نواب صاحب نے کہا ہے کہ شادیزئی کو کہو کہ تقریر کرے،نواب نے کہا کہ شادیزئی کی تقریر کے بعد کوئی بھی مقرر تقریر نہیں کرسکتا، اور میری تقریر سے پہلے شادیزئی کی تقریر ہونی چاہیے
نواب بگٹی سے میرا کوئی تعارف نہیں تھا، اس لیے خدائے نور سے ملاقات کی اور ملک عثمان کاسی سے بھی ملا اور ان کو بتلایا کہ نواب سے ملنا ہے۔ دونوں نے کہا کہ آپ ساتھ چلیں۔ وہ دونوں نواب بگٹی سے متعارف تھے۔ خدائے نور ایئر مارشل اصغر خان کی پارٹی میں شامل تھے، جبکہ ملک عثمان قوم پرست لیڈر تھے اور لاہور جیل کاٹ چکے تھے، اس وقت کسی بھی پارٹی میں نہ تھے۔ جب نواب گورنر بلوچستان بنے تو وہ نواب کے سیاسی مشیر بن گئے۔ نواب نے پوچھا کہ مشیر بننا ہے؟ انہوں نے انکار کیا تو نواب نے کہا: جیل یا وزارت؟ تو انہوں نے مشیر بننا قبول کیا۔ میرے لیے مسئلہ بن گیا کہ ایک کے ساتھ گیا تو دوسرا ناراض ہوگا۔ فیصلہ کیا کہ اکیلے جائوں گا، اس طرح کوئی بھی ناراض نہیں ہوگا۔ مغرب سے کچھ پہلے نواب صاحب کے مہمان خانے چلا گیا، سلام کیا۔ نواب نے میری طرف دیکھا تو خدائے نور نے کہا: امان اللہ شادیزئی ہیں، آپ نے اِن کو جیل میں ڈالا تھا۔ اس پر انہوں نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔ میں ایک طرف خاموشی سے بیٹھ گیا، یوں میرا تعارف ہوگیا۔ اس طرح نواب کے پاس جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب سے کھل کر مجلس ہوتی، میرا مطالعہ بہتر تھا اس لیے مختلف موضوعات پر اُن سے بات چیت کھانے کی مجلس سے پہلے اور بعد میں چلتی رہتی تھی۔
اتفاق سے بھٹو کی حکومت نے نیپ کی قیادت کو جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر غداری کے مقدمات قائم کرادیے گئے تھے۔ نواب بگٹی کی 40 سالہ رفاقت جو نواب مری، سردار عطا اللہ مینگل اور بزنجو سے تھی اس کا اختتام ہوگیا، راہیں ریل کی پٹری کی طرح جدا ہوگئیں اور نواب تنہا ہوگئے۔ ان کی محفل میں نیپ کے بعض کارکن ملاقات کے لیے آتے تھے، بعض دفعہ وہ شام کے کھانے میں شریک ہوتے تھے اور خوب مجلس جمتی تھی۔ کبھی وہ نیپ کے ورکروں سے نیپ کے حوالے سے بھی بات کرتے۔ اس دوران حکومت نے نیپ پر الزامات کی بنیاد پر گرفتاریاں شروع کردیں اور نیپ کی قیادت جیل میں ڈال دی گئی اور ان پر غداری کے مقدمات قائم کیے گئے۔ حیدرآباد جیل میں نواب خیر بخش خان مری، سردار عطا اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو ڈال دیے گئے۔ نیپ کے جنرل سیکرٹری امیر الملک مینگل بھی گرفتار ہوئے۔ بعد میں امیر الملک گورنر بلوچستان اور چیف جسٹس بلوچستان بھی بنے۔
تاریخ کے واقعات اور حادثات بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ جسٹس مری کے قتل کا الزام نواب خیر بخش مری پر لگا تھا اور ان کو گرفتار کیا گیا، بعد میں وہ رہا ہوگئے۔ جسٹس نواز مری کا تعلق بجارانی قبیلے سے تھا۔ اب جب بلوچستان کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کررہا ہوں تو ساتھ ساتھ مختلف واقعات کو بھی قلم بند کررہا ہوں، یہ بھی اب بلوچستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ نواب مری اور نیپ کے دیگر لیڈروں کو گرفتار کیا گیا تو ان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں خالی قرار دے دی گئیں۔ نواب مری جو کوئٹہ اور سبی سے جیتے تھے وہ نشست خالی ہوگئی تو نواب بگٹی نے اس پر سلیم بگٹی کو کھڑا کیا، جبکہ پی پی پی نے تاج محمد جمالی کو کھڑا کیا۔ نواب بگٹی نے اپنے بیٹے کی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو جلسوں کا پروگرام بنایا۔ علی احمد کرد، سعید اقبال، خدائے نور اس مہم میں شریک تھے۔ میں نے علی احمد کرد سے کہا کہ جیل جانے کے بعد تقریر کررہا ہوں لیکن مزا نہیں آرہا ہے۔ کچھ جلسوں کے بعد میں اپنی فارم میں آگیا۔ جلسے کے انتظامات خدائے نور کے ہاتھ میں تھے۔ ایک تقریر کے بعد ذہن کھل گیا اور اپنے عروج پر آگیا۔ ایک جلسے کے بعد خدائے نور نے کہا: آج آپ کی تقریر نہیں ہوگی، اس جلسے میں اورنگزیب کاسی کی تقریر نے ماحول خراب کردیا۔ یہ جلسہ غازی سنیما کے علاقے میں ہوا تھا۔ اورنگ زیب نے سیٹلرز کے خلاف تقریر کی تو نواب نے صدیق بلوچ کو میرے پاس بھیجا، اس نے بتایا کہ نواب صاحب نے کہا ہے کہ شادیزئی کو کہو کہ تقریر کرے۔ کوئی 10 منٹ تقریر کی، اس کے بعد ہم بگٹی ہائوس پہنچے تو نواب نے کہا کہ شادیزئی کی تقریر کے بعد کوئی بھی مقرر تقریر نہیں کرسکتا، اور میری تقریر سے پہلے شادیزئی کی تقریر ہونی چاہیے، اس کی تقریر کے بعد میرا ذہن کھل جاتا ہے اور نئے خیالات آتے ہیں۔
نواب بگٹی کے ہاں میرا جانا معمول بن گیا، اور جو بھی شخصیت نواب بگٹی سے ملتی، مجھے بھی ان دونوں کی بات چیت اور بحث سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا۔ بگٹی ہائوس میں پاکستان کی اہم شخصیات آتیں تو ان کی گفتگو سے میری معلومات میں اضافہ ہوتا۔ طلال بگٹی کی شادی میں، میں بھی شریک تھا۔ نواب نے چارٹر جہاز کرایا تھا۔ نواب کے قریب جتنے لوگ تھے وہ دعوت میں شریک تھے۔ اس دعوت میں میرے علاوہ ضیا الدین ضیائی مرحوم، ملک عثمان کاسی، سلطان بنگلزئی، خدائے نور، غلام طاہر صحافی، عزیز بھٹی صحافی، ڈاکٹرغلام محمد (یہ نواب کے ہمسایہ تھے)، سیف الرحمان مزاری، ملک انور کاسی و دیگر اہم لوگ شریک تھے۔ بھٹو صاحب بیرونی دورے پر تھے، اس لیے بیگم نصرت بھٹو مہمانِ خصوصی کے طور پر شریک تھیں۔ گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر، ظہور الٰہی چودھری، سلطان بنگلزئی و دیگر شخصیات بھی مدعو تھیں۔ کوئی تین دن کے بعد واپسی ہوئی۔
نواب بگٹی سے بعض دفعہ خوب مجلس ہوتی۔ اُس وقت میری شادی نہیں ہوئی تھیں اس لیے رات گئے تک گفتگو چلتی رہتی۔ ایک شام مجلس جم گئی۔ نواب کے مہمان جاچکے تھے، ہم دونوں اکیلے تھے۔ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ رات کے 12 بجے ہوں گے میں نے اُن سے کہا اب جانا چاہتا ہوں، تو پوچھا: تمہاری شادی ہوگئی ہے؟ بتلایا: نہیں۔ کہا: بیٹھو، تمہارا کون انتظار کرے گا! کہا: والد صاحب ہیں۔ محفل جم گئی تھی اور نواب صاحب اپنی زندگی کے اوراق پلٹتے جارہے تھے اور بات سے بات نکلتی چلی جارہی تھی۔ کوئی ایک بجے کا وقت ہوا تو ان سے کہا: جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: رات زیادہ ہوگئی ہے اکیلے جانا ٹھیک نہیں، کوئی بھی مار دے گا۔ انہوں نے اپنے ملازم سے کہا کہ جائو ڈرائیور کو بلائو۔ ملازم نے کہا: وہ سو رہا ہے۔ نواب نے کہا: اس کے کمرے سے چابی لے آئو۔ وہ چابی لے آیا، نواب نے گاڑی خود ڈرائیو کی اور مجھے میرے گھر تک چھوڑنے آئے۔ اس واقعے کو زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا۔ آج اس واقعے کو گزرے 41 سال ہوگئے ہیں، لگتا ہے کل کی بات ہے۔
ایک اور بات کا ذکر کرکے کالم کو مکمل کروں گا۔ نواب میری تحریر سے بہت زیادہ متاثر تھے اور اکثر کہتے: تم جو کچھ پوچھو گے بتادوں گا، میرے پاس آکر ایک مہینہ ٹھیرو اور لکھو۔ میں نے ایک اور صحافی کا نام لیا کہ اُس کو بلا لیں۔ نواب نے کہا: نہیں، تم لکھو، تمہاری تحریر اچھی ہے۔ کئی دفعہ خیال آیا کہ ڈیرہ بگٹی جائوں اور نواب کی زندگی کو قلم بند کروں، لیکن نہ جاسکا۔ کچھ انسان کے اختیار میں ہے اور کچھ نہیں۔ کئی دوست کہتے ہیں کہ آپ نے بڑی غلطی کی، چلے جاتے تو تاریخ کے اہم واقعات اور نواب کی زندگی تاریخ کا حصہ بن جاتے۔ مجھے خود اس کا بڑا ملال ہے۔ وہ بلوچستان کی تاریخ تھی جو ادھوری رہ گئی۔
ان سے 20 سال قرب رہا۔ اب یادیں رہ گئی ہیں۔ وہ بہت یاد آتے ہیں۔ ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