قصہ یک درویش!معاہدہ تاشقند کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک

ہماری خواتین یونیورسٹی مہم جاری تھی اور اُس زمانے میں صوبائی وزیرتعلیم بیگم زاہدہ خلیق الزماں تھیں۔ ان کے میاں چودھری خلیق الزماں مسلم لیگ کے پرانے رہنمائوں میں سے تھے جنھوں نے قائداعظمؒ کے ساتھ تحریک پاکستان میں کام کیا تھا۔ وہ مسلم لیگ کے شعبہ نشرواشاعت کے سیکرٹری تھے۔ اُس زمانے میں انہی کے اہتمام سے مولانا مودودیؒ کے دو قومی نظریے کے حق میں ترجمان القرآن میں چھپنے والے مضامین کتابچوں کی صورت میں چھاپے جاتے اور پھر پورے ملک میں تقسیم کیے جاتے۔ بیگم زاہدہ ایمبیسیڈر ہوٹل میں مقیم تھیں، وہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ ہماری باتیں غور سے سنتی رہیں اور بیچ بیچ میں تحسین بھی کرتی رہیں۔

آخر میں وزیر محترمہ فرمانے لگیں ’’آپ کی آمد کا میں شکریہ ادا کرتی ہوں، آپ ایک اچھے مقصد کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، مگر آپ جانتے ہیں ہم وزراء خودمختار تو نہیں ہوتے، ہمیں اپنے پارلیمانی لیڈر اور حکومتی ذمہ داران کے فیصلوں کی پابندی کرنا ہوتی ہے، تاہم میں جہاں تک ممکن ہوا، آپ کے مطالبوں کے حق میں آواز اٹھائوں گی۔‘‘ ہمیں معلوم تھا کہ یہ لوگ تو محض شطرنج کے مہرے ہیں، پھر بھی ہمارا فرض ہے کہ اذان دے دیں۔ سو ہمیں اذان دینی ہے، آگے نتائج جو بھی نکلنے ہیں وہ حکمرانوں کی سوچ ہی کے غماز ہوں گے۔ بہرحال کئی سالوں کے بعد خواتین یونیورسٹی قائم تو ہوگئی ، مگر مخلوط تعلیم میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ نہیں معلوم کہ اس خواتین یونیورسٹی کے قیام میں ہماری کاوش کا بھی کوئی عمل دخل ہے یا دیگر عوامل نے یہ مرحلہ مکمل کرایا ہے۔

گورنمنٹ کالج میں داخل ہونے والے طلبہ و طالبات ذہانت اور اپنے امتحانی ریکارڈ کے لحاظ سے بہت اعلیٰ درجے کے ہوتے تھے۔ یہاں دو سالہ تعلیم کے دوران مقامی ٹیسٹوں اور یونیورسٹی کے تحت ہونے والے امتحانات میں آپس میں خاصا سخت مقابلہ ہوتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جمعیتی سرگرمیوں اور بھاگ دوڑ کے ساتھ امتحانی تیاری بھی بڑی ذمہ داری اور سنجیدگی سے کی جاتی تھی۔ ہمارا بی اے میں سالِ اول کا امتحان بھی یونیورسٹی کے تحت ہوا تھا اور سالِ دوم کا بھی۔ الحمدللہ دونوں سالوں میں اچھے نمبروں سے کامیابی ملی۔ دونوں سالوں کے کُل نمبر 700تھے جن میں سے میں نے 501 نمبر حاصل کیے۔ عربی میں گورنمنٹ کالج سے گولڈ میڈل بھی ملا۔

معاہدۂ تاشقند پر احتجاجی مظاہروں کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے۔ ایوبی آمریت کا عام لوگوں پر بڑا دبدبہ تھا، مگر اعلانِ تاشقند پر پنجاب اور خصوصاً لاہور میں طلبہ کے جو مظاہرے ہوئے انھوں نے آمریت کے سحر کو توڑنے میں کافی رول ادا کیا۔ مظاہرے کے پہلے روز لاہور پولیس نے اندھا دھند آنسو گیس پھینکی اور اسکولوں کے طلبہ کو بڑی بے رحمی سے زدوکوب کیا۔ گرفتاریاں بھی بہت ہوئیں۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا اور مظاہرین میں سے اکثر طلبہ روزے سے تھے، مجھے میرے بعض دیگر ساتھیوں کے ساتھ پولیس نے ایم اے او کالج کے احاطے سے عصر کے وقت گرفتار کیا اور پرانی انارکلی تھانے میں لا کر بند کردیا۔ گرفتاری کے اگلے روز ہم کیمپ جیل لاہور میں منتقل کردیے گئے۔ یہ میری پہلی گرفتاری تھی اور لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کا واحد گرفتار کارکن میں ہی تھا۔ ہمارے ایک زبردست حامی رافع الہدیٰ بھی گرفتار ہوئے تھے، مگر وہ ابھی جمعیت کے باقاعدہ رکن یا رفیق نہ تھے۔

