ڈیجیٹل لُوٹ مار :آن لائن دھوکا دہی ٹرینڈنگ کرنے لگی

آن لائن فراڈ کا دائرہ اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ اب کوئی بھی اس سے محفوظ نظر نہیں آتا۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر پونا کا ایک آئی ٹی ایکسپرٹ بھی سائبر کرائم گینگ کے بہلاوے میں آکر 20 لاکھ روپے سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

40 سالہ اویناش کرشنن کٹی کے بے وقوف بننے کا سفر مارچ 2023ء میں شروع ہوا جب اُسے ایک نامعلوم نمبر سے پیغام ملاکہ آئی ٹی ایکسپرٹ ہونے کے ناتے وہ چھوٹے موٹے آن لائن کام کرکے گھر بیٹھے اپنی آمدن میں اچھا خاصا اضافہ کرسکتا ہے۔

اویناش نے چھوٹے موٹے آن لائن ٹاسک مکمل کرکے، ہدایات کے مطابق، سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے تو اُسے محنتانہ دیا گیا۔ اویناش کا اُن لوگوں پر بھروسا بڑھا جو اُس سے یہ کام لے رہے تھے۔ آن لائن فراڈ کرنے والے اس گینگ نے کئی ماہ تک کچھ نہ کچھ دے کر اویناش کو اعتماد میں لیا اور پھر اُس سے کہا کہ اگر وہ زیادہ کمانا چاہتا ہے تو سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔ اُسے بتایا گیا کہ جتنا زیادہ سرمایہ وہ لگائے گا اُتنا ہی زیادہ ریٹرن اُسے ملے گا۔

اویناش اِس فراڈ گینگ کی چکنی چُپڑی باتوں میں آگیا اور پیسہ لگانا شروع کیا۔ کچھ دن تک اِس کا ریٹرن اُسے دیا گیا۔ پھر جب اُس نے لالچ کے ہاتھوں مجبور ہوکر ’’لائف ٹائم‘‘ قسم کی ’’سرمایہ کاری‘‘ کی تو فراڈ گینگ سب کچھ سمیٹ کر چمپت ہوگیا۔ دسمبر 2023ء کے آخر تک اویناش 20 لاکھ روپے سے زیادہ کی ’’سرمایہ کاری‘‘ کرچکا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اویناش آئی ٹی ایکسپرٹ ہونے کے ناتے لوگوں کو آن لائن فراڈ اور سوشل میڈیا کے ذریعے کیے جانے والے گھوٹالوں سے خبردار کیا کرتا تھا اور فراڈ سے بچنے کے طریقے بھی بتاتا رہتا تھا۔

دنیا بھر میں سائبر کرائم بڑھتے جارہے ہیں۔ سائبر کرائم کی اصطلاح میں انٹرنیٹ سے جُڑی تمام ایسی ویسی باتیں آجاتی ہیں۔ کسی کی شناخت چراکر اُس کی طرف سے کسی سے کچھ طلب کرنا، کسی کو متنازع مواد بھیجنا، آن لائن لین دین میں گڑبڑ کرنا، کسی کے بنک اکاؤنٹ میں سیندھ لگاکر رقم نکالنا، رقم ٹرانسفر کروانا، کسی کو انعام کے لالچ میں کوئی مواد بھیجنا اور پھر اُس مواد کی بنیاد پر پیسے اینٹھنا، کسی کو بدنامی کے امکان سے ڈراکر وصولی کرنا، کسی کے نام سے کسی اور کو ایسا مواد بھیجنا جو دونوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا کرے اور معاملے کو قانون نافذ کرنے والوں تک لے جائے، سرکاری آن لائن پورٹلز میں سیندھ لگاکر اپنی مرضی کی چیزیں ڈالنا، سرکاری مواد چُرانا، کاروباری اداروں کی ویب سائٹس اور دیگر پورٹلز میں گھس کر اہم کاروباری راز چرانا، اُن کی بنیاد پر وصولی کرنا، بچوں کو گمراہ کرنے والا مواد پیش کرکے انٹرنیٹ پر زیادہ ٹریفک لینا، کسی بھی معاملے کو غلط رنگ دے کر زیادہ سے زیادہ ٹریفک بٹورنے کی کوشش کرنا، لوگوں کو کسی بھی معاملے میں گمراہ کرکے اُن کی سوچ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرنا، خفیہ کیمروں کی مدد سے نازیبا وڈیوز تیار کرکے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنا، یا متعلقہ مرد و زن کو وڈیو دکھاکر بلیک میل کرنا، بچوں کی نازیبا وڈیوز بناکر بیچنا، اپ لوڈ کرنا یا شیئر کرنا، انٹرنیٹ پر کسی کے اکاؤنٹ سے تصویریں نکال کر اُنہیں مسخ کرنا، یا چند تصویروں کو ملا کر ایسی تصویر تیار کرنا جو اُسے بدنام کردے … یہ سب کچھ سائبر کرائمز کے ذیل میں ہے۔

