بہترین معاشرے کے لیے مثالی خاتون کی کردار سازی ہمارا مقصد ہے، جامعۃ المحصنات کی پرنسپل حفصہ اشرف سے گفتگو

جامعۃ المحصنات منصورہ لاہور 1990ء میں قائم ہوئی جہاں سات سالہ عالمہ فاضلہ کا کورس عصری علوم کے ساتھ کروایا جاتا ہے۔ یہاں علم کے حصول کے لیے پورے پاکستان سے طالبات آتی ہیں اور علم کے حصول کے بعدواپس جاکر اپنے اپنے شہروں اور علاقوں میں فروغِ علم کے لیے کوشاں ہوجاتی ہیں۔

پچھلے دنوں ہم لاہور گئے تو جامعۃ المحصنات منصورہ کی پرنسپل حصفہ اشرف سے ملاقات ہوئی تو ہم نے جامعہ کے بارے کچھ سوالات کیے۔ یہاں ہم اپنے قارئین کے لیے یہ سوال و جواب پیش کررہے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: جامعۃ المحصنات کے قیام کے کیا مقاصد تھے؟ اور ان مقاصد میں کتنی کامیابی حاصل ہوئی؟

حفصہ اشرف: جامعہ کے قیام کا مقصد بہترین معاشرے کے قیام کے لیے ایسی باعمل طالبات تیار کرنا ہے جو دینی و عصری علوم سے آراستہ ہوں اور اپنے دائرۂ کار میں مثالی خاتون کا کردار پیش کریں۔ جامعۃ المحصنات منصورہ لاہور اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے، اس کے بعد تو پورے ملک میں اس کی شاخیں کھلیں۔ منصورہ میں ابتدا میں پورے ملک سے طالبات نے داخلے لیے، خاص طور سے ڈی جی خان، چترال اور سندھ سے بچیاں یہاں داخل ہوئیں۔ انہوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں جاکر مدرسے کھولے۔ ہمارا ایک شعبہ ایسے مدرسوں پر نظر رکھتا ہے اور وقتاً فوقتاً ان کا جائزہ لیتا ہے، جب یہ مدرسے اس معیار کے ہوجاتے ہیں تو پھر مرکز ان کو جامعۃ المحصنات کا درجہ دے دیتا ہے۔ ایسی جامعات کو ذیلی جامعات کہا جاتا ہے۔

بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمارت نہ ہونے کے باعث فارغ ہونے والی طالبات اپنے گھروں میں مدرسہ کھولتی ہیں اور بچوں، لڑکیوں اور خواتین کے لیے الگ الگ درجے بناتی ہیں، پھر جب الگ سے گھر کا انتظام ہوجاتا ہے تو باقاعدہ الگ مدرسہ بنادیا جاتا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ کے ہاں ساری طالبات ہاسٹل میں رہتی ہیں؟ جامعہ کی انتظامی صورتِ حال کیا ہے؟

حفصہ اشرف: بیرونِ شہر سے آنے والی طالبات کے لیے ہاسٹل کا انتظام ہے، باقی مقامی بچیاں ہوتی ہیں جو گھروں کو واپس جاتی ہیں، ہاں اگر ان میں سے کسی کے والدین ہاسٹل میں رکھنے کی درخواست دیتے ہیں تو ہم اس کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ طالبات کا ہاسٹل جامعۃ المحصنات کے ساتھ ہے جو منصورہ کے اندر ہے۔ سیکورٹی کا انتظام ہے۔ دیگر سہولیات بھی موجود ہیں۔

جامعہ کی مختلف انتظامی کمیٹیاں ہیں جن میں شعبہ مالیات، شعبہ نصاب، شعبہ امتحانات، شعبہ آئی ٹی، شعبہ تربیت، شعبہ میڈیکل وغیرہ شامل ہیں۔

طالبات کی اکثریت گائوں اور قصبوں سے آتی ہے لہٰذا ان کی تعلیم کا معیار شہر کی لڑکیوں کی نسبت کمزور ہوتا ہے اس لیے ان پر محنت زیادہ کرنی ہوتی ہے۔ اساتذہ بہتر نتائج کے لیے بہت محنت کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ 2015ء سے رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات میں مستقل محصنات کی کوئی نہ کوئی بچی پوزیشن لیتی رہی ہے۔

پھر بچیاں ایک وقت میں دو دو امتحانات بھی دے رہی ہوتی ہیں۔ ایک مدرسے کا اور دوسرا کالج کا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ بچیوں کو عصری علوم سے واقف رکھیں، لہٰذا انٹر کے بعد بی اے کرواتے ہیں۔ ماسٹر کرنا چاہتی ہیں تو وہ بھی کرواتے ہیں۔ یوں بھی درسِ نظامی کے بعد انہیں ہائر سیکنڈری اسکول سے برابری مل جاتی ہے اور اس کی بنیاد پر وہ یونیورسٹی میں ایم فل میں داخلہ لے سکتی ہیں۔ ہماری طالبات نے اس طرح ایم فل کیا ہے، اور پھر اس بنیاد پر لیکچرر شپ حاصل کی ہے۔ بہت سی طالبات نے تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنے اپنے مدرسے بنائے جن کو بعد میں جانچ کر ذیلی جامعات کا درجہ دیا گیا۔

