مغرب میں مسلمانوں کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو؟ یہ سوال جو کہ کیا جانا چاہیے اس شد و مد سے نہیں کیا جارہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بطور امت بازیافت کا عمل اس نہج تک نہیں پہنچ پایا کہ جہاں منظم حکمت ِ عملی کے ساتھ مربوط طور پر کام کیا جائے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے مغرب میں رہنے بسنے والے مسلمان اپنے اوپر کیے جانے والے حملوں کا جواب دے رہے تھے، یہ حملے اتنے منظم، مربوط اور مختلف سمتوں سے تھے کہ ان سے بچ نکلنا بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ 9/11کے بعد امریکہ میں نہ صرف مسلمان برقرار رہ جائیں گے بلکہ اسلام کی قبولیت میں حیرت انگیز اضافہ بھی ہوگا۔ مسلمان مغرب میں جس ٹراما سے گزر کر اب ایک مقام پر پہنچ چکے ہیں، بہتر یہ ہے کہ وہ اپنا آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرلیں تاکہ اس طویل سفر کے ثمرات کو سمیٹا جاسکے۔ اس ضمن میں ایک بات واضح رہے کہ مسلمانانِ مغرب کا مغرب میں کردار داعیانہ ہی رہے گا، کسی اقدامیت سے غیر جمہوری طور پر حکومت پر قابض ہونا مہلک ترین عمل ہوگا، جوکہ نہ صرف ناممکن ہے بلکہ اس سے سمتِ معکوس کا سفر شروع ہوجائے گا۔
اوّلین ترین چیز جو مسلمانوں کو اب برطانیہ میں بالخصوص اور پورے مغرب میں بالعموم کرنے کی ہے وہ علمی و عقلی بنیاد پر ایک ایسے لٹریچر کی تیاری ہے جو کہ اہلِ مغرب کے ذہن میں موجود، مسلمانوں اور اسلامی ریاست کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا نہ صرف جواب دے سکے بلکہ اسلام کا تصورِ انسان اور تصورِ دنیا جدید تناظر میں عصرِ حاضر کی مثالوں سے سمجھا سکے، اور مغرب کو یہ باور کروا سکے کہ اسلام دینِ مبین ہے اور یہ شریعت قیامت تک قابلِ عمل حل بتاتی ہے۔ مغرب آج جس الجھن کا شکار ہے اس کا اصل چہرہ مغرب میں بسنے والوں کے پاس موجود ہے۔ لہٰذا مشرق میں بیٹھے صاحبانِ حل و عقد کی علمیت سے کوئی انکار نہیں لیکن اُن کے پاس مغرب کا وہ سماجی تجربہ موجود نہیں، وہ علم کلام جس میں یہ گفتگو کی جاتی ہے یا جس لب و لہجے کو مغرب میں مقبولیت حاصل ہے یا جو اُن کے دلوں پر اثر کرسکے وہ تجربہ موجود نہیں۔ لہٰذا مغرب میں رہنے والے مسلمانوں نے جس طرح اسلام کے دفاع کا اہم ترین کام ان دو دہائیوں میں انجام دیا ہے اسی منطق، لب و لہجے اور مکالمے کی بنیاد پر یہ کام ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے ہو؟