تاشقند مظاہرے زیادہ طول تو نہ کھینچ سکے مگر ایوبی آمریت کے خلاف آگے چل کر اٹھنے والی تحریک کا پیش خیمہ یہی مظاہرے بنے۔ ایک عجیب بات یہ دیکھنے میں آئی کہ اُس دور میں موسمی مینڈکوں کی طرح بے شمار کاغذی طلبہ تنظیمیں وجود میں آئیں، کسی بھی تنظیم کے لیے ایک لیٹر پیڈ اور ایک مہر تیار کرا لینا اخبارات میں خبریں چھپوانے کے لیے کافی ضمانت تھی۔ کئی پیشہ ور طالب علم تو بلامبالغہ کئی کئی تنظیمیں اپنی جیب میں اٹھائے پھرتے تھے۔ اعلانِ تاشقند کے موقع پر ایک بات یہ بھی شدت سے محسوس ہوئی کہ جامعہ پنجاب میں طلبہ کی منتخب یونین کا عدم وجود ایک بڑی محرومی تھی۔

گورنمنٹ کالج سے فراغت کے بعد جامعہ پنجاب اورینٹل کالج میں عربی زبان میں داخلہ لیا۔ گورنمنٹ کالج میں تعلیم کے دوران جمعیت میں میری رکنیت منظور ہوچکی تھی۔ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد حسب معمول ہاسٹل میں داخلہ لیا۔ وولنر ہاسٹل میں دو ڈھائی سال قیام رہا۔ میرے ہاسٹل کا کمرہ نمبر 4 طلبہ کا مرکز تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی مجلس یہاں لگی رہتی تھی۔ ہاسٹل کے خدام میں سے ایک شریف النفس بزرگ، چچا رحمت تھے۔ کینٹین سے جو چیز منگوانا ہوتی چچا رحمت وہ فوراً لے آتے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اورینٹل کالج (پنجاب یونیورسٹی اولڈکیمپس) میں ہمارے اساتذہ بہت محبت کرنے والے حضرات تھے۔ ان میں پروفیسر رانا احسان الحق (صدر شعبہ)، پروفیسر حافظ نورالحسن، پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، پروفیسر ڈاکٹر محمد یحییٰ، پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک، پروفیسر ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق اور دیگر اساتذہ بہت عظیم شخصیات تھیں۔ علم و فضل اور اخلاق و کردار میں بے مثال، جن میں سے اکثر محض استاد ہونے کے بجائے مربّی بھی تھے۔

یہاں دوسالہ تعلیم کے دوران زندگی کے مختلف مرحلے گزرے جو یادگار ہیں۔ ہمارے شعبے میں طلبہ و طالبات کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ کلاس کے بیچوں بیچ ایک موٹا سا پردہ ہوتا تھا۔ کلاس روم میں طالبات اسٹیج کے بائیں جانب اور طلبہ دائیں جانب بیٹھتے تھے۔ شعبے کی ایک آدھ طالبہ کے سوا سبھی طالبات باقاعدہ پردہ کرتی تھیں۔ اساتذہ کرام اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کوئی طالب علم طالبات کی جانب کسی صورت نہ جھانکے۔ اس طرح طالبات کو بھی ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ بلند آواز میں باتیں کرنے سے پرہیز کریں۔

میں ہاسٹل میں مقیم تھا اور ساتھ لاہور جمعیت کا ناظم بھی تھا۔ ان سالوں میں مظاہروں کی وجہ سے تعلیمی ادارے اکثر بند رہتے تھے اور پھر ہاسٹلوں سے بھی طلبہ کو نکال دیا جاتا تھا۔ ہاسٹل میں رہائش کی اجازت کے لیے بہت سخت اور کٹھن شرائط لگائی جاتی تھیں۔ ہمارے ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ سید محمد اکرم شاہ مرحوم کی حسین یادیںاب تک دل میں موجزن ہیں۔ آپ کے سامنے جب میں نے جمعیت میں اپنی ذمہ داریوں اور اس حوالے سے لاہور میں قیام کی مجبوری کا عذر پیش کیا تو آپ نے میرے ساتھ نرمی برتی۔ میرے کمرے میں بعض ساتھی بھی رات کو قیام کرتے تھے، جب کہ بیشتر ساتھیوں کا قیام سعید منزل میں ہوتا تھا۔ وہاں ایک بڑے کمرے میں اجتماعی رضائی کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کئی ساتھی بیک وقت آرام سے سو سکتے تھے۔