سائبر کرائم کی مختلف شکلیں ہیں، تاہم ایک واضح شکل یہ ابھری ہے کہ لوگ کسی نہ کسی طور چند افراد کو لالچ دے کر شیشے میں اتارتے ہیں یا خوف زدہ کرتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کے مطابق وصولی کرتے ہیں۔

کسی بھی آن لائن فراڈیے کے پاس کسی سے وصولی کے دو ہتھیار ہوتے ہیں… لالچ اور خوف۔ کسی کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور کسی کو لالچ دیا جاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں بڑے فراڈ کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

ہم ٹیکنالوجی کے عہدِ عروج میں جی رہے ہیں۔ ہر معاملے کی طرح دھوکا دہی بھی بہت بلندی پر ہے۔ عام مجرموں کی طرح سائبر کرمنلز بھی اب کھل کر میدان میں ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق کھیلنے میں مصروف ہیں۔ نجی کاروباری ادارے اور حکومتیں دن رات ایسے طریقے سوچنے میں مصروف رہتے ہیں جن کی مدد سے سائبر کرمنلز کو ناکام بنایا جاسکے۔

سائبر کرمنلز بنیادی طور پر خوف سے کھیلتے ہیں۔ وہ کسی کو بھی کال کرکے ڈراتے ہیں۔ اگر متعلقہ فرد خوف کے شیشے میں اُتر جائے تو سمجھ لیجیے سائبر کرمنلز کے وارے نیارے ہوگئے۔

ایک نوجوان کے فون کی اسکرین چمک اٹھی۔ اُس نے نظرانداز کیا۔ پھر چمکی، اُس نے پھر نظرانداز کیا۔ تیسری بار جب اسکرین چمکی تو اُس نے کال ریسیو کی۔ یہ وڈیو کال تھی۔ چند لمحات کے لیے اسکرین بلینک رہی، بالکل سیاہ۔ پھر ایک عورت اسکرین پر نمودار ہوئی۔ وہ برہنہ تھی۔ اس سے پہلے کہ نوجوان کچھ سمجھ پاتا، وڈیو کال ختم ہوگئی۔ اس کے بعد ایک واٹس ایپ نوٹیفکیشن آیا۔ یہ ایک اسکرین شاٹ تھا جس میں وہ اُس برہنہ خاتون کے ساتھ تھا۔ پیغام یہ تھا کہ 15 لاکھ روپے دو ورنہ یہ اسکرین شاٹ تمام جاننے والوں کو بھیج دیا جائے گا۔ دیکھا آپ نے، کتنی آسانی سے لوگ ٹریپ میں آجاتے ہیں۔

دھوکا دہی کب نہیں تھی اور کب نہیں ہوگی؟ یہ تو انسانی مزاج میں گُندھی ہوئی ہے۔ ہاں، اب طریقے بہت بدل گئے ہیں۔ پہلے لوگ دیہات اور شہروں میں رہتے تھے، اب وہ سیل فون میں رہتے ہیں اس لیے دھوکا بھی انٹرنیٹ پر کھاتے ہیں۔

’انڈیا ٹوڈے‘ نے ایک جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ ڈیجیٹل لُٹیرے یا آن لائن فراڈیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنے بنیادی اوزار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ وہ لوگوں کی پرسنل معلومات کشید کرکے اُن کی مدد سے لوگوں کو لالچ دیتے ہیں یا پھر ڈراتے ہیں۔

تازہ ترین معاملہ ’’ڈیجیٹل اریسٹ‘‘ کا ہے جس میں لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جب تک پوری رقم منتقل نہیں ہوجاتی تب تک وڈیو کال پر رہیں۔ قانون میں ’’ڈیجیٹل اریسٹ‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں۔ لوگ فون کالز پر دھوکا کھاکر خطیر رقوم سے محروم ہورہے ہیں۔ آن لائن فراڈیے پولیس اور دیگر اداروں کے افسران کی حیثیت سے خود کو متعارف کراکے لوگوں کو خوف زدہ کرتے ہیں اور تحقیقات کے نام پر اُن سے مال بٹورتے ہیں۔

یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ آن لائن فراڈیے اور سائبر کرمنلز لوگوں کے ذہن جکڑ لیتے ہیں اور پھر گھنٹوں یا ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں تک اُن کی نفسیات سے کھیلتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے معلومات کشید کرکے وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ خفیہ اداروں کے اہلکار یا افسران ہیں اور تحقیقات کررہے ہیں۔ پھر وہ لوگوں کو خوف زدہ کرکے اُن کے بنک اکاؤنٹ خالی کروا لیتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت میں سائبر کرائمز کے دھماکے سے ہورہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وارداتوں کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آن لائن فراڈیے اور ڈیجیٹل لُٹیرے اپنے کام کا دائرہ پھیلانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں متعارف کرائی جانے والی جدت اور پیش رفت سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔ وہ دن رات نئے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ وہ سرکاری اداروں کے جعلی خطوط اور گشتی مراسلے بھی تیار کرتے ہیں تاکہ ہدف بننے والے فرد کو زیادہ سے زیادہ متاثر اور خوف زدہ کیا جاسکے۔

جب سے حکومتوں نے بچوں کی نازیبا فلموں کے حوالے سے قوانین سخت کیے ہیں تب سے ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ دراز ہوگیا ہے۔ سائبر کرمنلز خفیہ اداروں کی جعلی ای میلز کے ذریعے لوگوں کو دھمکاتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے کے اندر پیسے دور ورنہ سمجھ لو کارروائی سر پر کھڑی ہے۔ جعلی ای میلز میں خفیہ اداروں کی مہریں تک لگی ہوتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ سائبر کرائم یونٹس کی مہریں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ڈرانے دھمکانے والی کسی بھی ای میل کو حاصل کرنے والے کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ سوچنے اور سمجھنے کے لیے اُس کے پاس اچھا خاصا وقت ہوتا ہے۔ لوگ محض خوف کے باعث دام میں پھنس جاتے ہیں۔

آئی ٹی میں ہونے والی پیش رفت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سائبر کرمنلز وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جو اُن کے کام کو آسان اور کامیابی کو یقینی بنائے۔ حکومتیں عوام پر زور دے رہی ہیں کہ کسی بھی دھمکی آمیز ای میل کے موصول ہونے پر بدحواس نہ ہوں بلکہ متعلقہ ادارے یا اداروں کو مطلع کریں تاکہ ضروری اقدامات کیے جاسکیں۔ اگر کوئی بھی سائبر کرمنل اس بات پر زور دے کہ وڈیو کال پر موجود رہو تو اُس کی بات ہرگز نہ مانی جائے بلکہ متعلقہ ادارے کو مطلع کیا جائے۔ بہت سے آن لائن فراڈیے پولیس اسٹیشن کا سا ماحول بناکر وڈیو کال پر بات کرتے ہیں۔

بھارت کی معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر سنیہا شرما کہتی ہیں کہ ذرا سی بات پر خوف زدہ ہو اٹھنا انسانی مزاج کا حصہ ہے۔ سائبر کرمنلز اِسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انسان میں تجسس بھی بہت ہوتا ہے۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر کال ریسیو کی جاتی ہے اور پھر خوف کے مارے جاری رکھی جاتی ہے۔ لوگ اس خیال سے ڈر جاتے ہیں کہ کہیں اُن کے حوالے سے کوئی ایسی ویسی بات انٹرنیٹ پر نہ پھیل جائے اور اُن کے ساتھ ساتھ اُن کے اہلِ خانہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

جنوبی دہلی کے علاقے سی آر پاک کی کرشنا داس گپتا کو سائبر کرمنلز نے 13 گھنٹے تک وڈیو کال پر رکھا اور اِس دوران اُس کے 83 لاکھ روپے لے اڑے۔ ان سائبر کرمنلز نے خود کو ممبئی پولیس اور سی بی آئی کے افسر ظاہر کیا تھا۔ یہ سب کچھ خوف کے باعث ہوا۔

پاکستان اور بھارت میں ایسے درجنوں کیس روزانہ ہورہے ہیں۔ سرکاری اداروں کی طرف سے راہ نمائی اور سائبر کرمنلز کو شناخت کرنے سے متعلق ہدایات دیے جانے کے باوجود لوگ لالچ یا خوف کے ہاتھوں پھنس جاتے ہیں اور اپنی جمع پونجی آن لائن فراڈیوں کو دے بیٹھتے ہیں۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ سائبر کرمنلز کسی پارسل کے موصول ہونے اور اُس میں ممنوع اشیا کے موجود ہونے کا بہانہ بناکر کسی فرد کو ڈراتے ہیں اور پھر اس سے وصولی کرتے ہیں۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آن لائن فراڈ کرنے والے اب منظم گروہوں کی شکل میں کام کرتے ہیں۔ اُن کے کام کرنے کے طریقے بھی جدید ترین ہیں، اس لیے انسان متاثر بھی ہوتا ہے اور خوف زدہ بھی۔ پھر بھی ایسا نہیں ہے کہ کوئی کسی کو آسانی سے بے وقوف بنادے یا خوف زدہ کردے۔

یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اگر ایک طرف آن لائن فراڈیے اور ڈیجیٹل لُٹیرے ہیں تو دوسری طرف ادارے ہیں جو شکایات ملنے پر کارروائیاں بھی کرتے ہیں اور گرفتاریاں بھی ممکن بناتے ہیں۔

حکام اور ماہرینِ نفسیات بتاتے ہیں کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ادھیڑ عمر یا معمر افراد کو ڈرانا یا پُھسلانا آسان ہوتا ہے۔ ایسے لوگ عام طور پر اکیلے رہتے ہیں یا اُن کی زندگی میں نوجوان نہیں ہوتے۔ نئی نسل کو آئی ٹی کے بارے میں زیادہ معلوم ہے۔ اُسے آسانی سے چکمہ نہیں دیا جاسکتا۔ معمر افراد وقت سے پیچھے رہ جانے کے باعث آسانی سے دام میں آجاتے ہیں۔ معمر افراد جلد خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور پولیس یا عدالت کے بارے میں سوچ کر ہی جان چھڑانے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کسی بھی شخص کو خوف زدہ کرنے یا پُھسلانے سے پہلے اُس کی آن لائن ریکی کی جاتی ہے، یعنی اس کے سوشل میڈیا پورٹ فولیو سے بہت سی ذاتی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ اچھی طرح معلوم کرلیا جاتا ہے کہ خاندان میں کتنے لوگ ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔ اس کے بعد ہی ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ متعلقہ فرد اگر حواس قابو میں رکھے تو معاملات کو بگڑنے سے پہلے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ لوگ بالعموم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر انہوں نے پولیس کو مطلع کیا، یا متعلقہ تحقیقاتی اداروں کو بیچ میں لانے کی کوشش کی تو بہت وقت ضائع ہوگا، اور مجرموں کی طرف سے نقصان پہنچائے جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ اِسی نفسیاتی پیچیدگی سے یہ سائبر کرمنلز کھیلتے ہیں۔ یوں ڈیجیٹل لُوٹ مار کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔

ماہرینِ نفسیات اور حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی بھی سائبر کرمنل کی طرف سے کال موصول ہونے پر بہت زیادہ خوف زدہ اور بدحواس ہونے کے بجائے متعلقہ اداروں کو بتانا چاہیے تاکہ وہ کال ٹریس کرکے مجرموں تک پہنچ سکیں۔ پولیس کو بالعموم اُس وقت بتایا جاتا ہے جب سائبر کرمنلز دسترس سے دور جاچکے ہوتے ہیں۔ پولیس اور متعلقہ اداروں کا اپنا طریقِ کار ہوتا ہے جس کے تحت کام کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ لوگ جتنی تیزی سے خود کو چُونا لگواتے ہیں اُتنی ہی تیزی سے پولیس کی طرف سے نتائج بھی چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں۔ پولیس اور تحقیقاتی اداروں کو اُن کے حصے کا کام کرنے دیا جائے تو بہتر اور معقول نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ عام آدمی کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ سائبر کرائمز کا سامنا بڑے کاروباری اداروں اور حکومتوں کو بھی ہے۔ سائبر کرمنلز کے منظم گروہ میدان میں ہیں۔ اُن سے بہتر طور پر نپٹنے کے لیے منظم اقدامات ہی کیے جانے چاہئیں۔

عام آدمی کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ پولیس ہو یا کوئی اور سرکاری ادارہ، اُس کا کوئی بھی اہلکار یا افسر کبھی براہِ راست کوئی رقم نہیں مانگ سکتا اور بالخصوص ایسی حالت میں کہ وڈیو کال میں اپنا دفتر بھی دکھا رہا ہو۔ پہلی ہی کال میں خوف زدہ کرکے رقم کا مطالبہ کرنے والا کوئی سائبر کرمنل ہی ہوسکتا ہے۔