اوّلین ترین چیز علم ہے… وہ علم جو نہ صرف دین کا ہو بلکہ دنیا کا بھی جدید ترین علم، جس کا انطباق حالات پر کرکے موازنہ اور نتائج اخذ کیے جاسکیں۔ یہ کام مشرق میں تو جاری ہے لیکن اس کو مغرب کے قالب میں ڈھالنے کے لیے یہاں موجود صاحبانِ علم کو اگر وہ علمِ دنیوی کے حامل ہیں علمِ دینی کی طرف متوجہ ہونا ہوگا، اور اگر وہ علمِ دینی کے حامل ہیں تو ان کو علمِ دنیوی کی جانب رجوع کرنا ہوگا۔ یہ کام باقاعدہ طور پر ادارے بناکر بھی کیا جاسکتا ہے اور انفرادی طور پر بھی۔ ایسے افراد کی شناخت کے بعد اُن کو جدید درس گاہوں میں بھیج کر ان درس گاہوں سے اپنے اہداف کے مطابق ریسرچ کے لیے تیار کرواکر اس تحقیق کو ان جدید درس گاہوں سے بھی کیا جاسکتا ہے جس کا مرکزی خیال جدید دنیا کے مسائل کا حل ہو۔ یہ کام ہر یونیورسٹی میں تحقیق کے نام پر کیا جارہا ہے اور اس میں مغرب کی جامعات میں تحقیق کے موضوعات کی کوئی قید نہیں ہے۔ اگر بہت منظم طور پر یہ کام کرنا ہے تو ان ہی جامعات میں فنڈنگ کرکے اپنی پسند کے موضوعات پر تحقیق کروائی جائے اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیے جائیں۔
یہ کام کسی حد تک دنیا کی بڑی جامعات آکسفورڈ یونیورسٹی و کیمبرج میں بھی ہورہا ہے، لیکن وہ محض اسلام کی تاریخ یا آرٹ تک محدود ہے۔ موجودہ حالات میں اسلام کیا کہتا ہے اُس سے اِس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لہٰذا مغرب کے مسلمانوں کی توجہ اور اوّلین ہدف علم کا حصول اور اس کا موجودہ حالات پر اطلاق اور اسلام کی رہنمائی ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں میری رائے یہ ہے کہ اب برطانیہ و امریکہ میں مسلمانوں کی تنظیموں کا اوّلین ہدف علم، تحقیق اور ایک ایسے لٹریچر کی تیاری ہو جوکہ اسلام کا روشن چہرہ مغرب کے حالات و سماج میں مغرب کے سامنے پیش کرسکے۔ اس لٹریچر میں جہاں ایمانیات ہوں وہیں مغرب کے موجودہ مسائل کا حل بھی عقلی و علمی دلائل کے ساتھ موجود ہو۔ اس کے لیے سماجی علوم، خاص طور پر سوشیالوجی، اکنامکس، نفسیات، ابلاغِ عامہ، طب اور علومِ دین کے حامل افراد کی ضرورت ہوگی۔ ان کے لیے وسائل بہم پہنچانا اس وقت کا سب سے بڑا جہاد ہے۔ میری نظر میں مغرب میں مساجد کے قیام سے بھی ضروری یہ کام ہے۔ یہ اس لیے اہم ترین ہے کہ دنیا چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے نفرت سے یا محبت و رحم سے اسلام یا مسلمانوں کی جانب دیکھ رہی ہے، ایک ایسا وقت کہ جب مسلمانوں کو کچھ سنانے کا موقع ہے دنیا ان کی جانب متوجہ ہے، اور وہ محض آدھی ادھوری باتوں، غیر منطقی یا جذباتی تقاریر میں وقت ضائع کریں اس سے بہتر ہے کہ اس کی مکمل تیاری کے ساتھ علوم کی دنیا میں ایک نئی جہت پیدا کی جائے جس میں انسانیت کے مسائل کا حل موجود ہو، اور یہی سنت ِ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے کہ جنہوں نے نہ صرف غلط روایات کا خاتمہ کیا بلکہ علم کی بنیاد پر دلیل و منطق سے کفار کے سوالوں کا جواب بھی دیا۔
