غزہ میں اسرائیل کی ننگی جارحیت اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی کا سلسلہ دس ماہ سے مسلسل جاری ہے، اور ہر روز ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی جارہی ہے۔ ظالم صہیونیوں کی ریاستی دہشت گردی سے بچے محفوظ ہیں نہ عورتیں۔ اسپتالوں، مہاجر کیمپوں، عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں تک کو بم باری کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک حالیہ دہشت گردی میں اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام التابعین اسکول میں قائم مہاجر کیمپ پر نمازِ فجر کے وقت دو ہزار پائونڈ وزنی بم گرائے جس سے کیمپ میں واقع مسجد میں نمازِ فجر کی ادائیگی میں مصروف ایک سو سے زائد فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا، جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔ مقامی محکمہ شہری دفاع کی رپورٹ کے مطابق بم باری کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ تمام نمازی شہید ہوگئے اور ان کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، جب کہ مسجد کی بالائی منزل پر پناہ گزین خواتین اور بچے زندہ جل گئے اور ان کی لاشیں شناخت کے قابل نہ رہیں۔ حملے کا نشانہ بننے والے اسکول میں مجموعی طور پر تقریباً ڈھائی سو خواتین اور بچوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ کے 564 اسکولوں میں سے اب تک 477 اسکول براہِ راست حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کی نگران اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی کا کہنا ہے کہ اسرائیل اس وقت پناہ گزین کیمپوں، شہری آبادیوں، اسکولوں اور محفوظ زونز میں حملے کرکے فلسطینی باشندوں کی نسل کُشی کررہا ہے۔ انسانیت کی بدنصیبی یہ بھی ہے کہ اقوامِ عالم اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ادارے اس صہیونی درندگی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہے ہیں اور خاموش تماشائی سے آگے بڑھ کر اس ظلم کو رکوانے اور ظالم کا ہاتھ پکڑنے کے لیے کوئی تیار نہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ ستم یہ ہے کہ بظاہر امنِ عالم کے علَم بردار مغربی ممالک امریکہ، برطانیہ اور یورپ سب نہایت ڈھٹائی سے اسرائیل کی ننگی ریاستی دہشت گردی کی پشت پناہی کررہے ہیں، چنانچہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر حملوں میں جو اسلحہ اور ہتھیار استعمال کررہا ہے وہ انہی مغربی ممالک کے فراہم کردہ ہیں۔ التابعین اسکول کے مہاجر کیمپ اور مسجد پر جو مہلک بم استعمال کیے گئے وہ بھی امریکی ساختہ تھے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر اسرائیل کو جارح، جنگی جرائم کا مجرم اور نسل کُشی کا مرتکب قرار دیا ہے، مگر نام نہاد بڑی طاقتوں نے اس عدالتی فیصلے کو ردی کی ٹوکری کی زینت بنادیا ہے، اور اس فیصلے کی روشنی میں اسرائیل کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور فیصلے کے نفاذ کے طریق کار کو بروئے کار نہیں آنے دیا۔ اسرائیل کی جگہ اگر کوئی مسلم ملک ہوتا تو اب تک عراق کی طرح اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہوتی۔
اسرائیل کس طرح بے خوفی سے تمام بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ایک عالمی غنڈے کا کردار ادا کر رہا ہے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں اُس نے ایران کے دارالحکومت تہران میں تحریک حماس کے قائد اور فلسطین کے منتخب وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کو اُس وقت شہید کردیا جب وہ نو منتخب ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے مدعو تھے۔ ایران نے اپنی حدود کی خلاف ورزی اور اپنے مہمان کی شہادت کا بدلہ لینے، اسرائیل کو سخت سزا دینے اور جوابی کارروائی کا اعلان کیا جس پر امریکہ کو عالمی امن کی یاد ستانے لگی ہے اور اُس نے دیگر مغربی ممالک کو ساتھ ملا کر کشیدگی کو کم کرنے پر زور دینا شروع کردیا ہے، تاہم دنیا ایران کی جوابی کارروائی کی تاحال منتظر ہے۔ تہران نے البتہ اسلامی تعاون تنظیم، او آئی سی (جس کی حقیقی حیثیت اوہ۔ آئی۔ سی سے زیادہ نہیں رہ گئی) کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ضرور طلب کیا جو سعودی عرب کی میزبانی میں ساحلی شہر جدہ میں منعقد ہوا۔ پاکستان کی نمائندگی نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے کی، جنہوں نے اجلاس میں اپنے خطاب میں اہم اور قابلِ توجہ گفتگو کی۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور غزہ میں جاری ننگی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے علاوہ اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی اب صرف مذمت کافی نہیں بلکہ اُسے اُس کے جرائم کا ذمہ دار ٹھیرانا ہوگا، اگر جنگ بندی نہیں ہوتی تو پابندیاں لگائی جائیں، او آئی سی کے رکن تمام ممالک اسرائیل کو تیل کی فراہمی اور تجارتی لین دین بند کریں۔ ہمیں مکمل اتحاد کے ساتھ بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے، امتِ مسلمہ آج ایک مشکل موڑ پر کھڑی ہے، مستقبل میں یاد رکھا جائے گا کہ ہم ظالم سے کس طرح نمٹے۔ ہمیں جنگ نہیں، امن چاہیے۔ استحکام چاہیے، تباہی نہیں۔ مگر ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم کسی اور بحران کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ کیا ہم او آئی سی کو علاقائی پاور گیم کے لیے شطرنج کی بساط بننے دیں؟ کیا ہمارے لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ وہ کریں گے؟ کبھی نہیں، ہمیں او آئی سی سے بہت سی توقعات ہیں، او آئی سی فلسطین اور ایران سے یکجہتی کا پیغام بھیجے۔ اسرائیل جس درندگی کا مظاہرہ کررہا ہے وہ محض مہم جوئی سے کہیں زیادہ اور خالصتاً پاگل پن ہے… کیا کوئی بھی باشعور، باضمیر قوم، کوئی بھی ذمہ دار حکومت یا ریاست اس اسرائیلی ریاستی دہشت گردی سے آنکھیں بند کرسکتی ہے؟
اسلامی تعاون تنظیم سے پاکستانی وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار کا خطاب اور ان کی توقعات اپنی جگہ، مگر عملاً او آئی سی کا یہ اجلاس بھی نشستند، گفتند، برخاستند سے ایک بھی قدم آگے نہیں بڑھا سکا۔ اسلامی ممالک کا یہ بزدلانہ رویہ دشمن کی حوصلہ افزائی، جب کہ معصوم، محصور اور مجبور فلسطینی مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بن رہا ہے اور ان کی مایوسی و ناامیدی میں اضافہ کررہا ہے۔ مسلم دنیا اگر واقعی اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی رکوانے اور غزہ کے مسلمانوں کے تحفظ میں سنجیدہ ہے تو اسے مصلحتوں سے بالاتر ہوکر امت کا روپ دھارنا ہوگا، ورنہ ایک ایک کرکے تباہی سب کا مقدر بنے گی۔ مسلمان حکمرانوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ محض بیانات اور تقریروں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ عملی اقدام اب لازم ہوچکا ہے، اور اس ضمن میں سب سے زیادہ ذمہ داری اور توقعات پاکستان سے وابستہ ہیں کیونکہ یہ دنیا کی واحد نظریاتی اسلامی مملکت اور مسلم جوہری قوت ہے، اسی لیے پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد اس کے جوہری ہتھیاروں کو ’’اسلامی ایٹم بم‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ امتِ مسلمہ کو سوچنا اور آگے بڑھنا ہوگا کہ:
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو! کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے!
(حامد ریاض ڈوگر)