پشاور:کامیاب عوامی دھرناجلسہ تشکر سے حافظ نعیم الرحمٰن کا خطاب

گزشتہ پیر کے روز پشاور میں ایک بڑے جلسہ تشکر سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ ”حکومت کو بھاگنے نہیں دیں گے، معاہدوں کو پورا کرکے سانس لیں گے، جماعت اسلامی کسی کے اشاروں پر نہیں چلتی، اور نہ ہی کسی ایمپائر کے انگلی اٹھانے پر یقین رکھتی ہے، حکومت نے عوام کو 41 دنوں میں ریلیف نہیں دیا تو انہیں ڈی چوک جانے سے نہیں روکوں گا، پاکستان کے ہر صوبے سے مارچ کی شکل میں ڈی چوک جائیں گے، خیبر سے کراچی تک یہ مارچ چلے گا اور حکمرانوں سے حق چھین کر رہیں گے۔ ہمارا ایجنڈا بالکل واضح ہے، صرف عوام کی خاطر نکلے ہوئے ہیں“۔ انہوں نے جلسہ عام کے پُرجوش شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ کو گھروں میں نہیں بیٹھنا، ورنہ حکومت آئی پی پیز کے ساتھ ڈیل کرلے گی۔ کچھ وزراء ایسے ہیں کہ اقتدار میں رہنے والی تین تین پارٹیوں کے مزے لے چکے ہیں۔ 1994ء سے آئی پی پیز کا کام شروع ہوا تھا، تمام دور کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت میں یہ آئی پی پیز مزید فعال ہوئے۔ جماعت اسلامی کا ریکارڈ ہے ہم نے کبھی بھی فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کی ہے، جماعت اسلامی نے ہمیشہ کہا ہے کہ فوجی آپریشن سے عوام میں فوج کے لیے نفرت پھیلے گی۔“

اس موقع پر جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان، پشاور کے امیر بحراللہ ایڈووکیٹ اور سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ کے علاوہ جماعت کے دیگر قائدین نے بھی خطاب کیا۔