فرائیڈے اسپیشل: طالبات کی تربیت کے لیے آپ کی کیا کوششیں ہوتی ہیں اور مختلف علاقوں، ثقافت اور تہذیب سے آنے والی طالبات کی تربیت میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

حفصہ اشرف: یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کردار سازی اور تعمیر سیرت کا فریضہ ذہنی اور فکری لحاظ سے تربیت یافتہ اساتذہ ہی ادا کرسکتے ہیں۔ جامعہ کا نصاب طالبات کی علمی اور فکری تربیت میں نہایت معاون ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ماہانہ بنیادوں پر علما اور محققین کے لیکچر رکھوائے جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے فارغ التحصیل طالبات کے لیے مختصر دورانیے کا ’’لیڈر شپ کورس‘‘ اور ’’فروغِ ذات‘‘ کورس کروایا جاتا ہے۔ یوں طالبات کو مستقبل سے متعلق راہ نمائی دینے کے علاوہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے داعیہ، مبلغہ بننے اور معاشرے کی قیادت سنبھالنے کے لیے راہ نمائی دی جاتی ہے۔

منصورہ جامعہ میں اس وقت 175 بچیاں ہاسٹل میں رہ کر اور پچاس کے قریب مقامی بچیاں علم حاصل کررہی ہیں۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف علاقوں سے بچیاں آتی ہیں، اس طرح بہت سارے کلچر جمع ہوتے ہیں۔ کشمیر، چترال، پنجاب، جنوبی پنجاب، ڈی جی خان وغیرہ سے بچیاں آتی ہیں جو مختلف ماحول اور معاشرت سے تعلق رکھتی ہیں، انہیں سنبھالنے اور سمجھنے میں اساتذہ بہت محنت کرتی ہیں۔ بہت خیال، محبت اور ہمت افزائی کے ساتھ انہیں آگے بڑھاتی ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: طالبات کو یہاں ہاسٹل میں رہنے میں مشکلات ہوتی ہیں یا وہ پریشان ہوتی ہیں گھر سے دور رہ کر؟اس کے لیے آپ کیا کرتے ہیں؟

حفصہ اشرف: بچیوں کو گھر سے دور رہنے میں چند دن تو پریشانی ہوتی ہے، یہ ایک فطری بات ہے، لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ عادی ہوجاتی ہیں، ایک روٹین میں کام کرنا سیکھتی ہیں۔ ان کے والدین ان سے ملنے آتے ہیں۔ ہم والدین سے فیڈ بیک بھی لیتے ہیں، خود بھی وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچیوں میں واضح تبدیلی دیکھی ہے۔ مدرسے کے معیار اور ماحول کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اساتذہ کے بچے بھی یہاں داخل ہیں اور وہ تعلیم و تربیت کے معیار سے مطمئن ہیں۔

عام مدارس میں سختی کا تصور ہوتا ہے، ہم یہاں ترغیب اور شوق سے ہرمعاملے میں انہیں آگے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، مذاکروں اور تقریری مقابلوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے بین المدارس اور بین الکالجز مقابلوں میں ہماری طالبات نمایاں پوزیشن حاصل کررہی ہیں۔

طالبات کو ہر سال مطالعاتی اور تفریحی دورے کروائے جاتے ہیں۔ پچھلے سالوں میں طالبات لاہور میوزیم، شاہی قلعہ، واہگہ بارڈر، جلو پارک، چھانگا مانگا، کھیوڑہ کی کان، دانا ریزورٹ، ہیڈ بلوکی اور روزپاک وغیرہ کا دورہ کرچکی ہیں۔

طالبات کے لیے کھانے کی تیاری، صفائی، سلائی، باغبانی اور کمپیوٹر کے مختصر کورسز کروائے جاتے ہیں۔ کچھ وقت ذاتی مصروفیات کے لیے دیا جاتا ہے۔

اساتذہ طالبات کے ساتھ ذاتی تعلق بناتی ہیں، ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے۔ ہر طالبہ کا ریکارڈ مرتب ہوتا ہے، فائل بنتی ہے، پڑھائی کے ساتھ کھیل پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ کھیل کے لیے ایک پیریڈ ہوتا ہے۔

نوے فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والی بچیوں کو وظائف جاری کیے جاتے ہیں۔ جامعۃ المحصنات کا مقصد بچیوں کی فکری اور عملی صلاحیتوں کو جدید علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کے ذریعے نشوونما دینا ہے۔ پھر آگے بڑھ کر ان کے ذریعے بہترین معاشرے کے قیام کے لیے ایسی باعمل طالبات تیار کرنا جو دینی و عصری علوم سے آراستہ ہوں اور اپنے دائرۂ کار میں مثالی خاتون کا کردار پیش کرسکیں۔

فرائیڈے اسپیشل: بہت شکریہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا۔