یونیورسٹی اور ہاسٹل بند ہوجانے کی وجہ سے ہاسٹل کی کینٹین بھی بند ہوجاتی تھی۔ ناشتے کا اہتمام کرنا ذرا مشکل تھا، مگر رکن جمعیت جناب عبدالجبار قریشی نے اس کا حل فوراً نکال لیا۔ کہنے لگے کہ آپ اس کی فکر نہ کریں بس کچھ پیسوں کا انتظام کردیں۔ پھر انھوں نے بجٹ بناکر بتایا کہ مٹی کے تیل کا چولہا، مٹی کے تیل کی بوتل، ایک کیتلی، چار پانچ کپ اور ایک چائے دانی، یہ میں لے آتا ہوں۔ ہر روز صبح بابا پھجے کی دکان سے دودھ لے آیا کروں گا اور بیکری سے ڈبل روٹی، مکھن اور جام مل جایا کریں گے۔ میں سارا کام بہت آسانی سے کرسکتا ہوں۔ قریشی صاحب کو ان کی مطلوبہ رقم دی گئی جس سے وہ سامان لے آئے۔ بقیہ ہر روز حسبِ ضرورت خرچ کرنا پڑتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا وظیفہ بھی اچھا خاصا ہوتا تھا اور گھر سے والد صاحب بھی حسبِ ضرورت رقم بھیج دیا کرتے تھے۔ یوں یہ عرصہ بہت سکون سے گزرا۔ اللہ سب ساتھیوں کو اجر دے کہ جو ہر کام میں تعاون کیا کرتے تھے۔

بارک اللہ خان، جس دور میں (1962-63ء)یونین کا انتخاب لڑ رہے تھے، میں تو اُس وقت اسکول کا طالب علم ہوا کرتا تھا۔ انھیں جو مقبولیت اس دور میں حاصل ہوئی وہ مثالی تھی، مگر ایک طرف انتخابات سے قبل ہی موجود یونین معطل کردی گئی اور پھر آئندہ کے لیے اس پر مکمل پابندی عائد ہوگئی۔ اس کے ساتھ بارک اللہ خان کو طویل عرصے تک نظربندی، ایذارسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور پھر رہائی عمل میں آئی تو نقل و حرکت پر سخت پابندی کے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔

بارک اللہ خان سے میری پہلی ملاقات اپنے گائوں میں 1962ء میں ہوئی۔ میرے تایا زاد بھائی پروفیسر عثمان غنی مرحوم اور بارک اللہ خان اُس زمانے میں جامعہ پنجاب میں مختلف شعبوں میں زیر تعلیم تھے اور جمعیت طلبہ کے اہم رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے۔ پروفیسر صاحب تو ان سالوں میں جامعہ پنجاب اسٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رہے۔ انہی کے ساتھ خان صاحب تشریف لائے تھے۔ میں اس وقت نویں جماعت کا طالب علم تھا اور مجھے بارک اللہ خان، خالق داد، پروفیسر محمد رفیق، محمد اسلم اور محمد لقمان کی اپنے گھر میں دعوت اور ضیافت کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان طلبہ میں سے ہمارے بزرگ سب سے زیادہ بارک اللہ خان ہی سے متاثر ہوئے۔ پھر بعد کے ادوار میں تو میرے خان صاحب سے اور ان کے تمام اہل و عیال سے بہت قریبی دوستانہ مراسم رہے۔ بارک اللہ خان کی وفات میرے بیرونِ ملک قیام کے دوران ہوئی۔ جب میں واپس آیا تو مرحوم کے بچوں سے قریبی رابطہ رہا۔ ان کے کئی بچوں کے نکاح بھی میں نے پڑھائے۔ مرحوم کی اہلیہ مرحومہ کی چند سال قبل وفات ہوئی تو ان کے صاحبزادے کا فون آیا کہ سارے خاندان کی خواہش ہے، والدہ کا جنازہ آپ پڑھائیں۔ چناں چہ مرحومہ کے جنازے میں شرکت اور امامت کا اعزاز حاصل ہوا۔ اب کچھ عرصے سے بچوں سے رابطہ منقطع ہے۔ کچھ بچے تو غالباً بیرون ملک چلے گئے ہیں۔

