قومی کھیل ہاکی کے زوال کی کہانی

پاکستان، ہاکی کی تاریخ میں چار مرتبہ عالمی چیمپئن رہا اور تین مرتبہ چیمپئنز ٹرافی بھی جیت چکا ہے

ہاکی کا کھیل جو کئی دہائیوں تک پاکستان کی آن اور شان تھا، آج قومی سطح پر زوال پذیر ہے۔ پاکستان نے اپنی 76 برس کی تاریخ میں اب تک جو 10 اولمپک میڈل جیتے ہیں، ان میں سے8 قومی کھیل ہاکی میں جیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب پوری دنیا میں پاکستان اور پاکستان کے ہاکی کے کھلاڑیوں کا طوطی بولتا تھا اور اسی بنیاد پر ہم نے ہاکی کی دنیا میں تمام ٹیموں کے مقابلے میں برتری حاصل کی تھی۔

اگر قومی کھیل ہاکی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 1956ء میں چاندی، 1960ء میں طلائی اور 1964ء میں پھر ایک بار چاندی کا تمغا حاصل کیا۔ 1968ء میں پہلی اور 1972ء میں پاکستان ہاکی ٹیم نے دوسری پوزیشن پر اکتفا کیا۔ 1976ء میں تیسرے درجے کے ساتھ وکٹری اسٹینڈ پر جگہ بنائی۔1984ء میں آخری بار قومی ہاکی ٹیم نے ملک کو طلائی تمغے کا حق دار بنوایا تھا۔ 1992ء کے بارسلونا اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اس طرح پاکستان نے اولمپکس کی ہاکی سے جڑی تاریخ میں تین مرتبہ طلائی، تین مرتبہ چاندی اور دو مرتبہ کانسی کا تمغا اپنے نام کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان، ہاکی کی تاریخ میں چار مرتبہ عالمی چیمپئن رہا اور تین مرتبہ چیمپئنز ٹرافی بھی جیت چکا ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جس کھیل میں پاکستان کی اتنی شاندار تاریخ ہے اس کھیل میں اب پاکستان کی ٹیم 12برس سے اولمپکس کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرسکی ہے۔ ایک وقت ایسا تھا جب اولمپکس ہوتے تھے تو پاکستان کو کسی اور کھیل سے کسی میڈل کی توقع نہیں ہوتی تھی ماسوائے ہاکی کے۔ اب حالات یہ ہیں کہ پاکستان تیسری مرتبہ اولمپکس سے باہر ہوا ہے، اور کوئی بڑا ایونٹ آنا ہو تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ اس میں شرکت کے لیے ہمیں پہلے کوالیفائنگ رائونڈ کھیلنا پڑتا ہے، اور یہاں جیت کر ہی ہم کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ جبکہ ایک وقت وہ تھا جب پاکستان ہاکی ٹیم کی شکست کا کوئی سوچتا بھی نہیں تھا، بس ذین میں یہ سوال ہوتا تھا کہ ہماری ٹیم کتنے گول سے جیتے گی۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کی ہاکی کے زوال کا ذمہ دار کون ہے؟اس سوال کے جواب میں صرف ایک مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ بہت سے مسائل موجود ہیں۔ان مسائل میں حکومت کی عدم دلچسپی،فنڈز کی عدم فراہمی،اور سابق اولمپینز اور فیڈریشن کے درمیان جاری سرد جنگ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اگر ہم پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی بات کریں تو اس میں 34فیڈریشن شامل ہیں جن کا واحد مقصد اولمپکس میں پاکستان کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور پاکستان کے لیے کامیابی حاصل کرنا ہے۔ لیکن بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ان 34فیڈریشنوں میں سے 15کے سربراہان کا تعلق اعلیٰ ادارے یعنی آرمڈ فورس سے ہے، جبکہ ایک فیڈریشن کا سربراہ پولیس سے ہے۔ سید عارف حسن جو بیس برس تک پاکستان اولمپکس کے سربراہ رہے، ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل تھے۔ اُن کے بیس برس کے عرصے (2004ء تا2024ء) میں پاکستان نے ہاکی میں ایک بھی میڈل نہیں جیتا، اور یہی کارکردگی مجموعی طور پر ان کی قیادت میں ہاکی کے کھیل میں نظر آتی ہے۔ لیکن ان کی کارکردگی کو کسی بھی فورم پر جواب دہ نہیں بنایا گیا، اور اسی بنیاد پر ہم آج اس قومی کھیل میں پچھلی صفوں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