جتنے لوگ خوف کے مارے اپنی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اُن سے کہیں زیادہ لوگ لالچ میں آکر اپنی محنت کی کمائی کو ہاتھوں سے جانے دیتے ہیں۔ انعامی اسکیموں کے پھیر میں پڑ کر لوگ محنت کی کمائی دے بیٹھتے ہیں۔ کسی معمولی سے کام کا غیر معمولی معاوضہ پیش کرنے والے لوگ فراڈیے ہی ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ یا فرد ملازمت دینے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کی بات کررہا ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ صرف دھوکا دے رہا ہے۔
اگر چند سوال کرکے معلومات لینے کی کوشش کی جائے تو آن لائن فراڈیے الرٹ ہوجاتے ہیں اور زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ اگر انہیں بھنک بھی پڑ جائے کہ کوئی ان معاملات کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو وہ پہلی کال کے بعد ہی معاملے کو ختم کردیتے ہیں۔

قدم قدم پر آن لائن فراڈیے

دنیا دھوکے بازوں اور گھوٹالے کرنے والوں سے بھری پڑی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنوبی ایشیا اِن کا گڑھ بن چکا ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں نے دنیا کے سب سے زیادہ آن لائن اسکیمرز (فراڈ کرنے والوں) کی فہرست میں جگہ بنالی ہے۔

آن لائن شاپنگ، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل بنکنگ کے عروج کے ساتھ مجرموں کے لیے اسکرین کے پیچھے چھپنا اور غیر مشتبہ متاثرین کو نشانہ بنانا آسان ہوتا جا رہا ہے۔

بنکنگ محتسب پاکستان کے مطابق ادارے کو 2021ء میں مالیاتی گھپلوں کی 37,364 شکایات موصول ہوئیں، گویا 2020ء کے مقابلے میں 46 فیصد اضافہ ہوا۔ 2022ء میں بنکنگ محتسب پاکستان نے 19,670 شکایات درج کیں۔

اگرچہ پاکستان ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کی ترقی کے لحاظ سے بہت زیادہ ترقی یافتہ نہیں لیکن اس کا اسکیمنگ، ہیکنگ اور آن لائن فراڈ کا ’’پورٹ فولیو‘‘ غیر معمولی ہے۔ 2018ء میں پاکستان کے تقریباً تمام بنکوں کو ہیک کیا گیا اور مجرموں نے لوگوں کے اکاؤنٹس سے بڑی رقم اڑائی۔

سائبر سیکورٹی کے اس واقعے نے 22 پاکستانی بنکوں کے 19,000 کارڈز کی تفصیلات آشکار کیں۔ کرب سَن سیکورٹی کے مطابق ان میں سے تقریباً 10 پاکستانی بنکوں کے 8,000 اکاؤنٹ ہولڈرز کی تفصیلات کو حال ہی میں ڈارک ویب پر فروخت کیا گیا ہے۔

پاکستان میں مالی گھپلے اور دیگر فراڈ عام ہوچکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ہر روز کئی طریقوں سے دھوکا دے کر اُن سے پیسہ لُوٹا یا بٹورا جارہا ہے۔

ایسی سرگرمیوں کے ذمہ دار پیشہ ور اسکیمرز ہیں جو اپنے انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریس کو پوشیدہ رکھتے ہیں اور حساس معلومات حاصل کرنے کے لیے یونیورسل ایکسیس نمبر (UAN) سے کال کرتے ہیں اور پھر اُسے اکاؤنٹ کی مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

یہ لوگ عام طور پر دیہی علاقوں سے کام کرتے ہیں اور غریب لوگوں کو مختلف اسکیموں کے ذریعے پھنساتے ہیں جن میں اکثر سِم کارڈ خریدنے کے لیے اُن کی شناخت چرانا بھی شامل ہے۔

عوام کو بار بار نصیحت کی جانی چاہیے کہ سوشل میڈیا ٹیکسٹنگ یا میسجنگ ایپس پر کسی کو کبھی بھی اپنے بنک اکاؤنٹ سے متعلق تفصیلات نہ دیں۔ ہیکرز نے جنوری 2021ء میں پاکستانی میوزک اسٹریمنگ سائٹ سے 260,000 صارفین کی ذاتی معلومات چُرائیں۔ اگست 2021ء میں ہیکرز نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے زیرِانتظام پاکستان کے سب سے بڑے ڈیٹا سینٹر پر حملہ کیا اور مائیکرو سوفٹ کے ہائپر وی سافٹ ویئر کو کریک کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بنکوں کو آن لائن فراڈ سے متعلق وارننگ جاری کی ہے۔ تمام بنکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ڈیجیٹل بنکنگ کو محفوظ بنایا جائے ورنہ فراڈ کے شکار صارف کو 3 دن کے اندر معاوضہ دینا ہوگا۔