دوسری اہم ترین ترجیح سیاست میں پیش رفت ہے۔ یہ کام کسی حد تک ہورہا ہے لیکن غیر منظم اور زیادہ جذباتی انداز میں… جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جیسے ہی کوئی کرائسس ختم ہوگا مسلمان واپس اسی پوزیشن پر چلے جائیں گے جہاں سے انہوں نے اس کا آغاز کیا تھا۔ لہٰذا دنیا بھر میں موجود تحاریکِ اسلامی کی یہ ترجیح ہو کہ وہ ایسے افراد تیار کریں، ان کا دست و بازو بنیں، اور جہاں ان کے پاس یہ قوت و وسائل موجود ہوں وہ خود اس میدان میں آئیں۔ میری نظر میں اسلامی نام سے کوئی الگ پارٹی بنانے سے قبل مغربی معاشروں میں موجود مسلمانوں کو موجودہ پارٹیوں میں سے اچھی پارٹیوں کا انتخاب کرکے اس سفر کا آغاز کرنا چاہیے، لیکن مدنظر یہ رہے کہ اس میں مسلمانوں کے مقابل مسلمان نہ آئیں، اور دوسرا عام افراد یعنی مغرب کی اکثریت کو یہ ثاثر نہ دیا جائے کہ یہ مسلمانوں کی عصبیت پر مبنی کوئی ایجنڈا لے کر آئے ہیں۔ ان کا ایجنڈا انسانیت کی حقیقی فلاح ہو جوکہ مسلمانوں کا اصل ہدف بھی ہے۔ یہ کام کتنا اہم ہے، اس کا اندازہ صرف برطانیہ کے موجودہ الیکشن سے لگالیں کہ جہاں آبادی کا محض 6.5 فیصد مسلمانوں نے نہ صرف غزہ پر برطانیہ میں منظم طور پر عام افراد کو شامل کیا اور اس کو برطانیہ کا سب سے بڑا مسئلہ بنادیا، اور اس الیکشن میں 23 مسلمان برطانوی ایوانِ زیریں کا حصہ بھی بن گئے، بلکہ انہوں نے لیبر پارٹی کو پانچ نشستوں پر شکست دینے کے ساتھ 21 نشستوں پر 29 فیصد کم ووٹ کے ساتھ خطرے کی گھنٹی بجادی ہے جس کا اثر آئندہ انتخابات میں پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اس پوری مجموعی سیاسی صورت حال میں لیبر پارٹی جیت کے باوجود بھی مسلمانوں سے اپنے روابط نہ صرف بحال کرنا چاہتی ہے بلکہ گلے شکوے دور کرنے کے لیے وہ اب مسلمانوں کے پاس جارہے ہیں۔ اس دور میں عملی سیاست میں حصہ لینا ہی وہ عصا ہے کہ جس کے بغیر کلیمی کارِ بے بنیاد بن جاتی ہے۔
مغرب میں مسلمانوں کو آج جس سرعت و مربوط طور پر ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، شاید اس سے قبل نہ تھی۔ کیونکہ دو دہائیوں کے طویل عرصے میں مسلمان رسیونگ اینڈ پر تھے، وہ محض سن رہے تھے، اور اب زمانہ ان کی سننا چاہتا ہے۔ اس میں حکمت، تدبر، تفکر، علم و حلم کی شدید ضرورت ہے۔ اگر یہ کام اور دورِ حاضر کے چیلنج کو مسلمانوں نے انگیز کرلیا تو شاید اسلام کا یہ پیغام گھاس میں پانی کی طرح اس طرح پھیل جائے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو اور مغرب جوکہ خود کسی نئے نظام کی تلاش میں ہے آخرکار اس نظامِ حیات آفریں کو ہی اپنا لے۔ یہ تو اللہ کا کام ہے، وہ اپنے اَن دیکھے لشکروں سے بھی لے لیتا ہے۔ کیا معلوم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز فتنہ تارتار کی طرح مغرب سے ہوجائے۔
ہے بات عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اہلِ غزہ کی اہلِ مغرب کی جانب سے حمایت کے بعد یہ کوئی محض دیوانے کا خواب نہیں، لیکن اس کی عملی تعبیر کے لیے عمل کی ضرورت یقیناً ہے۔