وقت نے ایک بار پھر شہادت دے دی ہے کہ:
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی کے لیے ہے۔
خون رنگ لے آیا…
قربانیاں مقبول ہوئیں…
جدوجہد بار آور ہوئی اور عوام سرخرو ٹھیرے……
مظلوم، الحمدللہ! سر اٹھا کے چل رہے ہیں اور ظالم سر جھکائے، منہ چھپائے، کونوں کھدروں میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔
ظلم اور جبر کی سرخیل… خونی حسینہ بنگلہ دیش کے اقتدار کے ایوان سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لے چکی ہے۔ پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا…!
تاریخ نے ایک بار پھر ورق پلٹا ہے اور یہ سوال دہرایا ہے کہ:
کوئی ٹھیرا ہو، جو لوگوں کے مقابل تو بتائو…؟
خونی حسینہ کو مگر اس حقیقت کے ادراک میں بہت عرصہ لگا کہ خالق و مالکِ کائنات نے اُس کی رسّی دراز کررکھی تھی، اور وہ تمام ظالموں کی طرح یہی سمجھ رہی تھی کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے، حالانکہ دیمک اندر سے اس کرسی کو پوری طرح چاٹ چکی تھی، مگر وہ اقتدار کے نشے میں مست سب کچھ فراموش کرکے ظلم کی حدیں پھلانگتی چلی گئی۔ پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمٰن نظامی، دلاور حسین سعیدی، صلاح الدین قادر چودھری، علی احسن مجاہد، عبدالقادر ملا، میر قاسم علی، قمرالزماں، اے کے ایم یوسف، مولانا عبدالسبحان اور نہ جانے کون کون سے روشن جبیں اُس کے ظلم کا نشانہ بنے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے یا پسِ دیوارِ زنداں یہ کہتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے کہ:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اتحادِ امتِ مسلمہ کے داعی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سلامتی کے علَم بردار ان تمام قائدین اور ان کے ساتھیوں کا جرم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے 1971ء میں پاکستان توڑنے میں قاتل حسینہ کے باپ مجیب الرحمٰن کا ساتھ نہیں دیا۔ 2009ء میں دوبارہ اقتدار پر قابض ہونے اور مخالفین پر مختلف پابندیوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے حربوں کے ذریعے وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ بڑی تعداد میں مخالفین کو پھانسی گھاٹ اور باقی ماندہ کو جیل کی کال کوٹھریوں میں پہنچا دینے کے بعد اب کوئی اُس کے اقتدار کو چیلنج نہیں کرسکے گا، مگر دوسری جانب حق و صداقت کے علَم بردار اس یقین سے نہایت جرأت و پامردی سے سب کچھ برداشت کررہے تھے اور ایک کے بعد دوسری قربانی دیتے چلے جارہے تھے کہ ان کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ:
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے!
پانچ بار وزیراعظم بنگلہ دیش رہنے کے دوران ظلم و ستم کا ہر حربہ آزمانے کے باوجود قاتل حسینہ اہلِ حق کے حوصلوں کو پست کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ وہ اپنی سازشوں میں مصروف تھی اور رب کائنات اپنی تدبیر کررہا تھا… چنانچہ وقت نے ایک اور کروٹ لی۔ کم و بیش ایک ماہ قبل 1971ء کی نام نہاد جنگِ آزادی کے سپاہیوں ’’مکتی باہنی‘‘ کے ارکان، ان کے بچوں، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کا 30 فیصد کوٹا مختص کیے جانے کے خلاف بنگلہ دیش کے عام طلبہ و طالبات اور نوجوانوں نے جدوجہد کا آغاز کردیا۔ حکومت نے اسے جماعت اسلامی کی سازش قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں جماعت اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا اور طلبہ تحریک کے مقابلے کے لیے عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو میدان میں اتار دیا جس سے قتل و غارت گری کا ایک بازار تو گرم ہوا مگر طلبہ تحریک مزید شدت پکڑ گئی۔ قاتل وزیراعظم حسینہ واجد نے 13 جولائی کو قوم سے خطاب میں تحریک کو جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کی شرارت قرار دیتے ہوئے اپنی جانب سے طعنہ دیا کہ تحریک میں شامل لوگ دراصل 1971ء میں مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے والے البدر اور الشمس کے ’رضا کار‘ ہیں۔ مگر اس تقریر اور طعنے کا الٹا اثر ہوا اور ملک کے تعلیمی اداروں میں ’’تم کون، ہم کون… رضاکار… رضاکار‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ وزیراعظم نے آخری حربے کے طور پر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا، مگر اب یہ سب کچھ طلبہ تحریک کے لیے جلتی پر تیل کا کام کررہا تھا۔ 5 اگست کو طلبہ تحریک نے اپنا آخری رنگ جمایا اور مظاہرین فتح کے نعرے لگاتے وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوگئے اور توڑپھوڑ کے علاوہ قاتل حسینہ کے نصب کردہ شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے کو بھی تہِ تیغ کردیا۔ اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے 16 سالہ ظلم و جبر کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ حسینہ نے بھاگ کر اپنے سرپرست بھارت میں پناہ حاصل کرلی۔ قاتل حسینہ واجد کا انجام اُس جیسے دوسرے ظالم حکمرانوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ ؎ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو…!
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے
قرآنِ حکیم میں بار بار فاسق و فاجر قوموں اور وقت کے فرعونوں کے قصے بیان کرتے ہوئے دعوت دی گئی ہے کہ ’’اے آنکھوں والو! ان سے عبرت حاصل کرو۔‘‘ ماضیِ قریب میں شاہ ایران کا انجام دنیا نے دیکھا کہ ایران ہی نہیں، دنیا بھر میں کہیں بھی دو گز زمین دفن کے لیے دستیاب نہیں تھی… مگر افسوس کہ بہت کم لوگ ماضی اور حال کے ان ظالموں کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان میں آج عام آدمی جن ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے، لوگ فاقہ کشی کے بعد آئے روز بچوں اور اہلِ خانہ سمیت زندگی پر خودکشی کو ترجیح دے رہے ہیں، مگر ہمارے اربابِ اقتدار اور اہلِ نشاط کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ان غریب، بے بس، بے روزگار اور مہنگائی کے مارے عام لوگوں کے مسائل کے حل اور مصائب سے نجات کے لیے جماعت اسلامی کے ’عوامی دھرنے‘ کو دو ہفتے ہوگئے ہیں مگر حکمران سنجیدگی سے اس پر توجہ دینے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے مسلسل وقت ضائع کرنے کی روش پر عمل پیرا ہیں، جس کے نتائج حکمرانوں کی سوچ اور توقعات کے برعکس بھی نکل سکتے ہیں۔
(حامد ریاض ڈوگر)