بہت سے سادہ لوح یہ سمجھے ہوئے تھے کہ 15 اگست کو آزادی کا پرچم بلند ہوتے ہی سارا فتنہ و فساد ختم ہوجائے گا۔ ہندوستان میں رام راج اور پاکستان میں خلافتِ راشدہ کا دور شروع ہوجائے گا۔ گویا انگریز کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش تھا جس کا فیصلہ فریقین بے چوں و چرا تسلیم کرلیں گے۔ لیکن یہ فریب فوراً ہی ٹوٹ گیا۔ 16 اگست کو ماؤنٹ بیٹن نے دہلی سے پنجاب اور بنگال کی حد بندی کا وہ اعلان کیا جو ”ریڈ کلف ایوارڈ“ کہلاتا ہے۔ ریڈکلف کو ان صوبوں کی تقسیم کے لیے ثالث مقرر کیا گیا تھا۔ اس امر کے بیّن ثبوت موجود ہیں کہ مائونٹ بیٹن کے مہمان خانے میں اس نے 9 اور 13 اگست کے درمیان اپنا کام ختم کیا اور ایوارڈ کا مسودہ اس کے سپرد کرکے انگلستان رفوچکر ہوگیا۔ اس نے گُرداس پور کا مسلم اکثریتی ضلع اور کئی تحصیلیں ہندوستان کے حوالے کردیں۔ اس طرح ہندوستان کی سرحد کشمیر سے مل گئی اور نہروں کا مخزن بھی اس کے قبضے میں آگیا۔ کشمیر کے قضیے اور نہروں کے پانی پر جھگڑے کا راستہ کھل گیا۔ کئی مبصرین نے ”ایوارڈ“ میں رد و بدل کی ذمے داری ماؤنٹ بیٹن پر عائد کی ہے۔ ستمبر 1965ء کی ہند پاک جنگ کے موقع پر لندن کے مشہور اخبار سنڈے ٹائمز نے جب ریڈکلف سے پوچھا کہ گُرداس پور کا ضلع ہندوستان کو دینے کا جواز کیا تھا؟ تو اُس نے جواب دیا ”بات اتنی پرانی ہوگئی کہ تفصیل مجھے یاد نہیں رہی۔“
چ دلاور است دُز دے کہ بکف چراغ دارد
اس اعلان کے ساتھ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ لاکھوں تو اکالی سکھوں کے ہاتھوں تہہ تیغ ہوئے اور چالیس پچاس لاکھ لٹ پٹ کر پاکستان کی سرحد میں دھکیل دیے گئے۔ انگریزوں کی سرحد فوج اور کانگریس کی حکومت تماشا دیکھتی رہ گئی۔ اتنے میں دہلی اور اس کے اطراف میں قتل عام شروع ہوا اور پناہ گزینوں کا ریلہ کراچی اور اندرونِ سندھ پر چڑھ آیا۔
اس تباہ کاری کے ساتھ ہندوستان نے جونا گڑھ پر یہ کہہ کر فوج کشی کردی کہ پاکستان سے الحاق کا جو فیصلہ نواب نے کیا ہے وہ اس کی ہندو رعایا کو منظور نہیں، اور کشمیر پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ وہاں کے مہاراجا نے ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس اقدام کی پُرزور حمایت شیخ عبداللہ نے کی۔ اُدھر خان عبدالغفار خان کو پاکستان سے ایسی کد تھی کہ جولائی میں کابل جاکر وہاں کے حاکموں سے یوں سازباز کی کہ وہ روز اول سے اس کے مخالف بن بیٹھے۔ غرض اندر باہر مصائب، مسائل اور مشکلات کے سوا کچھ نہ تھا۔ اثاثے کا حصہ کیا ملنا تھا، جو 75 کروڑ روپے کی رقم پاکستان کے حساب میں آئی تھی اس کی پہلی قسط بیس کروڑ روپے منتقل ہوئی اور باقی رقم دینے سے حکومتِ ہند نے انکار کردیا۔ اگر گاندھی جی بھوک ہڑتال نہ کرتے تو یہ رقم نہ ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی کے الزام میں اُنھیں راشٹریہ سیوا سنگھ نے قتل کیا۔ شہید ہوکر اُنھوں نے اپنی گم شدہ عظمت واپس حاصل کرلی۔
16اگست 1947ء کو حکومتِ پاکستان نے کراچی میں باقاعدہ کام شروع کیا۔ میری طرح اور لوگ بھی اس شہر میں نووارد تھے۔ صبح دفتر کی تلاش میں نکلے تو کسی مقامی آدمی نے آگاہ کیا کہ پیراڈائز سینما کے پیچھے ملے گا۔ اس طرف جاکر دیکھا تو نیم پختہ بیرکیں زیر تعمیر نظر آئیں اور ایک کوٹھری پر استقبالیہ کا بورڈ آویزاں پایا۔ جب اس کے منشی کو اپنا شناختی کارڈ دکھایا تو اس نے چابیوں کا گچھا تھماکر اشارہ کیا کہ اس دو منزلہ عمارت کو سندھ پی ڈبیلو ڈی بلڈنگ کہتے ہیں۔ اس کے نچلے حصے کے فلاں فلاں کمرے ”محکمہ تعلیم“ کے لیے مخصوص ہیں۔ کمروں کو کھولا تو ان میں کرسیوں اور میزوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہم نے دہلی سے ایک ہراول بھیج دیا تھا جس نے کسی تدبیر سے جگہ گھیر لی تھی۔ ابھی کرسی سنبھالی تھی کہ معلوم ہوا وہ مال گاڑی جو سرکاری فائلوں کا انبار لیے پاکستان چلی تھی، دہلی کے باہر نذر آتش کردی گئی۔ کتابوں کا حال تو میں سنا چکا ہوں، فائلوں کا حشر یہ ہوا۔ اب سارا کام ہمیں اپنی سوجھ بوجھ سے کرنا تھا۔ بازار سے کاغذ خرید کر اور پن کے بدل ببول کے کانٹے سامنے رکھ کر ہم اپنے حالات کا جائزہ لینے لگے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بے سرو سامانی نے ہم میں جو جوش و جذبہ پیدا کیا وہ بے مثال تھا۔ یہ دفتر گویا محاذِ جنگ کا پشتہ تھا جہاں ہم تلوار کے بجائے قلم لیے اُس امانت کی حفاظت کے لیے آمادہ تھے جو ہمیں ودیعت ہوئی تھی۔ یہ جذبہ بہتوں کے سینے میں پاکستان کے ابتدائی دور میں روشن رہا۔
(”گردِ راہ“….ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری)
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
جہاں روشن ہے نور ’’لا الٰہ‘‘ سے
فقط اک گردش شام و سحر ہے
اگر دیکھیں فروغ مہرومہ ہے