واضح رہے کہ رنگ روڈ کبوتر چوک پر منعقد ہونے والے اس جلسہ عام میں سہ پہر ہی سے پشاور شہر کے طول و عرض سے چھوٹے بڑے جلوس پہنچنا شروع ہوگئے تھے، جب کہ اس موقع پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ خواتین کی بھی کثیر تعداد موجود تھی۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے شرکاء کے نعروں کی گونج میں کہا کہ ہماری حکومت چاہتی تھی کہ جماعت اسلامی اور پولیس کے مابین تصادم ہو۔ حکومت عوام اور پولیس کے مابین لڑائی کروانا چاہتی تھی، اس صورت حال میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے تمام تر رکاوٹیں عبور کرکے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور مری روڈ پر دھرنا دیا۔ یہ تمام جدوجہد کسی تحریک کو دوام بخشنے کے لیے کافی ہوتی ہے کہ جذبہ بھی ہو، حوصلہ، ولولہ اور رکاوٹیں دور کرنے کی صلاحیت بھی ہو… اور پھر وہ دھرنا جسے حکومت ناکام بنانا چاہتی تھی دنیا نے دیکھ لیا، اس کے بعد تاریخی جلسہ ہوا“۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے حقیقی مسائل بجلی، گیس اور دوسری ضروریات کی ہوش ربا قیمتوں سے حکومت عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی تھی، لیکن جماعت اسلامی کی حکمت اور تدبر سے اس میں حکومت کو منہ کی کھانی پڑی۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ لوڈشیڈنگ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور تنخواہوں پر ٹیکسوں سے ہر شخص پریشان ہے، جو حکومتی جماعتیں ہیں اپنے لیے صرف مراعات ہی لینا جانتی ہیں، حکمران طبقے نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی مراعات میں اضافہ کردیا ہے، ایسے میں اگر خیبر پختون خوا اسمبلی میں بھی وزراء اور معاونین کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے بل پاس ہوتے ہیں تو پھر ہم گلہ کس سے کریں گے؟ اس ملک میں نہ کوئی اپوزیشن اور نہ کوئی حکومت ہے، بلکہ ایک طبقہ ہے جو اس ملک کے 25کروڑ عوام پر حکمرانی کررہا ہے اور اپنے لیے ہی مراعات اور سہولیات لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں، ایسے میں ایک بھرپور تحریک جماعت اسلامی کے کارکنوں کا استقبال کررہی ہے، آپ نے 14 دن پُرامن دھرنا دیا، حکومت جو پہلے مذاکرات سے انکار کرتی رہی اور جس کا یہ خیال تھا کہ جماعت اسلامی کے کارکن چار پانچ دن بیٹھ کر خود ہی چلے جائیں گے تو یہ اُس کی بھول تھی، اور پھر ایک وقت آیا جب حکومت جماعت اسلامی کے کارکنوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھنے پر مجبور ہوگئی اور مذاکرات کے متعدد دور ہونے کے بعد ہماری شرائط پر انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہم مظلوم قوم کی آواز بنے ہیں، ہم اس قوم کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، جن کی کوئی آواز نہیں ہے جماعت اسلامی اُن کی آواز بنی ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے وہ پوری قوم کے سامنے اور تحریری طور پر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو دیکھیں کہ اے ٹی ایم مشینوں کو دیکھیں؟ نون لیگ اور پی پی پی عوام پر بوجھ ڈالتی ہیں، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آئی پی پیز کے معاہدے بھی جعلی ہیں۔ کچھ آئی پی پیز وہ ہیں جو بوسیدہ ہوچکے ہیں، بجلی بنے یا نہ بنے، پیسے ان ”شریف“ لوگوں کو پورے ملتے ہیں۔ خیبر پختون خوا امن کا گہوارا تھا، یہاں کسی سیکورٹی کی ضرورت نہیں تھی، قبائل کی وجہ سے ہم دہلی کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے، لیکن حکمرانوں کی بزدلی اور ناقص پالیسیوں نے پورے ملک کو جہنم بنا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا سمیت ہم کہیں بھی حکومت کو قیامِ امن اور آپریشن کے نام پر مزید خون بہانے کی اجازت نہیں گے۔ حکومت اپنی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے پورے خطے میں تنہائی کا شکار ہے، معاشی اور سیاسی بحران نے ہر شہری کو پریشان کررکھا ہے، غزہ کی صورت حال پر ہمارے بزدل حکمرانوں کی کوئی بیان دیتے ہوئے بھی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام یک جان دو قالب ہیں، ہم ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا نہیں ہونے دیں گے، افغان حکومت کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو طرفہ مسائل بات چیت اور گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے چاہئیں، اس ضمن میں جماعت اسلامی ہر ممکن کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

پشاور میں جماعت اسلامی کے زیراہتمام مختصر نوٹس پر منعقد ہونے والے جلسہ عام کے بارے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تھوڑے عرصے کے بعد پشاور میں جماعت اسلامی کا یہ دوسرا بڑا اور کامیاب پاور شو تھا جس میں جماعت کے کارکنان کے ساتھ ساتھ پہلی دفعہ عام نوجوان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے، جب کہ بہت عرصے بعد اپنی نوعیت کا یہ ایک منفرد جلسہ عام تھا جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی، حالانکہ اس سے پہلے مردوں اور خواتین کے اس طرح کے پروگرامات الگ الگ منعقد ہوتے رہے ہیں۔ اس جلسہ عام کے بارے میں جماعت اسلامی کے ذمہ داران اور جلسہ عام کے منتظمین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ جلسہ عام اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی دھرنے کی ایکسٹینشن تھی اور یہ پروگرام اسلام آباد دھرنے کے التوا سے پہلے طے کیا گیا تھا، اس لیے جب حکومت سے مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پاگیا تو ایک آپشن یہ تھا کہ کارکنان چونکہ 14 روزہ دھرنے سے تھک چکے ہوں گے لہٰذا پشاور کے اس دھرنے کو ملتوی کردیا جائے۔ لیکن جب یہ اطلاع کارکنان تک پہنچی تو انہوں نے مذاکرات کی کامیابی اور اسلام آباد دھرنے کے التوا کے باوجود یہ جلسہ ہر حال میں کرنے کا مطالبہ کیا، جس پر امیر جماعت سے مشاورت کے بعد اس دھرنے کو منسوخ کرنے کے بجائے جلسہ تشکر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں شرکاء کی شرکت کے علاوہ جو جوش وخروش نظر آیا وہ بجائے خود قابلِ دید اور لائقِ تحسین تھا۔