بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے فرار کے بعد نئی عبوری حکومت نے 8 اگست کو حلف اٹھا لیا۔ عبوری بندوبست روایتی وزرا کے بجائے مشیروں پر مشتمل ہے جس کی سربراہی مشیر اعلیٰ (Chief Advisor) ڈاکٹر محمد یونس کررہے ہیں۔ 84 سالہ نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس بنکار، معاشیات کے پروفیسر اور دانشور ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے غریب طبقے کو آسان شرائط پر قرضوں (Microfinancing) کے ذریعے اقتصادی طور پر خودمختار بنانے کا ایک جامع منصوبہ پیش کیا۔ یہ فلسفہ نیا نہیں، لیکن ڈاکٹر یونس کا کمال ہے کہ انھوں نے اس مقصد کے لیے خالص تجارتی بنیادوں پر ایک بنک کی بنیاد رکھی۔ گرامین بنک کے نام سے یہ ادارہ 1983ء میں قائم ہوا اور سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھاکر بنگلہ دیش کے لاکھوں افراد غربت و افلاس کی دلدل سے باہر نکل آئے۔
قیامِ بنگلہ دیش کے وقت ڈاکٹر صاحب امریکہ میں تھے جہاں انھوں نے فوجی آپریشن کے مضمرات سے امریکی رائے عامہ کو آگاہ کرنے کے لیے ’’بنگلہ دیش نیوز لیٹر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ وطن واپسی پر حسینہ واجد سے تعلقات خوشگوار رہے اور انھیں تمغائِ آزادی عطا ہوا، لیکن 2014ء کے انتخابات کے بعد حسینہ واجد اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔ بنگلہ دیش حکومت نے ڈاکٹر یونس پر گرامین بنک کے اثاثوں میں خردبرد، قرض کے اجرا میں گھپلوں اور دوسرے الزامات پر تحقیقات شروع کردیں۔ عدالت نے انھیں سزا بھی سنائی لیکن بین الاقوامی دبائو پر ضمانت منظور ہوگئی اور ڈاکٹر صاحب جیل یاترا سے محفوظ رہے۔
جب 5 اگست کو ڈھاکہ مارچ کے نتیجے میں حسینہ واجد ہندوستان فرار پر مجبور ہوئیں تو فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں سے ملاقات میں انقلاب کی قیادت کرنے والے طالب علم رہنمائوں ناہید اسلام،آصف محمود اور ابوبکر مجمدار نے صاف صاف کہا کہ آئین کی منسوخی و معطلی اور فوجی حکومت ایک دن کے لیے بھی قبول نہیں۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جو معاملات کو سنبھالے اور انتخابات منعقد کرکے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردے۔
ڈاکٹر یونس کی وطن واپسی پر 8 اگست کو اُن کی قیادت میں مشیروں کی 16 رکنی کونسل نے حلف اٹھا لیا۔ عبوری کونسل میں طالب علم رہنما ناہید اسلام اور آصف محمود، حفاظتِ اسلام پارٹی کی رہنما، ماحول کے لیے سرگرم وکیل سیدہ رضوانہ حسن، خواتین حقوق کی علَم بردار فریدہ اختر، مکتی باہنی کے سابق کمانڈر فاروق اعظم، بنکار، قانون کے پروفیسر، سابق الیکشن کمشنر، چکمہ (لسانی و مذہبی اقلیت) کے نمائندے، ڈاکٹر اور وزارتِ خارجہ کے سابق سیکریٹری شامل ہیں۔ زیادہ تر قلمدان ڈاکٹر محمد یونس نے اپنے پاس رکھے ہیں۔
نئی انتظامیہ کا سب سے اہم کام امنِ عامہ کی صورتِ حال کو معمول پر لانا ہے۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوامی لیگ اور حسینہ واجد کی باقیات پر عوام غصہ اتار رہے ہیں۔ شیخ مجیب کے مجسموں اور یادگاروں کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک کے دوران بدترین تشدد کی وجہ سے پولیس عوامی انتقام کا نشانہ بنی اور ڈھاکہ شہر میں تقریباً تمام تھانے، حوالات، بھرتی مراکز اور دوسری تنصیبات جلادی گئیں۔ 5 اگست کے بعد سے پولیس کے سپاہی ڈیوٹی پر نہیں آئے اور اہم چوراہوں پر فوجی تعینات ہیں۔
ہڑتال اور مظاہروں کی وجہ سے بنکنگ کا نظام بری طرح متاثر ہوا اور اکثر شاخوں میں نقدی ختم ہوگئی۔ پولیس نہ ہونے کی وجہ سے حفاظت بھی مشکوک ہے اس لیے بہت سے بنک اور ڈاک خانے بند ہیں، بنکاری نظام میں تعطل سے جہاں عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے وہیں صنعتی ادارے بھی ٹھپ پڑے ہیں۔ پارچہ جات (ٹیکسٹائل) کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات میں پارچہ جات کا تناسب 90 فیصد ہے۔
