یہ فرق کیوں ہے؟ کیا محض منافع خوری کو موردِ الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے؟
اسٹیٹ بنک کے گورنر جمیل احمد نے شرحِ سُود میں مزید ایک فیصد کمی کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ بڑی خبر ہے کیونکہ شرحِ سُود میں ایک فیصد کمی سے صنعت کاروں کو قرضوں پر سُود میں ریلیف ملے گا، یعنی لاگت نیچے آئے گی اور اُن کے لیے منافع کی گنجائش بڑھے گی۔
اچھی بات ہے۔ حکومت نے کم از کم صنعت کاروں کے لیے تو ریلیف کا اہتمام کیا۔ سُود کی شرح مسلسل 6 بار 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کے بعد 10 جون کو ڈیڑھ فیصد نیچے لائی گئی تھی۔ اب سُود کی شرح 19.5 فیصد ہے۔
اسٹیٹ بنک کے گورنر کا کہنا ہے کہ سُود کی شرح مزید گرے گی، مہنگائی اب قابو میں آرہی ہے، ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بلند ہورہی ہے، بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہورہا ہے اور زرِمبادلہ کے ذخائر بھی مستحکم ہورہے ہیں۔ اُنہوں نے یہ ’’مژدۂ جاں فزا‘‘ بھی سنایا ہے کہ مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک لائی جاچکی ہے اور کوشش ہے کہ اِسے ایک سال کے اندر 5 سے 7 فیصد پر لایا جائے۔ اس پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ
اُمید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے!
اس بات پر تو یقین رکھ سکتے ہیں کہ حکومت ایک سال کے اندر مہنگائی کی شرح کو 5 فیصد تک لے آئے گی، مگر یہ بھی تو بتایا جائے کہ اِس ایک سال میں عوام پر کون کون سی قیامت ٹوٹے گی، وہ کن کن جاں گسل مراحل سے گزریں گے؟
اسٹیٹ بنک کے گورنر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ مہنگائی مرحلہ وار نیچے آرہی ہے۔ مگر صاحب! کچھ خریدنے نکلیے تو بازار کی زمینی حقیقتیں کچھ اور ہی کہانی سُنارہی ہوتی ہیں۔
مہنگائی ختم کرنے کے دعووں پر اِس لیے یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ حکومت کے فرامین کے باوجود مہنگائی تو ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لیتی۔
زرِمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں عجیب و غریب تصورات پائے جاتے ہیں۔ ہم اُن ملکوں میں سے ہیں جہاں کسی بڑے بیرونی قرضے کی مد میں ملنے والی رقم کو بھی زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور استحکام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ترسیلاتِ زر قومی خزانے کو مستحکم تر کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہے، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت اپنے کارناموں میں ترسیلاتِ زر کی بڑھوتری کو بھی گنوانے بیٹھ جاتی ہے۔ ترسیلاتِ زر تو وہ رقوم ہیں جو ہمارے محنت کش ملک سے باہر دن رات ایک کرکے کماتے اور وطن بھیجتے ہیں۔ اِس میں کسی اور کا کیا کمال ہے؟
وفاقی وزیرِخزانہ محمد اورنگ زیب نے شرحِ سُود کے گھٹائے جانے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ فِچ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بلند کردی ہے۔ یہ حکومتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ پالیسی ریٹ یعنی سُود کی شرح کو مزید نیچے لانے پر بھی محنت کی جارہی ہے۔
محمد اورنگ زیب کہتے ہیں کہ پاکستان پر عالمی اداروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔ نجی شعبہ بھی تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ یہ بات اُنہوں نے بالکل درست کہی۔ ہمارے ہاں نجی شعبہ ہی تو پروان چڑھتا آیا ہے۔ سرکاری شعبے کے اداروں کا چُن چُن کر تیا پانچا کیا جاتا رہا ہے۔ اِس وقت بھی یہی کیفیت ہے بلکہ اِس میں غیر معمولی شدت آگئی ہے۔