طلبہ کی منتخب یونین پر پابندی کے بعد جامعہ پنجاب سے کوئی قابلِ ذکر قیادت ابھی تک نہ ابھری تھی، ظاہر ہے یونین کے بغیر یہ ممکن بھی کیسے ہوسکتا تھا! گورنمنٹ کالج یونین کے صدر سعادت اللہ خان تھے مگر اس کالج کے روایتی انداز و مزاج کے مطابق وہ تو ڈرائنگ روم سیاست کے قائل تھے۔ میدان میں نکلنے والے حقیقی مجنون اور چُوری کھانے والے مجنون نماکرداروں میںزمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آرڈی نینس کے خلاف 1964ء میں جو زبردست مہم چلی اس نے آمرانہ حکومت کو خاصا پریشان کیے رکھا۔ جامعہ پنجاب میں بھی ملک کے بنیادی جمہوری نظام کی طرح کٹھ پتلی یونین بنائی گئی۔ اس میں نہ تو طلبہ کو نمائندگی دی گئی، نہ ہی طلبہ کی تائید انتظامیہ کے مسلط کردہ عہدیداروں کو ملی۔ ان لوگوں کے نام تک کوئی طالب علم نہ جانتا تھا۔ جو نام نہاد یونین کے کرتا دھرتا بنائے گئے ان کی کوئی عوامی پہچان تھی، نہ حیثیت۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے یونین کی بحالی کے لیے بڑی تگ و دو کی۔ خدا خدا کرکے 1966ء کے آخر میں یونین کی بحالی کا فیصلہ ہوا، میں اُس وقت بی اے سالِ اول میںگورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا۔

اسلامی جمعیت طلبہ نے نئے دستور کے مطابق الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ صدارتی امیدوار کے طور پر سید محمد عارف (شعبہ اسلامیات) رکن اسلامی جمعیت طلبہ کا نام اجتماعِ ارکان میں منظور ہوا۔ سید صاحب کی ظاہری وجاہت اور شخصیت بڑی مسحور کن تھی مگر وہ مزاجاً انتہائی دھیمے یعنی بارک اللہ خان سے بالکل مختلف تھے۔ بہرحال سید صاحب کے مقابلے پر لیفٹ اور رائٹ کے چھ سات امیدوار تھے۔ ان سب کے درمیان قدرِ مشترک اسلامی جمعیت طلبہ کی مخالفت تھی۔ اللہ کا شکر کہ اس مخالفت میں یکساں ہونے کے باوجود وہ کسی ایک امیدوار پر اکٹھے نہ ہوسکے۔ یوں ان کے متفرق گروپس اور امیدواران کی وجہ سے سید عارف صاحب کی کامیابی سوفیصد یقینی ہوگئی۔ مخالفین کی اس کمزوری اور انتشار کی کیفیت میں اسلامی جمعیت طلبہ کی بھرپور اور منظم تحریک نے انتخاب سے قبل ہی فیصلہ کردیا تھا کہ سید عارف بھاری اکثریت سے جیتیں گے۔ سیکرٹری کے لیے مشرقی پاکستانی طالب علم محی الدین احمد کی حمایت کرنے کا فیصلہ ہوا۔ سید صاحب تقریباً بارہ سو ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ان کے قریب ترین مخالف اعجاز عالم (لا کالج) کو چھ سو ووٹ ملے۔ سب مخالفین کے مشترکہ ووٹ 1750کے قریب تھے۔ ٹوٹل ووٹ تقریباً تین ہزار تھے۔

یونین کا سیکرٹری جنرل محی الدین بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا، مگر جمعیت کے ساتھ اس نے بعد میں سخت دھوکا اور غداری کی۔ یہاں میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ جیسا کہ اوپر اشارۃً ذکر ہوا ہے سید محمد عارف کے انتخاب میںاگرچہ جمعیت نے شاندار کامیابی حاصل کی، مگر مجموعی ووٹوں کے تجزیے سے ثابت ہوا کہ جمعیت کے مخالفین کے مجموعی ووٹ جمعیت سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ تھے۔ اس انتخاب سے بہرحال یہ حقیقت مسلّم ہوگئی کہ جامعہ پنجاب میں جمعیت سب سے بڑی انتخابی قوت ہے۔ جمعیت نے اپنی کامیابی کا ریکارڈ قائم رکھا۔ اس سے قبل عثمان غنی صاحب اور نصراللہ شیخ صاحب یکے بعد دیگرے جامعہ پنجاب یونین کے صدر منتخب ہوچکے تھے۔ اب کئی سالوں کے تعطل کے بعد بھی اللہ کے فضل و کرم سے جمعیت نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے (جاری ہے)