ملک بھر میں انتظامی تطہیر کا عمل جاری ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے قاضی القضاۃ، اکثر جامعات کے شیوخ الجامعہ، پولیس کے سربراہ اور دوسرے کلیدی اہلکار تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اسٹیٹ بنک کے نئے سربراہ کا تقرر نہیں ہوا جس کی وجہ سے بنکوں کے معاملات مزید الجھ گئے ہیں۔ برآمدی صنعت کے خام مال کی درآمد معطل ہے اور بندرگاہوں پر کلیرنس میں مشکل پیش آرہی ہے۔ سڑکوں پر طلبہ ٹریفک کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ انتظامی و معاشی معاملات پر تیزی سے پیش رفت ہورہی ہے اور اس ہفتے بازار کھل جانے کی وجہ سے دیہاڑی دار لوگوں کا روزگار بحال ہوگیا اور کپڑے کے کارخانوں میں بھی جزوی کام شروع ہوچکا ہے۔
گزشتہ دنوں محترمہ حسینہ واجد نے ذرائع ابلاغ کے ہندوستانی ادارے ’پرنٹ‘ کو بتایا کہ ان کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ جزیرہ سینٹ مارٹن پر اپنا ایک اڈہ تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ تین مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل یہ جزیرہ خلیج بنگال میں کاکس بازار کے قریب واقع ہے۔ حسینہ واجد نے کہا ’’ایک گورے نے پیغام دیا کہ تم یہ جزیرہ ہم کو دے دو اور جم کر حکومت کرو‘‘۔ حسینہ واجد نے مزید کہا کہ امریکہ برما اور بنگلہ دیش کے کچھ علاقے کو ملاکر ایک ’مسیحی ریاست‘ قائم کرنا چاہتا تھا لیکن میں اپنی دھرتی ماتا کے ایک انچ سے بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں، اور اسی ’جرم‘ میں مجھے معزول کردیا گیا۔ امریکی حکومت کے ترجمان نے حسینہ واجد کے الزام کو من گھڑت اور بے بنیاد قراردیا ہے۔
اس سے پہلے اُن کے صاحبزادے سجیب واجد نے کہا تھا کہ میری والدہ اب بھی اپنے ملک کی وزیراعظم ہیں کہ انھوں نے استعفیٰٰ نہیں دیا۔ سجیب نے لندن میں بی بی سی کو بتایاکہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی حسینہ واجد ملک واپس چلی جائیں گی۔
جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے تو دستور کی رو سے تحلیلِ اسمبلی کے بعد 90 روز میں نئے انتخابات ضروری ہیں۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ 5 اگست کو جنرل وقارالزماں اور صدر شہاب الدین سے ملاقات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP)، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے مطالبہ کیا تھا کہ عبوری حکومت قائم ہوتے ہی انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔ دوسرے روز اپنی رہائی کے بعد ڈھاکہ میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا نے کہا کہ لاقانونیت اور عدم استحکام کے ذریعے جمہوریت کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ ہم تیزی سے ابھرتی سازش پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ عبوری حکومت میں شامل ہونے کا شوق نہیں۔ فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔
عبوری حکومت کے قیام پر جماعت اسلامی، بی این پی، عوامی لیگ، جاتیہ پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے کابینہ میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم عبوری حکومت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ بی این پی فوری انتخاب کے مطالبے سے دست بردار ہوگئی ہے۔ 12 اگست کو ڈاکٹر یونس سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بی این پی کے سیکریٹری جنرل فخرالاسلام عالمگیر نے کہا کہ انتخابات کا ’ماحول‘ بنانے کے لیے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے عبوری حکومت کو مہلت دینے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات اور حالات درست کرنے کے لیے وقت چاہیے۔ اس معاملے پر جماعت اسلامی کا مؤقف سامنے نہیں آیا۔ ڈاکٹر یونس کہہ رہے ہیں کہ حسینہ واجد نے ملک کو بہت برے حال میں چھوڑا ہے، اسے ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے مطلوبہ وقت کی وضاحت نہیں کی۔ علمائے سیاست کا خیال ہے کہ عبوری بندوبست جلد ہی ٹیکنوکریٹ حکومت کی شکل اختیار کرلے گا جس کا دورانیہ 12 سے 18 ماہ ہوسکتا ہے۔
آخر میں اس تبدیلی پر ڈھاکہ کی جامعہ لبرل آرٹس کے پروفیسر اور دانشور ڈاکٹر سلیم اللہ خان کا مختصر لیکن جامع تبصرہ:
’’بنگلہ دیش کا حالیہ رجیم چینج 1975ء کے بعد ہندوستان کی بڑی ناکامی ہے۔ شیخ مجیب کے خلاف 1975ء کی بغاوت ہندوستان کے سراغ رساں اداروں کی ناکامی تھی جو پاکستان نواز فوجی افسران کی سازش نہ پکڑ پائے، لیکن 5 اگست 2024ء کو عوامی انقلاب آیا ہے جس میں ہندوستان کے خلاف عوامی نفرت نے بنیادی کردار ادا کیا۔‘‘ (حوالہ: ڈھاکہ اسٹار)