نجی شعبے کو ہر معاملے میں کھلی چھوٹ دی جاچکی ہے۔ ایک طرف تو وہ کھل کر منافع خوری کررہا ہے اور دوسری طرف اُس کی آمدنی پر ٹیکس برائے نام ہے۔ افسوس صد افسوس کہ جو لوگ بہت زیادہ کما رہے ہیں وہی ٹیکس چوری میں بھی آگے آگے ہیں۔ جو اپنی حق حلال، اور خون پسینے کی کمائی سے دو وقت کی روٹی کا بھی ڈھنگ سے اہتمام نہیں کر پارہے اُن کی جیب پوری کی پوری خالی کرانے کی کوششیں کسی مرحلے پر دم نہیں توڑ رہیں۔
حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے کرتی نہیں تھکتی اور اِدھر معاملہ یہ ہے کہ ہر چیز عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوئی جاتی ہے۔ کون سا معاملہ ہے جس میں عام آدمی کو بخشا جارہا ہے؟ کرائے پر رہنے والوں کا بہت بُرا حال ہے۔ وہ گھر کا کرایہ اور یوٹیلٹی بل ادا کرکے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے لیے کچھ بھی کس طور بچا پاتے ہیں یہ کوئی اُن کے دل سے پوچھے۔
ایک زمانہ تھا جب اشیائے خورو نوش صرف شہری علاقوں میں مہنگی ہوا کرتی تھیں۔ اب اس معاملے میں تقدیر نے دیہی اور شہری کی تفریق ختم کردی ہے۔ دیہات میں بھی گوشت مہنگا ہی مل رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں دودھ دہی بھی کم و بیش شہر والی قیمت ہی پر فروخت ہورہے ہیں۔ اِس کی کیا توجیہ کی جاسکتی ہے؟
کراچی میں ایک عجیب تماشا یہ دکھائی دے رہا ہے کہ بہترین، صاف ستھرے اور ہر اعتبار سے معیاری و ذائقہ دار پھل خاصی معقول بلکہ کم قیمت پر فروخت ہورہے ہیں اور دالوں، سبزیوں کے نرخوں کو پَر لگ گئے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس وقت کراچی میں بہترین آم 200 روپے فی کلو فروخت ہورہے ہیں اور ٹماٹر بھی 180 سے 200 روپے فی کلو کی حد کو چُھو رہے ہیں۔ اِس سے بھی زیادہ پُرلطف و افسوس ناک بات یہ ہے کہ انگور جیسی نعمت 300 روپے فی کلو کے نرخ پر دستیاب ہے اور بھنڈی، اروی اور دوسری سبزیاں 80 روپے پاؤ یعنی 350 روپے فی کلو کے دام پر بیچی جارہی ہیں۔ بعض بالکل معمولی چیزیں یعنی ہرا دھنیا، پودینہ اور ہری مرچ وغیرہ بھی اِس قدر مہنگی ہیں کہ لوگ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ کیا پکائیں اور کیا کھائیں۔ روزمرہ کھانوں میں ڈالی جانے والی ہری مرچ کے نرخ بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔
کراچی میں ہر پھل باہر سے یعنی سندھ میں دور افتادہ مقامات یا پھر دیگر صوبوں سے آتا ہے۔ آج کل کراچی میں اچھی قسم کے کیلے 75 سے 100 روپے فی درجن کے نرخ پر مل رہے ہیں۔ آم، آڑو، چیکو، آلوچے، انگور، خوبانی اور دیگر پھل 300 سے 1500 کلومیٹر دور سے لائے جاتے ہیں۔ ترسیل کا کرایہ شامل کرنے کے باوجود اُن کی قیمت قابو میں ہے جبکہ سبزیوں کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جو 50 سے 200 کلومیٹر کے فاصلے سے لائی جاتی ہیں۔ بہت سی سبزیاں تو کراچی کے مضافات میں ملیر اور دیگر علاقوں کے کھیتوں سے آتی ہیں۔
یہ فرق کیوں ہے؟ کیا محض منافع خوری کو موردِ الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ حکومتی اداروں کی نااہلی اور بدانتظامی نہیں؟ اشیائے صرف کی قیمتیں کنٹرول کرنے کا میکینزم ہر حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ سوال صرف خلوصِ نیت کے ساتھ اس پر عمل کرانے کا ہے۔ پاکستان میں بھی صارفین کے حقوق کی پاس داری اور منافع خوری کے سدِباب سے متعلق قوانین موجود ہے مگر کرپشن اِتنی زیادہ ہے کہ اِن قوانین کی تعمیل تک نوبت پہنچ ہی نہیں پاتی۔
