حکمران شمسی توانائی کے منصوبوں میں نیک نیت ہیں؟
ہمارا پیارا پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے، نازک ادوار سے گزر رہا ہے اور مسلسل بحرانوں کی زد میں ہے۔ کبھی سیاسی بحران، کبھی معاشی بحران، کبھی معاشرتی اور کبھی دفاعی، قومی سلامتی و بقا کا بحران، اور نہ جانے کون کون سے بحران ہیں جن سے اس ملک کو گزرنا پڑا ہے، مگر سلام ہے ہمارے اربابِ اقتدار اور اختیار کی دانش و بینش کو، کہ کبھی قوم کو مایوس نہیں ہونے دیا، کہ مایوسی بہرحال گناہ ہے جس میں مبتلا ہونے سے ہمارے خالق و مالک نے منع فرمایا ہے، چنانچہ ہمارے اربابِ اقتدار نے ہمیشہ قوم کو ’’پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ‘‘ کا سبق ہی پڑھایا اور خوابوں اور سرابوں ہی کے ذریعے سہی، عوام کو ترقی و خوشحالی کی منزل سے جلد ہم کنار ہونے کی نوید سناتے رہے۔ کبھی خودساختہ فیلڈ مارشل کے دور میں ’’عشرۂ ترقیات‘‘ منایا گیا، پھر پاکستان دولخت ہوگیا تو جناب بھٹو نے ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں لانے کا دعویٰ کیا، جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ عرصۂ اقتدار میں ملک ’نظام مصطفیٰؐ‘ کی برکات سے مستفید ہوتا رہا، جس کے بعد اُن کے سیاسی وارث میاں نوازشریف کی قیادت میں بھٹو کی بیٹی کو یہ طعنہ دیتے اور نعرۂ مستانہ بلند کرتے میدان میں اترے کہ ؎
تم نے ڈھاکہ دیا، ہم نے کابل لیا
اب لینا ہے کشمیر، نعرۂ تکبیر
میاں نوازشریف نے پاکستان کو ’’ایشیا کا ٹائیگر‘‘ بنانے کے دعوے کیے تو جناب عمران خان نے یہاں ’’ریاست مدینہ‘‘ کو وجود بخشنے کا نعرہ لگایا، مگر جب وہ اقتدار سے رخصت ہوئے تو قوم کو بتایا گیا کہ خزانہ خالی ہے، ملک شدید معاشی بحران سے دوچار اور دیوالیہ ہونے کے قریب تر ہے۔ چنانچہ میاں شہبازشریف کی قیادت میں ’’سیاست نہیں ریاست‘‘ بچانے کی اَن تھک جدوجہد کی گئی۔ آج کیفیت یہ ہے کہ ملک تو شاید دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے مگر غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے عفریت نے ایک ایک گھر کا گھیرائو کر رکھا ہے اور لوگ اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں، اور دیگر تمام ضروریاتِ زندگی تو ایک طرف، صرف حکومت کے مسلط کردہ بجلی کے بلوں اور ان پر درجن بھر سے زائد مختلف قسم کے ٹیکسوں کی ادائیگی کے لیے گھروں کا سامان بیچ رہے ہیں۔ مگر پریشانی یہ ہے کہ سامان بیچنے کا یہ سلسلہ کب تک چل سکے گا؟ جب سب سامان بک جائے گا تو پھر کیا ہوگا…؟
حکومت نے اس صورتِ حال سے نجات کے لیے عوام کو شمسی توانائی کا راستہ دکھایا ہے۔ جناب وزیراعظم نے بلوچستان کے تمام ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے اور اس کے اخراجات حکومتِ پاکستان کی طرف سے برداشت کیے جانے کا اعلان کیا ہے، جب کہ وزیراعظم کی حقیقی بھتیجی، ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے اپنے صوبے کے دو سو یونٹ تک بجلی کے صارفین کو شمسی توانائی کے پلانٹ حکومت کے خرچ پر مفت فراہم کرنے کی خوش خبری سنائی ہے جب کہ پانچ سو یونٹ تک کے صارفین کو بنکوں سے قرض کے عوض یہ پلانٹ مہیا کیے جائیں گے، یہ قرض بعد ازاں آسان قسطوں میں واپس کرنا ہوگا، جب کہ اس کا سود بھی پنجاب حکومت ادا کرے گی۔