اصل بات درست کام کے لیے درست فرد کی تقرری ہوتی ہے۔ اگرفیڈریشن، بورڈ، کوچز اور کھلاڑیوں سمیت مینجمنٹ کی سطح پر جوابدہی اور احتساب کے عمل کو یقینی نہیں بنایا گیا اور کھیل کو محض سیاست، پسند وناپسند اور اقرباپروری کی بنیاد پر چلایا گیا تو پھر کیسے آگے بڑھا جاسکتا ہے؟ہر کوئی کھیل کے لیے سیاست کرتا ہے، یا جو بھی وسائل ہیںاُن پر قبضہ کرکے بیٹھ جاتا ہے،لیکن کھلاڑیوں اور کوچز پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور کھیل میں بہتری لانے کے لیے جو سہولتیں درکار ہوتی ہیں ان سے بھی انہیں محروم رکھا جاتا ہے۔ قومی سطح پر نئے ٹیلنٹ کی تلاش کا کوئی واضح پروگرام ہمارے پاس ہے اور نہ ہی اچھے کھلاڑیوں کی قومی سطح پر کوئی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور نہ ان کے جو معاشی مسائل ہیں ان کا علاج تلاش کیا جاتا ہے۔ہاکی فیڈریشن سے منسلک ایک عہدے دار تو اس کھیل کے فنڈسے اپنے لیے گاڑی خرید کر گھر لے گیا اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔مسئلہ یہ نہیں کہ قومی کھیل ہاکی میں پاکستان کے اندر کوئی ٹیلنٹ موجود نہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ جب ٹیلنٹ ہنٹ ہی نہ ہوگا اور نہ ہی ٹیلنٹ کی تلاش میں کوئی غیر معمولی اقدامات کھیل کی سطح پر ہوں گے تو نئے کھلاڑیوں کی تلاش کیسے ممکن ہوسکے گی؟ اسی طرح جو اچھے کھلاڑی سامنے آتے ہیں اُن کی کوچنگ اور گرومنگ پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ماضی میں بڑے نام والے کھلاڑیوں کو روزگار کا تحفظ ہوتا تھا اور وہ اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور کسٹم جیسے محکموں کی ہاکی ٹیموں کا حصہ بن جاتے تھے جس سے ان کی مالی مشکلات کم ہوجاتی تھیں اور وہ اسی بنا پر اپنے کھیل پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ لیکن آج قومی سطح پر اس کھیل یعنی ہاکی سے جڑے کھلاڑیوں کا بڑا مسئلہ معاشی مسائل ہیں اور ان کے پاس کوئی مستقل روزگار بھی نہیں جس کی مدد سے وہ اپنے مالی معاملات کو بخوبی چلا سکیں۔ کھلاڑیوں کے الائونس بہت کم ہیں، وہ بھی انہیں باقاعدگی سے نہیں ملتے۔ اتنے کم وسائل میں ان سے توقع کرنا کہ وہ کھیل کے میدان میں کچھ بڑا کرسکیں گے، ممکن نہیں ہوگا۔ اسی طرح ٹیم مینجمنٹ اور کوچز میں بہت تیزی سے تبدیلیاں ہوتی ہیں اور مستقل یا لمبے عرصے کے لیے کوچز کو رکھا ہی نہیں جاتا۔ بنیادی طور پر ہم نے اپنے ہاکی کے کھیل کو ایک تجربہ گاہ بنالیا ہے اور نئے نئے تجربوں سے کھیل کو بہتر بنانے کے بجائے مزید بگاڑ رہے ہیں۔ جب قومی کھیل میں سیاست عروج پر ہوگی تو یہی نتائج ملیں گے جو ہم اس وقت ہاکی کی تباہی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنے ذاتی مقاصد یا مفادات سے باہر نہیں نکلیں گے اور اس کھیل میں پروفیشنل سوچ اختیار نہیں کریں گے، ہاکی میں بہتری کا عمل ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ہمیں محض دعووں، وعدوں، نعروں اور اس کھیل میں جذباتیت سے باہر نکل کر ایک مستقل روڈمیپ اور حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی، اور ذمہ داران کو جواب دہ بنانا ہوگا۔ اسی طرح ہاکی کے ادارے کو ایک خود مختار ادارہ بنانا ہوگا جس کی سربراہی کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں ہو جو اس کھیل کے بارے میں سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔ اسی طرح سابق اولمپینز میں سے ایک گروپ تیار کرکے کھلاڑیوں کی کوچنگ کے لیے استعمال کیا جائے، اور کچھ غیر ملکی کوچزسے بھی استفادہ کرنا ہماری ضرورت بنتا ہے۔