جب کسی معاشرے میں معاملات کو کنٹرول کرنے کے میکینزم کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا اُن سے کام لینا چھوڑ دیا جاتا ہے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ بنیادی اشیائے صرف کے دام بڑھتے بڑھتے قوتِ خرید سے باہر ہونے لگتے ہیں اور عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اِس وقت یہی کیفیت ہے۔ معاشرہ معاشی معاملات میں یکسر بے لگام ہے۔ لوگ چیزوں کے دام اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں اور وصولی بھی شروع کردیتے ہیں۔ سیلف ایمپلائمنٹ کے اُصول کی بنیاد پر کام کرنے والوں ہی کو دیکھیے۔ الیکٹریشین، ڈرائیور، پلمبر، مکینک وغیرہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں، یعنی جیسا مُرغا دکھائی دیتا ہے ویسی چھری نکالتے ہیں۔ ایک ہی کام کوئی سو روپے میں کردیتا ہے اور کوئی ڈھائی سو سے کم میں راضی نہیں ہوتا۔ رِزق کا وعدہ اللہ نے کر رکھا ہے مگر اِس وعدے پر یقین رکھنے والے خال خال ہیں۔
بلند ترین سطح پر کرپشن ہو تو پھر پورا معاشرہ کرپٹ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حکمرانی عوام کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کا نام ہے، مگر ہمارے ہاں یہ مال بنانے کا وسیلہ ہے۔ جو فیصلہ سازی کے عمل پر متصرف ہیں وہ اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے فیصلے کرتے ہیں اور اپنی اپنی تجوریاں بھرتے چلے جاتے ہیں۔
پاکستان کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی یہاں اُگتا یا پیدا ہوتا ہے وہ یہاں ٹھیک ٹھاک مہنگا ملتا ہے اور کبھی کبھی تو اُس کا بحران بھی پیدا کردیا جاتا ہے۔ گندم یہاں وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے مگر افسوس کہ اِسی سرزمین کے لوگ آٹے کے بحران میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مویشی اللہ نے بھرپور فیاضی کے ساتھ عطا فرمائے ہیں مگر پھر بھی اُن کا گوشت بھی مہنگا ہے اور دُودھ بھی۔ دالوں اور دیگر غذائی اجناس کے حوالے سے بھی اللہ نے ہمیں خوب نواز رکھا ہے مگر ذرا سے فائدے کے لیے یہ سب کچھ اسمگل کردیتے ہیں اور پھر سب اِس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔
عام آدمی کو سُود کی شرح اور ایسے ہی دیگر اقدامات سے کچھ غرض نہیں۔ وہ تو باٹم لائن دیکھتا ہے یعنی اُسے کچھ ملا یا نہیں۔ اگر ملک ترقی کرے، خزانہ بھر جائے لیکن عام آدمی کو کچھ نہ ملے تو ایسی ترقی کا کیا اچار ڈالنا ہے؟ سوال یہ ہے کہ جو حالات کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے اُس کے لیے ریلیف کا کچھ سامان کیا جارہا ہے یا نہیں؟
حکومت کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری یا بلندی کی بات کررہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے کا مژدہ سنایا جارہا ہے۔ صنعت کاروں کے لیے موافق ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ حکومت چاہے کوئی بھی دعویٰ اور وعدہ کرے، عام آدمی بے چارہ یہی سوچتا رہا ہے ؎
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب … تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا؟
حکومت اپنی جگہ سچی سہی، مگر عام آدمی بھی تو اپنی جگہ درست ہی سوچتا ہے۔ وہ کچھ زیادہ نہیں مانگتا، بس اتنا کہ گزر بسر ڈھنگ سے ہوجائے، کھانے پینے کی اشیا کے دام قابو میں رہیں تاکہ پیٹ اچھی طرح بھرے۔ ساری تگ و دَو پیٹ بھرنے ہی کے لیے تو ہے۔ اگر یہی کام نہ ہو پائے تو سمجھیں ساری محنت اکارت گئی۔