شمسی توانائی کے یہ منصوبے نہایت مفید اور عوام کو بجلی کے بھاری بلوں سے نجات دلانے کی شاندار اسکیم محسوس ہوتے ہیں، مگر راقم الحروف ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے اور اس کا ’’دل مضطرب الحال ہے، معلوم نہیں کیوں‘‘۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ نصف صدی سے زائد مدت گزری جب راقم اسکول میں پڑھتا تھا تو اس کے نصاب کی کتب میں ایک مضمون ہوا کرتا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بلوچستان کے مقام سوئی سے نکلنے والی گیس کی صورت میں ایک عظیم نعمت سے نوازا ہے اور گیس کے یہ ذخائر اس قدر بھاری مقدار میں ہیں کہ پورا پاکستان بھی اسے استعمال کرتا رہے تو دو صدی تک کے لیے کافی ہوگی۔ چنانچہ اس گیس کی پورے ملک کو فراہمی کے لیے پائپوں کا جال شہر شہر اور گائوں گائوں پھیلایا جانے لگا اور پاکستانی اس نعمتِ خداوندی سے استفادہ کرنے لگے۔ پھر کم و بیش بیس برس قبل بڑے زور شور سے مہم چلائی گئی کہ پیٹرول اور ڈیزل وغیرہ سے ماحول میں آلودگی پھیلتی ہے، ان کی درآمد پر بھاری زر مبادلہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، جب کہ ان کے مقابلے میں گیس اندرونِ ملک ہی سے دستیاب اور پیٹرولیم مصنوعات سے خاصی سستی بھی دستیاب ہے، اس لیے عوام الناس ماحول کو آلودگی سے بچانے اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت کی خاطر اپنی گاڑیوں میں سی این جی کٹ اور گیس سلینڈر لگوائیں۔ اس مہم کو ’’گرین پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا اور عوام نے اس کی زبردست پذیرائی کی۔ چھوٹی بڑی گاڑیوں کی غالب اکثریت کو پیٹرول کے ساتھ ساتھ گیس پر چلانے کے لیے سی این جی کٹ اور گیس سلینڈر سے آراستہ کرلیا گیا۔ ایک نیا کاروبار شروع ہوا، بہت سے لوگوں کے روزگار کا بندوبست بھی ہوا، گاڑی مالکان بھی پیٹرولیم کے مقابل سستی گیس سے ہونے والی بچت پر شاداں و فرحاں دکھائی دینے لگے۔ مگر اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوئے ہم… ابھی چند برس بھی نہ گزرے تھے کہ معلوم ہوا ملک میں گیس کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، اور پھر لوگوں کو گاڑیوں میں گیس بھروانے کے لیے گھنٹوں لمبی قطاروں کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کچھ وقت مزید گزرا تو معلوم ہوا کہ گیس تو گھروں میں کھانا پکانے کے لیے بھی دستیاب نہیں اور اس مقصد کے لیے بھی زرمبادلہ خرچ کرکے ایل این جی بیرونِ ملک سے درآمد کی جارہی ہے۔ ہم حیران تھے کہ جب دو سو برس تک کے ذخائر کا سبق ہمیں پڑھایا جارہا تھا اُس وقت تک تو شاید ماہرین کو پاکستان کی گیس کی حقیقی ضروریات یا ملک میں موجود قدرتی گیس کے ذخائر سے متعلق درست اندازہ نہ ہو، مگر جب حکومت ’گرین پاکستان‘ کی مہم چلا رہی تھی کیا اُس وقت بھی ہمارے ماہرین حقیقی صورتِ حال سے لاعلم تھے؟ جب گیس کی اس قدر شدید قلت تھی کہ آج چولہوں میں جلانے کے لیے بھی مطلوبہ مقدار میں گیس فراہم کرنا گیس کمپنیوں کے لیے ناممکن ہورہا ہے اور بجلی ہی کی طرح گیس کی لوڈشیڈنگ بھی معمول بن چکی ہے تو اپنے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی نااہلی پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جب گیس دستیاب نہیں تھی تو ان لوگوں نے قوم کا اربوں کا زرمبادلہ سی این جی کٹس، گیس سلینڈرز اور گیس فلنگ اسٹیشنز کی مشینری کی درآمد پر کیوں ضائع کروایا۔ آج ماحول کی آلودگی کے حوالے سے بھی کوئی حقیقی بہتری کہیں دکھائی نہیں دیتی بلکہ الٹا لاہور اور کراچی جیسے شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہیں، دوسری جانب بڑی بڑی شاہراہوں کے دونوں طرف سی این جی اسٹیشنوں کی عمارات اور مشینری کا ملبہ ہمارے منصوبہ سازوں کی بے تدبیری پر نوحہ کناں ہے کہ جب گیس کے ذخائر ختم ہورہے تھے تو ان فلنگ اسٹیشنوں کے لائسنس کیوں اندھا دھند جاری کیے گئے اور ملک و قوم کا کھربوں روپے کا سرمایہ مٹی میں کیوں ملایا گیا؟ کیا ان بے تدبیر و نااہل حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کو کبھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے گا…؟
