ دو سو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ الیکٹورل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔

2016ء کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو پاپولر ووٹوں کے اعتبارسے ڈونلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کیے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد ہلیری کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔ اس سلسلے میں چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب کی مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے۔

گزشتہ انتخابات میں امریکی دارالحکومت سے صدر بائیڈن نے 92 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہاں مختص 3 الیکٹورل ووٹ اپنے نام کرلیے، جبکہ ایریزونا میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں جناب بائیڈن کو جناب ٹرمپ پر صرف 0.3 فیصد ووٹوں کی برتری کے عوض 11 انتخابی ووٹ مل گئے۔کچھ ایسا ہی معاملہ جارجیا میں ہوا جہاں 0.23فیصد برتری حاصل کرکے بائیڈن صاحب نے 16الیکٹورل ووٹ اپنے نام کرلیے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اِس بار پنسلوانیا، مشی گن، وسکونسن، ایریزونا، نواڈا اور جارجیا میں گھمسان کا رن پڑے گا۔ ان چھے ریاستوں کے الیکٹورل ووٹوں کی مجموعی تعداد 77 ہے اور ان ہی ریاستوں میں امریکہ کے 47 ویں صدر کا فیصلہ ہوگا۔ وسکونسن، مشی گن، جارجیا اور ایریزونا میں مسلمان ووٹ بہت زیادہ تو نہیں لیکن سخت مقابلے کے تناظر میں یہاں مسلمانوں کا ووٹ بینک کنگ میکر سمجھا جارہا ہے۔

آج کی گفتگو ہم الیکٹورل کالج اور امریکی انتخابی نظام پر ختم کرتے ہیں۔ متحارب امیدواروں کا تعارف اِن شااللہ اگلی نشست میں۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