شمسی توانائی کے نئے شروع کیے جانے والے منصوبوں سے متعلق بھی راقم الحروف کے دل و دماغ اسی خوف میں مبتلا ہیں کہ بظاہر تو یہ منصوبے عوامی فلاح و بہبود کا ذریعہ دکھائی دے رہے ہیں، مگر قوی خدشات اس امر کے موجود ہیں کہ ان کے پسِ پردہ بھی قومی خزانے کی لوٹ مار کا پروگرام ہے۔ اول تو سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ وزیراعظم کے ہونہار فرزند اور ساتھیوں نے والدِ محترم کی طرف سے سولر پینلز ڈیوٹی فری درآمد کرنے کی اجازت لے کر بہت بڑی تعداد میں یہ پینلز بیرونِ ملک سے درآمد کروا لیے ہیں جو اب بھاری منافع پر عوام کے ساتھ ساتھ سرکار کو بھی فروخت کیے جارہے ہیں۔ اس طرح عوام کو مفت یا قسطوں پر سولر پینلز کی فراہمی کی آڑ میں قومی خزانے کو بھاری نقصان اور حکمران شریف خاندان کو نقد مالی مفاد پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اگلے مرحلے میں جب یہ مفاد حاصل ہوچکے گا تو سی این جی کی طرح شمسی توانائی کی مفت یا سستی فراہمی کے راستے میں بھی حکومتی سطح پر رکاوٹیں کھڑی کرنا اور اس پر مختلف پابندیاں یا ٹیکسز وغیرہ عائد کیا جانا لازم ہے۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ حکومت اس وقت بجلی مہنگے داموں فروخت کرنے کے علاوہ ہر صارف سے مختلف ناموں سے ایک درجن سے زائد ٹیکس وصول کررہی ہے، جب صارفین شمسی توانائی کے استعمال کے باعث مہنگی بجلی کے بھاری بلوں سے جان چھڑا لیں گے تو ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس بلوں پر وصول کیے جانے والے سراسر ناجائز درجن بھر سے زائد ٹیکسوں کی وصولی کا بھی جواز باقی نہیں رہے گا جس کا نتیجہ حکومت کی آمدنی میں اربوں روپے ماہانہ کمی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ کیا حکومت یہ خسارہ برداشت کرپائے گی؟ یا اس کی وصولی کو ہر صورت یقینی بنانے کے لیے کوئی نیا چور راستہ تلاش کرے گی…؟
پاکستان کے پاس اس وقت 45 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے وسائل دستیاب ہیں، جب کہ ملک کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 27 ہزار میگاواٹ بجلی ہے۔ حکومت نے آئی پی پیز سے جو معاہدے کر رکھے ہیں ان کے مطابق یہ منصوبے بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، حکومت انہیں ان سے طے شدہ انتہائی مہنگے نرخوں کے مطابق ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔
بجلی کے ان منصوبوں میں سے اگرچہ 90 فیصد شریف خاندان، زرداری خاندان، جہانگیر ترین، منشا گروپ وغیرہ وغیرہ پاکستانی حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں مگر چونکہ حکمرانوں کے اپنے مفادات ان سے وابستہ ہیں اس لیے وہ ان معاہدوں سے متعلق نظرثانی اور انہیں حقیقت پسندانہ بنانے پر بھی تیار نہیں۔ انہی معاہدوں کے تحت بجلی حاصل کیے بغیر ان منصوبوں کی پیداواری لاگت کے مطابق امریکی ڈالروں میں ادائیگی کے لیے ہی حکومت آئے روز بجلی کے نرخ بڑھاکر عوام کا خون نچوڑ رہی ہے، مگر جب ملک کے بجلی صارفین کی ایک بڑی تعداد شمسی توانائی پر منتقل ہوکر حکومتی بلوں کے چنگل سے نکل جائے گی تو حکومت یہ وصولیاں کیسے کرے گی؟ اور آئی پی پیز کی بجلی کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود ان کی ادائیگیوں کا معاملہ کیسے حل کرے گی…؟ خدشہ ہے کہ حکومت عوام کو آسانی سے اپنے چنگل سے نکلنے نہیں دے گی، اور اسی لیے راقم الحروف اس خوف میں مبتلا ہے کہ حکومت قومی خزانے اور عوام سے شمسی توانائی پر کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کروانے کے بعد کوئی نیا جال غریب عوام کو پھانسنے کے لیے ضرور بچھائے گی۔ اللہ خیر کرے…!!!